Jacqueline Penney/AFPTV/AFP via Getty Imagesماہرین کا کہنا ہے کہ دوحہ میں حملے سے سفارتکاری کو دھچکا لگا ہے
قطر میں حماس کی قیادت پر اسرائیلی حملے نے خطے میں کشیدگی کو خطرناک حد تک بڑھا دیا ہے اور تجزیہ کاروں کا ماننا ہے کہ اس سے نہ صرف غزہ میں جنگ بندی کی کوششوں کو تباہ کیا ہے بلکہ اس سے مشرقِ وسطیٰ میں امریکہ کے کسی نئے اتحاد کے امکانات بھی مانند پڑ گئے ہیں۔
اسرائیل کا کہنا ہے کہ وسطی دوحہ میں ایک کمپلیکس پر حملہ ’درست‘ تھا۔ اس رہائشی کمپلیکس میں حماس کی مذاکراتی ٹیم موجود ہوتی ہے۔
اسرائیلی وزیر اعظم بنیامین نیتن یاہو کے مطابق حماس کی قیادت پر حملہ دو روز قبل یروشلم میں چھ افراد کے قتل اور 7 اکتوبر 2023 کو اسرائیل پر حملے کے جواب میں کیا گیا تھا۔
تاہم ماہرین کا کہنا ہے کہ قطر میں اسرائیلی حملے کے درو رسد نتائج دیکھنے میں آئیں گے کیونکہ دوحہ پر ایسے حملے کی پہلے کبھی مثال نہیں ملتی۔
Emmanuel Dunand/AFP via Getty Imagesاسرائیل نے اس حملے میں حماس کے رہنما خلیل الحیہ کو بھی نشانہ بنانے کی کوشش کی تھیجنگ بندی کے امکانات مانند
ہیو لواٹ مشرقِ وسطیٰ پر گہری نظر رکھتے ہیں اور یورپین کونسل آن فارن ریلیشنز (ای سی ایف آر) سے منسلک ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ حماس کی مذاکراتی ٹیم پر حملے سے غزہ میں جنگ بندی سے متعلق امریکی حمایت یافتہ مذاکرات کو شدید دھچکا لگا ہے۔
قطر، مصر اور امریکہ اس وقت حماس اور اسرائیل کے درمیان غزہ میں جنگ بندی اور یرغمالیوں کی رہائی کے لیے معاہدہ کروانے کی کوششیں کر رہے ہیں اور بطور ثالث اپنا کردار ادا کر رہے ہیں۔
ہیو لواٹ کے مطابق ’جن مذاکرات کاروں سے آپ مذاکرات کر رہے ہیں ان کا قتل کرنا کسی معاہدے پر پہنچنے کے امکانات کو کم کر دیتا ہے۔‘
دوحہ میں اسرائیلی حملے میں حماس سے منسلک چھ افراد ہلاک ہوئے ہیں جن میں تنظیم کے رہنما خلیل الحیہ کے بیٹے اور آفس مینیجر بھی شامل ہیں۔ تاہم اس حملے میں حماس کی اعلیٰ قیادت محفوظ رہی۔
آسان الفاظ میں یوں کہہ لیجیے کہ اسرائیل نے حماس کی مذاکراتی ٹیم کو اس وقت نشانہ بنایا جب ’وہ جنگ بندی سے متعلق امریکہ کی طرف سے پیش کی گئی تجاویز پر بات چیت کر رہے تھے۔‘
دوحہ میں حماس کے رہنماؤں پر اسرائیلی حملہ جس نے ’سفارتکاری کے دروازے بند کر دیے‘دوحہ میں سجے اونٹوں، سائبر ٹرکس اور جیٹ طیاروں سے ٹرمپ کا شاہانہ استقبال اور 96 ارب ڈالر کے تاریخی معاہدے کی رودادکیا امریکی قانون صدر ٹرمپ کو قطر کی جانب سے 40 کروڑ ڈالر کے لگژری جہاز کا تحفہ قبول کرنے کی اجازت دیتا ہے؟سعودی عرب نے جارحانہ حکمت عملی ترک کر کے ’بین الاقوامی ثالث‘ کا کردار کیوں اپنایا اور بطور ثالث یہ قطر سے کیسے مختلف ہے؟
حماس کے رہنما برسوں سے قطر میں مقیم ہیں لیکن اسرائیل نے انھیں پہلی مرتبہ نشانہ بنایا ہے۔
تاہم ہیو لواٹ کے مطابق ’اس خطے میں اسرائیل کا یہ طریقہ کار نیا نہیں ہے۔‘
ان کا کہنا ہے کہ ’گذشتہ برس اسرائیل نے اسماعیل ہنیہ کو اس وقت ہلاک کیا تھا جب وہ جنگ بندی کے مذاکرات میں حصہ لے رہے تھے۔‘
’اس کا مقصد جنگ بندی کے امکانات کو ختم کرنا ہے۔ اسرائیلی حکومت کیا کہتی ہے اس سے فرق نہیں پڑتا کیونکہ ان کے اقدامات سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ وہ جنگ بندی کے کسی معاہدے میں دلچسپی نہیں رکھتے۔‘
ہیو لواٹ کہتے ہیں کہ ایسے اسرائیلی اقدامات سے حماس کے اندرونی سٹرکچر میں تبدیلی آئے گی اور اس کے سبب سفارتکاری مزید مشکل ہو جائے گی۔
’اسرائیل واضح طور پر کشادہ نظر لوگوں کو انھیں قتل کر کے کمزور کر رہا ہے۔ اس سے ان سخت گیر عناصر کی بات کو تقویت ملتی ہے کہ اسرائیل صرف تشدد کی زبان سمجھتا ہے، نہ کہ سفارتکاری کی۔‘
ماضی میں بھی اسرائیل لبنان اور شام میں حماس کے رہنماؤں کو نشانہ بنا چکا ہے۔
BBCقطر میں حملے کے اثرات غزہ سے باہر بھی نظر آ سکتے ہیں؟
ماہرین کا کہنا ہے کہ منگل کو دوحہ میں حماس پر ہونے والے حملے کے اثرات غزہ سے باہر بھی نظر آئیں گے۔
ماہرین کے مطابق قطر امریکہ کا ایک اہم اتحادی ہے اور وہ دو برس سے حماس اور اسرائیل کے درمیان بطور ثالث کام کر رہا ہے اور اس ملک کے اندر حملے سے ایک ایسی مثال قائم ہوئی ہے جو پہلے کبھی نہیں دیکھی گئی۔
ہیو لواٹ کہتے ہیں کہ ’یہ پہلا عرب دارالحکومت نہیں جس پر اسرائیل نے بمباری کی ہو لیکن یہ امریکہ کے اتحادی ملک کا دارالحکومت ضرور ہے۔‘
’قطر تہران نہیں ہے، بیروت نہیں ہے۔ یہاں امریکہ کا ایک بڑا ہوائی اڈہ موجود ہے اور مغربی سرمایہ بھی لگا ہوا ہے۔‘
ایک پریس بریفنگ کے دوران وائٹ ہاؤس کی پریس سیکریٹری کیرولائن لیوٹ نے کہا تھا کہ اسرائیل نے ٹرمپ انتطامیہ کو اس حملے کے حوالے سے اطلاع دی تھی۔ لیکن یہ بات واضح نہیں کہ یہ اطلاع حملے سے پہلے دی گئی تھی یا پھر حملے کے عین وقت۔
انھوں نے صدر ٹرمپ سے منسوب ایک بیان دُہرایا تھا: دوحہ پر اسرائیلی حملے سے ’اسرائیلی یا امریکی مقاصد کو کوئی فائدہ‘ نہیں پہنچا، تاہم وہ سمجھتے ہیں کہ حماس کا خاتمہ ایک ’اہم مقصد‘ ہے۔
تاہم لندن کے چیٹھم ہاؤس کے مڈل ایسٹ اور نارتھ افریقہ پروگرام سے منسلک ڈاکٹر صنم وکیل کہتی ہیں کہ اسرائیلی حملے سے قطر کی سکیورٹی کو نقصان پہنچا ہے اور مشرقِ وسطیٰ میں اتحاد کی کمزوریاں سامنے آئی ہیں۔
ڈاکٹر وکیل مزید کہتی ہیں کہ ’یہ امکان کہ امریکہ نے شاید حماس کی قیادت پر حملے کی توثیق کی تھی ضرور قطر کے ساتھ دو طرفہ تعلقات کو متاثر کرے گا۔‘
’قطر اس موقع پر امریکہ کے ساتھ تعلقات ختم تو نہیں کرے گا لیکن وہ اب غیر یقینی کا شکار ضرور ہو گئے ہیں۔‘
ڈاکٹر وکیل کہتی ہیں کہ قطر میں اسرائیلی حملے سے کئی مفروضے بھی اپنے انجام کو پہنچے ہیں۔
’یہ مفروضے ہی تھے کہ اتحادی ممالک ایک دوسرے پر حملہ نہیں کرتے اور نہ ایک دوسرے پر حملوں کی توثیق کرتے ہیں۔‘
’یہ حقائق کہ امریکہ نے قطر کی خودمختاری پر حملے کی حمایت کی اس سے پورے مشرقِ وسطیٰ پر اثرات پڑیں گے۔‘
رائل یونائیٹڈ سروسز انسٹٹیوٹ سے منسلک ڈاکٹر ایچ اے ہیلیر اس بات سے متفق نظر آتے ہیں۔
ان کا کہنا ہے کہ اب دوحہ اور خطے میں دیگر ممالک ’سوچیں کہ کیا امریکہ کی جانب سے دی گئی سکیورٹی ضمانتیں کوئی معنی بھی رکھتی ہیں یا نہیں، کیونکہ اسرائیل آزادی سے یہ اقدامات لے رہا ہے۔‘
Menahem Kahana/AFP via Getty Imagesاسرائیلی وزیرِ اعظم اس حملے کو درست قرار دیتے ہیں
تاہم ڈاکٹر وکیل کا کہنا ہے کہ ’اپنی سکیورٹی کے لیے قطر کا تمام تر انحصار امریکہ پر ہی ہے، اس سے قطر کے اثر و رسوخ کی حدود نظر آتی ہے۔‘
ان کا مزید کہنا تھا کہ برسوں سے یہی کہا جاتا تھا کہ اسرائیل سفارتکاری کو جگہ دینے کے لیے قطر میں حماس کی قیادت کو نشانہ نہیں بنائے گا، لیکن قطر نے اس خیال کو غلط ثابت کیا اور عسکری اور سیاسی موقع سے فائدہ اُٹھایا۔
ڈاکٹر وکیل کے مطابق ٹرمپ نے قطر پر حملے پر رضامندی کا اظہار کیا تھا یا نہیں اس پر بات ہو سکتی ہے، لیکن ایک بات واضح ہے کہ امریکہ اسے سفارتکاری کی ناکامی نہیں سمجھ رہا بلکہ اس حملے کو بڑی حکمت عملی کا حصہ سمجھتا ہے۔
’معاہدے صرف میز پر بیٹھ کر نہیں ہوتے، آپ لوگوں کو ان کا موقف تبدیل کرنے پر مجبور کر سکتے ہیں۔ واضح طور پر امریکی صدر دیگر طریقوں سے مذاکرات پر اثر انداز ہونے کی کوشش کر رہے ہیں۔‘
خطے کے لیے سنگین نتائج
ڈاکٹر وکیل اور ہیو لواٹ دونوں نے خبردار کیا ہے کہ دوحہ میں اسرائیلی حملے کے علاقائی نتائج کہیں زیادہ سنگین ہو سکتے ہیں۔
عرب حکام اس احساس کے بارے میں فکر مند ہیں کہ اسرائیل اب نہ صرف تیزی سے جارحانہ ہوتا جا رہا ہے ، بلکہ تیزی سے عدم استحکام پیدا کرنے والے انداز میں کام کر رہا ہے، امریکہ یا یورپ کی طرف سے اس پر نہ ہونے کے برابر پابندی ہے۔
ڈاکٹر وکیل نے مزید کہا کہ 'ہم ایک نئی دنیا، نئے خطے، نئے قوانین کے دور سے گزر رہے ہیں۔'
پہلے پائے جانے والے مفروضے اب دم توڑ رہے ہیں۔
ان دونوں تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ یہ تشویش علاقائی طاقتوں کو اپنی فوجی صلاحیتوں کو مزید بڑھانے کی طرف لے جائے گی۔
اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ وہ اسرائیل پر حملہ کریں گے مگروہ اپنے دفاع کی صلاحیت یقینی بنانا چاہتے ہیں۔ دونوں تجزیہ کار حتمی طور پر اس بات پر زور دیتے ہیں کہ منگل کے ڈرامائی واقعات کے دوررس نتائج ہوں گے۔
ہیو لواٹ کی رائے میں جو کچھ ہو رہا ہے اس کا سب سے بڑا شکار صرف اسرائیلی یا فلسطینی نہیں بلکہ یہ خود مغرب کی ساکھ ہو گی۔
قطر گیٹ، نتن یاہو اور خفیہ ادارے کا سربراہ: رشوت اور فراڈ کا سکینڈل جس نے اسرائیل میں کھلبلی مچا دیقطری وزیراعظم کا پہلی مرتبہ کسی اسرائیلی چینل کو انٹرویو: اسرائیل کے ساتھ سفارتی تعلقات پہلے سعودی عرب بحال کرے گا یا قطر؟وہ عوامل جو قطری ثالثی میں غزہ جنگ رُکوانے میں رکاوٹ بنے اور مذاکرات معطل کرنا پڑےقطر میں ڈیٹنگ ایپ کے ذریعے ’ہنی ٹریپ‘: وہ شخص جسے قید کاٹنے کے بعد برطانیہ واپسی کی اجازت ملیانڈیا کے مزدور استحصال کے باوجود کام کی تلاش میں خلیجی ممالک کا رخ کیوں کرتے ہیں؟