BBCرتنشی پروشوتم نے 20ویں صدی کے اوئل میں امریکہ تک اپنا کاروبار پھیلا لیا تھا
گجرات اور تجارت کا ہمیشہ سے چولی دامن کا ساتھ رہا ہے لیکن 18ویں اور 19ویں صدی کے درمیان گجراتیوں نے کچھ منفرد کارنامہ انجام دیا۔
گجراتی تاجروں نے اس دوران دہائیوں تک سمندروں میں سفر کیا، عرب ممالک سے لے کر مشرقی افریقی ممالک تک تجارت کی، وہاں آباد ہوئے اور بڑی بڑی کاروباری سلطنتیں بنائیں۔
جن گجراتیوں نے خلیجی ممالک، افریقہ سے لے کر یورپ اور امریکہ تک اپنی تجارت کے ذریعے تسلط قائم کیا ان میں ایک نام مانڈوی کے رتنشی پروشوتم کا بھی ہے۔
رتنشی پرشوتم ایک ایسے ہی تاجر ہیں جنھوں نے دوسروں کی طرح امپورٹ ایکسپورٹ سے اپنے کاروبار کی شروعات کی۔ لیکن ان کے اس کاروبار میں بندوقوں اور ہتھیاروں کی تجارت کا ’تاریک باب‘ بھی شامل تھا۔
رتنشی پروشوتم کو ’مسقط کی تجارتی دنیا کا بادشاہ‘ سمجھا جاتا تھا اور وہ کھجور کی تجارت کے لیے بھی مشہور تھے۔ ان کی قائم کردہ کمپنی آج بھی موجود ہے۔
وہ اسلحے کی تجارت میں کیسے داخل ہوئے اور دنیا کی بہترین رائفلیں درآمد اور فروخت کیں یہ ایک دلچسپ واقعہ ہے۔
12 سال کی عمر میں مسقط پہنچے
ڈاکٹر چھایا گوسوامی نے رتنشی پروشوتم کے بارے میں اپنی کتاب ’گلوبلائزیشن بیفور ایٹس ٹائم‘ میں تفصیلی معلومات دی ہیں۔
وہ لکھتی ہیں: ’رتنشی 1845 میں پیدا ہوئے۔ ان کا تعلق مانڈوی کی بھاٹیہ برادری سے تھا۔ وہ 1857 میں 12 سال کی عمر میں مسقط پہنچے۔‘
تاہم دوسرے حوالوں میں ان کی مسقط جانے کی عمر 15 یا 16 درج ہے۔
’ٹرانس ریجنل ٹریڈ اینڈ ٹریڈرز: گجرات ان دی انڈین اوشن فرام ارلیئسٹ ٹام ٹو 1900‘ نامی کتاب میں پروفیسر کیلون ایچ ایلن نے رتنشی پروشوتم پر ایک باب لکھا ہے۔
وہ لکھتے ہیں کہ ’ناتھا مکن پوریچا نے 18ویں صدی میں مسقط میں تجارت شروع کی۔ اس کے بعد ان کے بیٹے، پوتے اور پڑپوتے سبھی اس تجارت میں شامل ہو گئے۔ رتنشیان کے پڑپوتے کے بیٹے تھے۔ رتنشی کے چچا نے انھیں مسقط میں تربیت دی اور وہ اپنی خاندانی کمپنی ’ناتھا مکن‘ میں شامل ہو گئے۔‘
پروفیسر کیلون لکھتے ہیں: ’1867 میں رتنشی نے ’رتنشی پروشوتم‘ کے نام سے ایک کمپنی کی بنیاد رکھی۔ انھوں نے اپنے کریئر کا آغاز مسقط آنے والے تاجروں کے لیے ایک معاون بروکر کے طور پر کیا۔‘
ڈاکٹر چھایا گوسوامی کے مطابق: ’1870 کی دہائی میں جب ’ناتھا مکن‘ کی مالی حالت خراب ہوئی تو رتنشی کو ایک موقع نظر آیا اور انھوں نے اسے 1872 میں اپنی کمپنی میں ضم کر لیا۔ انھوں نے جلد ہی انضمام شدہ کمپنی کو منافع بخش بنا دیا اور کراچی میں بھی اس کی ایک شاخ قائم کی اور اناج اور کھجوروں کی تجارت شروع کر دی۔‘
تجارت امریکہ تک پھیل گئی
فرد کی کھجور کو کسی زمانے میں انتہائی پست سمجھا جاتا تھا۔ لیکن وہ زیادہ دیر تک خراب نہیں ہوتی تھی۔ اس انفرادیت کی وجہ سے یہ کھجوریں امریکہ جیسے دور دراز ممالک میں پہنچ گئیں، جہاں انھیں پریمیم سمجھا جانے لگا اور ان کی مانگ میں بھی اضافہ ہوا۔
پروفیسر کیلون کے مطابق ’عمان سے تیل سے پہلے کھجوریں سب سے زیادہ برآمد ہوتی تھیں۔ ان کا بڑا حصہ چینی کے طور پر ہندوستان کو برآمد کیا جاتا تھا۔ 1840 کے بعد سے کھجور کی تجارت میں بتدریج اضافہ ہوا اور برآمدات کا ایک بڑا مرکز امریکہ بن گیا۔‘
دو اعداد و شمار سے اندازہ ہوتا ہے کہ کھجور کی یہ تجارت کتنی بڑی تھی۔
پروفیسر کیلون کے مطابق ’1880 میں مسقط سے کھجور کی سالانہ تجارت کی مالیت ایک لاکھ امریکی ڈالر تھی۔ 1911 تک یہ تجارت اپنے عروج پر 155 ہزار امریکی ڈالر تک پہنچ چکی تھی۔‘
ہوا یوں کہ نیویارک میں اس وقت ولیم ہلز جونیئر نامی ایک بڑے بزنس مین تھے جو اپنی فیملی کمپنی چھوڑ کر ایک نئی کمپنی شروع کرنے والے تھے۔
ڈاکٹر گوسوامی نوٹ کرتے ہیں کہ ’تمام تحقیق کرنے کے بعد، انھوں نے رتنشی کو کھجوروں کی فراہمی کے لیے اپنا ایجنٹ بننے کے لیے لکھا کیونکہ انھیں لگتا تھا کہ صرف رتنشی ہی وہ معیاری پیکجنگ فراہم کر سکتے ہیں جس کی انھیں پریمیم فرد کھجوروں کے لیے ضرورت تھی۔‘
یہ بھی قدرے حیران کن ہے کہ 19ویں صدی میں کس طرح اعلیٰ معیار کی کھجوروں کی تجارت کی جاتی تھی۔
ڈاکٹر چھایا گوسوامی اپنی کتاب میں اس کے بارے میں لکھتی ہیں ’ولیم ہلز جونیئر نے رتنشی پروشوتم کو بتایا کہ وہ ان کھجوروں کو پیک کرنے کے لیے وہی مواد استعمال کریں گے جو وہ سٹیمر میں رتنشی کو بھیجیں گے۔‘
’ہلز نے یہ بھی لکھا کہ کھجوروں کے کتنے چھوٹے پیکٹس کو ایک بڑے ڈبے میں پیک کرنا ہے، کتنی کھجوریں پیک کرنی ہیں اور ان کا وزن کتنا ہونا چاہیے۔ بڑے ڈبوں اور ویکس پیپر کو کس طرح جوڑنا ہے۔ ساری تفصیل انھوں نے فراہم کی تھی۔‘
دیو کی جنگ جس میں شکست سے مسلمانوں کی ’سونے سے قیمتی‘ مسالوں کی تجارت یورپ کے ہاتھ چلی گئیدنیا کے بینکار: وینس کے تاجروں سے زیادہ دولتمند ہندوستانی ساہوکار جن کے قرضوں کی مدد سے انگریزوں نے انڈیا پر قبضہ کیااکبر کی ’مریم الزمانی‘: ہندوستان کی سب سے بڑی خاتون تاجر جنھیں نقصان پہنچانا پرتگالیوں اور انگریزوں کو مہنگا پڑاباکو میں ’ملتانی کاروان سرائے‘: ملتانی تاجروں نے کیسے دہائیوں تک ہندوستانی و بین الاقوامی تجارت اور قرض نظام پر راج کیا؟
انھوں نے ’دو کھجوروں کی تہوں کے درمیان مومی کاغذ رکھنے کا کہا تھا تاکہ وہ ایک ساتھ نہ جڑیں۔ شرط یہ تھی کہ کھجوریں کسٹمر تک اپنی بہترین شکل میں پہنچیں۔‘
ہلز رتنشی سے اس مواد کی قیمت وصول کریں گے اور اس کے بدلے میں انھیں کریڈٹ دیں گے۔ رتنشی نے بہترین کوالٹی کی کھجوروں کے ساتھ ان تمام شرائط کو پورا کیا اور اس طرح وہ کاروبار میں دوسروں سے آگے رہے۔
پروفیسر کیلون کے مطابق، ’یہ بھی لکھا ہے کہ رتنشی کو اگست سے دسمبر تک کھجوریں پیک کرنے کے لیے خاص آدمیوں کی خدمات حاصل کرنا پڑتی تھیں۔‘
رتنشی کی سنہ 1912 کی سالانہ دستاویزات سے پتہ چلتا ہے کہ وہ اس مہینے کے دوران بڑھئی، خواتین ورکرز، پانی بردار، سامان ایک جگہ سے دوسری جگہ لے جانے کے لیے مزدوروں وغیرہ کی خدمات حاصل کرتے تھے۔
یہ خاص طور پر خواتین کے لیے روزگار کا ایک بڑا ذریعہ تھا۔ رتنشی کمپنی اپنے کھجور کے کاروبار کا 13 فیصد مزدوری اور پیکنگ پر خرچ کرتی تھی۔
بندوق اور ہتھیاروں کی تجارت کا ’تاریک باب‘
ڈاکٹر چھایا گوسوامی لکھتی ہیں: ’19ویں صدی کے آخری 25 سالوں اور 20ویں صدی کی پہلی دہائی میں خلیجی ممالک میں بندوق کی تجارت میں بے پناہ اضافہ ہوا۔ اس تجارت کی ایک قسم مسقط اور زنجبار کے درمیان پہلے ہی قائم ہو چکی تھی۔‘
لیکن اس زمانے میں ان ہتھیاروں کی تجارت کیوں بڑھی ہو گی؟
اس بابت وہ لکھتی ہیں: ’ان دنوں غلاموں اور ہاتھی دانت کی تجارت کے لیے بندوقیں اور ہتھیار ضروری تھے۔ عمان میں اسلحے کی پیداوار کو پورا کرنے کے لیے، کچ کے تاجر ممبئی کے تاجروں سے خام مال حاصل کرنے کے لیے اپنے رابطوں کا استعمال کرتے تھے۔‘
’رتنشی کو اس تجارت کی پیچیدگیوں کا پہلے سے ہی علم تھا۔ کیونکہ ’ناتھا مکن‘ کمپنی رتنشی کے مسقط جانے سے پہلے ہی بمبئی سے مسقط تک لوہا اور فولاد درآمد کرنے اور اسے برطانوی اور سویڈش صنعت کاروں تک پہنچانے کا کام کر رہی تھی۔ پستول اور دیگر ہتھیار ان دھاتوں سے مسقط میں بنائے جاتے تھے اور یہ سپلائی صرف اسی مارکیٹ میں دستیاب تھی۔‘
پروفیسر کیلون لکھتے ہیں: ’اس دور میں زنجبار برطانوی ہتھیاروں کی فروخت کا اہم مرکز تھا، جب کہ دیگر مراکز بوشہر اور مسقط تھے۔ زنجبار میں اسلحے کی تجارت پر پابندی کے بعد مسقط اس کا مرکز بن گیا۔ اس میں بھی کچھی بھاٹیہ کے تاجروں کا بڑا حصہ تھا۔‘
ان کے مطابق ’اسلحے کے چار بڑے ڈیلروں گوپال جی والجی، رتنشی پروشوتم، دھنجی مرارجی اور دامودر دھرمشی نے اس میں سب سے زیادہ حصہ ڈالا۔‘
ڈاکٹر چھایا گوسوامی لکھتی ہیں: ’اس میں رتنشی پروشوتم کے لندن میں مقیم ایجنٹ شوارٹز اینڈ ہیمر سے رائفلیں اور کارتوس درآمد کرنے کا بھی ذکر ہے۔‘
رتنشی کمپنی لا فرانشوٹ رائفلز خریدنے میں دلچسپی رکھتی تھی، جو کبھی دنیا کی بہترین رائفل سمجھی جاتی تھی۔ ایجنٹوں کے پاس جانے کے بجائے، انھوں نے خود آگسٹ فرانسوٹ کو ایک خط لکھا۔
سنہ 1908 میں بیلجیئم میں ایک بین الاقوامی کانفرنس منعقد ہونے والی تھی جس میں اس بات پر غور کیا جانا تھا کہ خلیجی ممالک میں اسلحے کی بڑھتی ہوئی تجارت کو روکنے کے لیے کیا اقدامات کیے جا سکتے ہیں۔ اس کانفرنس کے بارے میں کئی اسلحہ ڈیلروں نے رتنشی پرشوتم کو خط لکھے۔
مورٹز میگنس نامی ایک جرمن کمپنی کے خط میں خوشی کا اظہار کرتے ہوئے کہا گیا ’بندوقوں کی تجارت کی کانفرنس ملتوی کر دی گئی ہے۔ سرکاری طور پر انھوں نے اعلان کیا ہے کہ وہ اگلے سال خزاں تک نہیں ملیں گے، لیکن مجھے لگتا ہے کہ وہ اب نہیں مل سکتے۔ ہمیں امید ہے کہ وہ دوبارہ کبھی نہیں ملیں گے!‘
ڈاکٹر چھایا گوسوامی کہتی ہیں: ’کچھی بھاٹیہ کے ہندو تاجروں کا ہتھیاروں کی تجارت میں کردار حیران کن اور متنازع ہے۔ یہ برادری روایتی طور پر اس تجارت میں شامل نہیں تھی جس میں تشدد اور قتل و غارتگری تھی۔ لیکن 19ویں اور 20ویں صدی میں ایسا لگتا ہے کہ اسے بدنام کیا گیا۔‘
شیخ رتنشی بن پرشوتم البنیانی ’مسقط کی تجارتی دنیا کا بادشاہ‘
مختلف کاروباروں میں قسمت آزمانے کے بعد رتنشی نے بعد میں ریئل سٹیٹ کے شعبے میں قدم رکھنے کا فیصلہ کیا۔
ڈاکٹر چھایا گوسوامی لکھتی ہیں کہ ’سنہ 1880 میں انھوں نے مسقط واٹر فرنٹ کے ساتھ والی زمین خریدی اور بعد میں پورا واٹر فرنٹ خرید لیا۔ رتنشی اور دیگر کچھی مسقط اور مطرح میں کچھ بہترین جائیدادوں کے مالک تھے۔‘
پروفیسر کیلون کے مطابق: ’19ویں صدی کے آخر تک، رتنشی کے پاس سلطان کے محل کے قریب ایک دفتر اور گھر، 12 گودام اور کسٹمز ہاؤس اور برطانوی سفارت خانے کے درمیان واٹر فرنٹ کے قریب زمین کا ایک بڑا حصہ تھا۔ رتنشی کی جائیدادوں میں ایک کھجور کا کارخانہ اور سداب میں ایک فارم ہاؤس بھی شامل تھا۔‘
ڈاکٹر چھایا گوسوامی اپنی کتاب میں لکھتی ہیں کہ ’سنہ 1887 میں انھیں کسٹم ماسٹر کا بااثر عہدہ بھی ملا (کسٹم ماسٹر کی ذمہ داری سلطان کی جانب سے ٹیکس یا ڈیوٹیز وصول کرنا تھی)۔ وہ اس عہدے پر 1898 تک قائم رہے۔
’20 ویں صدی کے اوائل میں، بحرین کے شیخ نے رتنشی سے رابطہ کیا اور ان سے بحرینی کسٹم فرنچائز کو سنبھالنے کی درخواست کی۔ پھر انھیں سلطان کے محل کے قریب مسقط میں ایک دفتر اور ایک مکان ملا اور ایسا لگتا تھا کہ ان کے اثر و رسوخ کا ایک نیا دور شروع ہو گیا تھا۔
’اس وقت انھیں عربی میں ’شیخ رتنشی بن پرشوتم البنیانی‘ کہا جاتا تھا۔ رتنشی کا ایک بادشاہ کی طرح ہی احترام کیا جاتا تھا اور ’مسقط کی تجارتی دنیا کا بادشاہ‘ سمجھا جاتا تھا۔‘
’رتنشی پروشوتم‘ کمپنی آج بھی موجود ہے
’عمان انڈیا ٹائیز: کراس سی اینڈ سپیس‘ نامی کتاب میں سیموئیل کٹی اور سندھیا راؤ مہتا نے رتنشی کی موت کے بعد خاندان اور ان کے کاروبار کے ساتھ کیا ہوا، اس کے بارے میں معلومات فراہم کی ہیں۔
کتاب میں کہا گیا ہے کہ ’رتنشی کے بیٹے لال جی کی سنہ 1932 میں موت واقع ہو گئی۔ اس لیے لال جی کی بیوی جھاور بائی کو اپنے خاندانی کاروبار اور خاندان کی ذمہ داری اٹھانی پڑی کیونکہ ان کا بیٹا رنچھوڑ داس ابھی 18 سال کا بھی نہیں تھا۔ بعد میں رنچھوڑ داس اس کاروبار میں شامل ہو گئے۔‘
کتاب کے مطابق: ’رنچھوداس نے رتنشی پروشوتم سے متعلق اہم دستاویزات، آرکائیوز اور کچھ اشیا کو احتیاط سے محفوظ کیا تھا۔ 1977 میں انھوں نے اس میں سےعربی زبان میں سینکڑوں اہم دستاویزات عمان کی قومی ورثے کی وزارت کو دیں۔ کچھ اشیا عمان کے عجائب گھر میں نمائش کے لیے رکھی گئی ہیں۔‘
’مطرح میں ان کی کمپنی کا دفتر اب بھی رتنشی پروشوتم کے نام سے قائم ہے اور رتنشی کے براہ راست وارث ومل پوریچا اور ان کے بیٹے دھرو اور بیٹی پوجا پوریچا کے زیر انتظام ہے۔ رتنشی پروشوتم کی کمپنی اب بھی عمان میں درآمد و برآمد اور سرمایہ کاریمیں شامل ہے۔
رتنشی کے وارث دھرو پوریچا نے آخری بار 18ویں پرواسی بھارتیہ دیوس کے موقع پر بھونیشور کا دورہ کیا تھا اور ایک پروگرام میں شرکت کی تھی۔
باکو میں ’ملتانی کاروان سرائے‘: ملتانی تاجروں نے کیسے دہائیوں تک ہندوستانی و بین الاقوامی تجارت اور قرض نظام پر راج کیا؟جب واسکو دے گاما نے کیرالہ میں مکّہ جانے والے خواتین اور بچوں سے بھرے بحری جہاز کو نذر آتش کیادیو کی جنگ جس میں شکست سے مسلمانوں کی ’سونے سے قیمتی‘ مسالوں کی تجارت یورپ کے ہاتھ چلی گئیدنیا کے بینکار: وینس کے تاجروں سے زیادہ دولتمند ہندوستانی ساہوکار جن کے قرضوں کی مدد سے انگریزوں نے انڈیا پر قبضہ کیااکبر کی ’مریم الزمانی‘: ہندوستان کی سب سے بڑی خاتون تاجر جنھیں نقصان پہنچانا پرتگالیوں اور انگریزوں کو مہنگا پڑارتن ٹاٹا: نمائش سے دور سادہ زندگی گزارنے والے انڈین بزنس مین جنھوں نے اپنے کاروبار کو چھ براعظموں کے 100 سے زیادہ ممالک تک پھیلایا