اسرائیلی حملے، دوحہ سمٹ اور ’عرب نیٹو‘ کا خواب: کیا عرب و مسلم دنیا ایک ساتھ کھڑی ہو گی؟

بی بی سی اردو  |  Sep 15, 2025

Reuters

قطر پر اسرائیلی حملے کو ایک ہفتہ بھی نہیں ہوا اور دارالحکومت دوحہ میں عرب لیگ اور دیگر اسلامی ممالک کا مشترکہ اجلاس منعقد ہو رہا ہے۔ اسے حسنِ اتفاق کہیں یا کچھ اور لیکن یہ اجلاس ’ابراہم ایکارڈ‘ کے دستخط کی پانچویں سالگرہ کے موقع پر ہو رہا ہے۔

یاد رہے کہ 2021 میں ہونے والے ابراہم ایکارڈ یا ابراہیم معاہدے کے نتیجے میں اسرائیل اور عرب ممالک نے معمول کے تعلقات قائم کرنے کا اعلان کیا تھا۔

اس اجلاس کا انعقاد ایک ایسے وقت میں ہو رہا ہے جب مشرق وسطیٰ کے ممالک اور اسرائیل کے درمیان سیاسی تناؤ بڑھتا جا رہا ہے۔ اسرائیل کی غزہ میں جنگ اب تیسرے سال میں داخل ہو رہی ہے جبکہ خطے کے دیگر ممالک بھی اس کی تباہ کاریوں سے دوچار ہیں۔

گذشتہ ہفتے اسرائیل نے غزہ جنگ کے خاتمے کی کوششوں کے لیے ثالثی کا کردار ادا کرنے والے قطر پر بھی حملہ کیا۔ اسرائیل اس سے قبل لبنان، ایران، یمن اور شام پر بھی حملے کر چکا ہے۔

اسرائیلی حملے کے باوجود دوحہ نے غزہ جنگ کو روکنے کے لیے قاہرہ اور واشنگٹن کے ساتھ اپنی کوششیں جاری رکھنے کے عزم کا اظہار کیا ہے۔

اتوار کے روز قطر کے وزیرِ اعظم شیخ محمد بن عبدالرحمن الثانی نے دوحہ میں عرب اور اسلامی ممالک کے وزرائے خارجہ کے بند کمرے کے اجلاس کے دوران بین الاقوامی برادری پر زور دیا کہ وہ اپنا ’دوہرا معیار‘ ترک کریں۔

ان کا کہنا تھا کہ ’جو چیز اسرائیل کو اپنا طرز عمل جاری رکھنے کی ترغیب دیتی ہے، وہ عالمی برادری کی خاموشی اور اسرائیل کو جوابدہ ٹھہرانے میں اس کی ناکامی ہے۔‘

ایسے میں جہاں کئی لوگوں کو امید ہے کہ اس حوالے سے سنجیدہ اقدامات لیے جائیں گے وہیں کئی افراد کو عرب ممالک کی جانب سے ایک متحد ردعمل کی زیادہ امید نہیں ہے۔

دوحہ میں ہونے والا سربراہی اجلاس کا انعقاد مشترکہ طور پر 22 رکنی عرب لیگ اور اسلامی تعاون تنظیم کر رہی ہے۔

AFP via Getty Images’مشترکہ عرب فورس‘

اتوار کے روز، اجلاس میں شامل رکن ممالک کے وزرائے خارجہ نے گذشتہ منگل کو قطر پر اسرائیلی حملے کے حوالے سے ایک مسودے پر تبادلہ خیال کیا جسے ہنگامی عرب اسلامی سربراہی اجلاس میں منظوری کے لیے پیش کیا جائے گا۔

مصر کے صدر عبدالفتاح السیسی مبینہ طور پر ایک بار پھر نیٹو طرز کی ’مشترکہ عرب فورس‘ کی تشکیل کے لیے عرب ممالک کی حمایت حاصل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ اسے تجزیہ کار ’عرب نیٹو‘ کے نام سے پکار رہے ہیں جس کا مقصد کسی بھی عرب ملک کا ممکنہ جارحیت کے خلاف دفاع ہے۔

پاکستان کے نائب وزیرِ اعظم اور وزیرِ خارجہ اسحاق ڈار نے اتوار کے روز وزرائے خارجہ کے اجلاس کے دوران کہا کہ عالمی نظم و نسق کو محفوظ بنانے کے لیے پاکستان کا مطالبہ ہے کہ اسرائیل کو جنگی جرائم اور انسانیت کے خلاف جرائم کے لیے جوابدہ ٹھہرایا جانا چاہیے۔

پاکستان کے سرکاری خبر رساں ادارے کے مطابق، اسحاق ڈار کا کہنا تھا کہ خطے میں اسرائیلی منصوبہ بندی کی نگرانی کے لیے ایک عرب-اسلامی ٹاسک فورس قائم کرنے اور اسرائیلی توسیع پسندانہ منصوبوں کی مؤثر روک تھام کے لیے ہم آہنگ طریقے سے اور جارحانہ اقدامات اپنانا ہوں گے۔

اسرائیل کے ساتھ تعلقات پر نظرثانی یا کوئی ’سخت پیغام‘: عرب اور اسلامی ممالک کے ہنگامی اجلاس میں کن آپشنز پر غور ہو سکتا ہے؟ترکی، سعودی عرب یا مصر: قطر پر حملے کے بعد اسرائیل کے ’اگلے ہدف‘ کے بارے میں قیاس آرائیاںمتنازع نقشے پر سعودی عرب، فلسطین اور عرب لیگ کی مذمت: ’گریٹر اسرائیل‘ کا تصور صرف ’شدت پسندوں کا خواب‘ یا کوئی ٹھوس منصوبہدوحہ میں حماس کے رہنماؤں پر اسرائیلی حملہ جس نے ’سفارتکاری کے دروازے بند کر دیے‘

قطر کے سابق وزیر اعظم حمد بن جاسم الثانی نے ایکس پر جاری ایک پیغام میں عرب اور دیگر اسلامی ممالک سے سربراہی اجلاس میں واضح اور عملی فیصلے اپنانے کی اہمیت پر زور دیا ہے۔

ان کا کہنا ہے کہ دوحہ سمٹ میں اسرائیل کی جانب سے دہشت گردی کے خلاف کارروائی کے نام پر مختلف ممالک کے خلاف غیر ذمہ دارانہ حملوںاور اس کی عرب اور اسلامی دنیا کے لیے نفرت کو ختم کرنے کے لیے فیصلے لینے کی ضرورت ہے۔

سوشل میڈیا پر بھی اس اجلاس کے حوالے سے خاصا ردِعمل سامنے آ رہا ہے۔

ایک صارف نے امید ظاہر کی کہ سربراہی اجلاس میں اسرائیل کے ساتھ تعلقات منقطع کرنے اور عرب اور اسلامی ممالک سے اسرائیلی سفیروں کو بے دخل کرنے کا فیصلہ لیا جائے گا۔

ایک اور صارف نے مطالبہ کیا کہ سربراہی اجلاس ایک واضح پیغام بھیجے کہ عرب قوم پہلے کی طرح منقسم نہیں اور اور یہ کہ ایک پر حملہ سب پر حملہ تصور کیا جائے گا۔

حماس کا اسرائیل کے بائیکاٹ کا مطالبہ

دوسری جانب حماس نے عرب اور اسلامی ممالک کے وزرائے خارجہ اور دنیا بھر کی بااثر طاقتوں سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ اسرائیل کا بائیکاٹ کریں اور اسے سیاسی اور اقتصادی طور پر تنہا کرنے کے لیے کام کریں۔ انھوں نے اسرائیل کی جانب سے بین الاقوامی قوانین کی کھلے عام پامالی کے خاتمے کا بھی مطالبہ کیا۔

اتوار کے روز حماس کی جانب سے جاری ایک میمورنڈم میں غزہ، مغربی کنارے اور یروشلم میں اسرائیلی ’جارحیت اور فلسطینیوں کی نسل کشی کو روکنے‘ اور اسرائیلی رہنماؤں کے خلاف بین الاقوامی عدالتوں میں مقدمہ چلانے کے لیے دباؤ ڈالنے کا بھی مطالبہ کیا گیا ہے۔

حماس کے رہنما عزت الرشق نے دوحہ سربراہی اجلاس کے شرکا پر زور دیا کہ وہ ’غزہ میں نسل کشی‘ اور مغربی کنارے، یروشلم، لبنان، شام، یمن، تیونس اور قطر میں صیہونی قبضے کے جرائم کو روکنے کے لیے تاریخی اتفاق رائے کا اظہار کریں۔

ان کا کہنا ہے کہ اسرائیلی وزیر اعظم ’گریٹر اسرائیل‘ منصوبے کو پورا کرنے، مشرق وسطیٰ کی تشکیل نو اور غلبہ حاصل کرنے کے لیے پورے خطے کو تباہی کے دہانے پر لے جا رہے ہیں۔

’اسرائیل اور امریکہ جو زبان سمجھتے ہیں اس پر عرب حکومتوں کو عبور نہیں‘

لیکن کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ دوحہ سربراہی اجلاس کا کوئی فائدہ نہیں ہو گا اور اسرائیلی حملے کے بعد قطری وزیر اعظم کے واشنگٹن کے دورے پر تنقید ہو رہی ہے۔

یمنی سیاست دان اور ماہر تعلیم شیخ حسین حزیب بھی ایسے ہی خیالات رکھتے ہیں۔ انھوں نے دوحہ سربراہی اجلاس پر سخت تنقید کرتے ہوئے کہا کہ یہ اتحاد ’مردہ پیدا ہو گا‘۔

شیخ حسین حزیب نے طاقت کی استعمال کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ اسرائیل اور امریکہ جو زبان سمجھتے ہیں اس پر ’عرب حکومتوں کو عبور نہیں ہے‘۔

حماد ناصر منیف نامی سوشل میڈیا صارف کو بھی سربراہی اجلاس سے مذمت سے بڑھ کر کسی چیز کی امید نہیں۔

Getty Images’یحییٰ سنوار کی بڑی کامیابی‘

یہ سربراہی اجلاس ابراہیم معاہدے پر دستخط کی پانچویں سالگرہ کے موقع پر ہو رہا ہے۔ اگرچہ غزہ جنگ کے باوجود یہ معاہدہ برقرار رہا تاہم واشنگٹن انسٹی ٹیوٹ فار نیئر ایسٹ پالیسی کا کہنا ہے کہ اس معاہدے کو نئی پیچیدگیوں کا سامنا ہے۔ اس میں اسرائیل اور سعودی عرب کے مابین تعلقات کو معمول پر لانے کے لیے ہونے والی بات چیت کا غیر معینہ مدت تک تعطل بھی شامل ہے۔

ادارے کی جانب سے ستمبر میں شائع ہونے والی ایک حالیہ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ حماس کے سابق رہنما یحییٰ سنوار غزہ جنگ کے متعلق عربوں میں پائے جانے والے غم و غصے کو استعمال کرتے ہوئے اسرائیل اور سعودی عرب کے تعلقات کی بحالی کو مسئلہ فلسطین سے جوڑنے میں کامیاب رہے۔

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ جب تک غزہ کو فلسطینی گورننس میں دیے جانے کے کسی بھی امکان کے بغیر اسرائیلی مہم جاری رہے گی تب تک ابراہیم معاہدے کو توسیع دینے خاص طور پر اسرائیل اور سعودی عرب درمیان تعلقات کو معمول پر لانے کی کوششوں میں کسی خاطر خواہ کامیابی کا امکان نہیں۔

کیا امریکی قانون صدر ٹرمپ کو قطر کی جانب سے 40 کروڑ ڈالر کے لگژری جہاز کا تحفہ قبول کرنے کی اجازت دیتا ہے؟قطر گیٹ، نتن یاہو اور خفیہ ادارے کا سربراہ: رشوت اور فراڈ کا سکینڈل جس نے اسرائیل میں کھلبلی مچا دیقطر میں اسرائیلی حملے کے غزہ میں جنگ بندی کے امکانات اور مشرقِ وسطیٰ میں امریکی اتحاد پر کیا اثرات پڑیں گے؟دوحہ میں سجے اونٹوں، سائبر ٹرکس اور جیٹ طیاروں سے ٹرمپ کا شاہانہ استقبال اور 96 ارب ڈالر کے تاریخی معاہدے کی رودادمتنازع نقشے پر سعودی عرب، فلسطین اور عرب لیگ کی مذمت: ’گریٹر اسرائیل‘ کا تصور صرف ’شدت پسندوں کا خواب‘ یا کوئی ٹھوس منصوبہدوحہ میں حماس کے رہنماؤں پر اسرائیلی حملہ جس نے ’سفارتکاری کے دروازے بند کر دیے‘
مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More