کراچی سے تعلق رکھنے والے ایک ملازمت پیشہ شہری عبید احمد (فرضی نام) کو گذشتہ روز فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) کی طرف سے ایک ایس ایم ایس موصول ہوا جس میں کہا گیا تھا کہ اُن کے ریکارڈ کے مطابق گذشتہ مالی سال میں اُنہوں نے اپنے کریڈٹ کارڈ کے ذریعے مجموعی طور پر پانچ لاکھ روپے سے زائد خرچ کیے ہیں۔اس پیغام نے عبید احمد کے ساتھ ساتھ اُن کے خاندان اور دوستوں میں بے چینی کی لہر دوڑا دی، جس کی وجہ یہ تھی کہ عبید گذشتہ کئی برسوں سے منظم طریقے سے اپنے انکم ٹیکس ریٹرن فائل کرتے آئے ہیں مگر رواں برس انہوں نے اپنے ٹیکس ریٹرنز جمع کروانے ہیں۔ وہ تمام مطلوبہ دستاویزات جمع کر رہے ہیں اور 15 اکتوبر سے قبل گوشوارے جمع کروانے کا ارادہ رکھتے ہیں۔
عبید احمد کی کہانی ایک ایسے شہری کی عکاسی کرتی ہے جو فرض شناس اور قانون پر عمل کرنے والا ہے مگر نئے نظام اور نگرانی کے باعث خود کو زیرِتفتیش محسوس کر رہا ہے۔
انہوں نے کہا کہ ’میں گذشتہ چار پانچ برسوں سے بروقت ریٹرن فائل کر رہا ہوں۔ رواں برس بھی تمام تنخواہوں کی سلپس، بینک سٹیٹمنٹس اور دیگر کاغذات جمع کر رہا ہوں۔ مجھے مگر جب یہ ایس ایم ایس ملا تو دل میں ایک بے چینی سی پیدا ہو گئی کیوںکہ بظاہر ایسا محسوس ہو رہا ہے کہ ہر خرچ کی چھان بین کی جا رہی ہے۔‘ایف بی آر کے ایک سینیئر افسر نے نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ ’کمرشل بینکوں سے کریڈٹ کارڈ ٹرانزیکشنز کا تفصیلی ڈیٹا ایف بی آر کے پاس ہے۔ یہ ساری ایکسرسائز کرنے کا مقصد ایسے افراد کی نشاندہی کرنا ہے جو قانونی طور پر کم آمدنی ظاہر کرتے ہیں مگر بڑے پیمانے پر اخراجات کرتے ہیں۔ یہ سرگرمی نظام میں شفافیت لانے اور ٹیکس چوری روکنے کے لیے ضروری ہے۔‘تاہم اس فیصلے کے نفاذ پر شہریوں نے مختلف طرح کا ردِعمل ظاہر کیا ہے۔ ایک طرف حکومت ڈیجیٹل لین دین کو فروغ دینے کی پالیسی پر زور دے رہی ہے تو دوسری طرف یہی ڈیجیٹل ریکارڈ تک رسائی بعض لوگوں کے لیے تشویش کا باعث بن گئی ہے۔سٹیٹ بینک کی رپورٹسٹیٹ بینک آف پاکستان کی ادائیگی کے نظام کی سہ ماہی جائزہ رپورٹ (دوسری سہ ماہی مالی سال اکتوبر سے دسمبر 2025) کے مطابق پاکستان میں کریڈٹ کارڈ کے استعمال میں اضافہ دیکھا گیا ہے۔رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ دسمبر 2024 کے اختتام تک ملک بھر میں 21 لاکھ 51 ہزار کریڈٹ کارڈ جاری کیے جا چکے تھے، جو مجموعی کارڈز کا تقریباً چار فیصد حصہ ہیں۔سٹیٹ بینک کے مطابق ملک میں جاری تمام ادائیگی کارڈز کی مجموعی تعداد پانچ کروڑ 64 لاکھ سے زائد ہے۔اعداد و شمار سے ظاہر ہوتا ہے کہ کریڈٹ کارڈز کا سب سے زیادہ استعمال خرید و فروخت کے مراکز پر ہوا، جہاں تقریباً 23 لاکھ سے زائد کے لین دین پر 191 ارب روپے کی ادائیگیاں کی گئیں۔سٹیٹ بینک آف پاکستان کی ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان میں کریڈٹ کارڈ کے استعمال میں اضافہ دیکھا گیا ہے۔ (فائل فوٹو: فری پک)اس کے بعد آن لائن خریداری کے ذریعے سات لاکھ سے زائد لین دین ہوئے جن کی مجموعی مالیت 58 ارب روپے رہی۔رپورٹ کے مطابق اے ٹی ایم کے ذریعے کریڈٹ کارڈ سے نقد رقم نکالنے کا رجحان بہت کم رہا، صرف دو لاکھ کے قریب لین دین ہوئے جن کی مالیت دو ارب 90 کروڑ روپے تھی۔ مجموعی طور پر اس عرصے میں کریڈٹ کارڈ کے ذریعے تقریباً 30 لاکھ سے زائد لین دین ہوئے جن کی مالیت 252 ارب روپے سے زیادہ رہی۔عبید احمد کی طرح ہر وہ شہری، جو باقاعدگی سے اپنا ٹیکس ریٹرن فائل کرتا ہے، اب کسی حد تک اضطراب کا شکار ہے۔وہ کہتے ہیں کہ ’میں ٹیکس چوری نہیں کرتا، میری آمدنی اور اخراجات قانون کے مطابق ہیں مگر اب جب میرے کارڈ کے خرچ کو سامنے رکھتے ہوئے مجھے یاد دہانی کروائی گئی ہے تو سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا کوئی بھی خرچ بلاوجہ نشانہ بنے گا؟‘انہوں نے واضح کیا کہ ’وہ 15 اکتوبر سے پہلے اپنا ریٹرن جمع کروا دیں گے اور تمام دستاویزات فراہم کریں گے، لیکن وہ اس عمل میں شفافیت اور نجی معلومات کے تحفظ کے حوالے سے یقین دہانی چاہتے ہیں۔‘کراچی اور ملک کے دیگر حصوں میں سوشل میڈیا، کاروباری حلقوں اور صارف فورمز پر اس فیصلے پر بحث جاری ہے۔ کئی شہری اس اقدام کو خوش آئند بھی قرار دے رہے ہیں۔ان کا کہنا ہے کہ ٹیکس نیٹ کا دائرہ کار بڑھانا اور زیادہ اخراجات کرنے والوں کو ٹیکس نیٹ میں لانا ضروری ہے تاکہ سرکاری وسائل بہتر ہوں اور سماجی خدمات کے لیے فنڈز دستیاب ہوں۔ ایک بڑا طبقہ مگر یہ بھی کہتا ہے کہ اگر بغیر مناسب آگاہی اور رازداری کے تحفظ کے یہ اقدام کیے جائیں گے تو عوام کا اعتماد مجروح ہو گا اور لوگ دوبارہ نقد لین دین کی طرف لوٹ سکتے ہیں، جو بلیک اکانومی کو فروغ دے گا اور حکومت کسی طور پر ایسا نہیں چاہے گی۔کچھ ماہرین کے مطابق ایف بی آر کو ڈیجیٹل پلیٹ فارمز اور بینکنگ سسٹمز کے ساتھ مربوط رہ کر کاروباری پس منظر کو بھی مدنظر رکھنا چاہیے۔ (فائل فوٹو: فری پک)’ایف بی آر وضاحت کرے کہ کون سی معلومات اکٹھی کی جا رہی ہیں‘معاشی ماہرین اس بات پر متفق ہیں کہ ٹیکس بیس کا پھیلاؤ اور شفافیت بہرحال ضروری ہے، مگر اس کے نفاذ کا طریقہ کار آسان اور عوامی مفاہمت پر مبنی ہونا چاہیے۔معاشی امور کے ماہر سینیئر صحافی وکیل الرحمٰن کہتے ہے کہ ایف بی آر کو چاہیے کہ وہ عوام میں آگاہی مہم چلائے، یہ وضاحت کرے کہ کون سی معلومات اکٹھی کی جا رہی ہیں، ان کا کن مقاصد کے لیے استعمال ہو گا اور رازداری کی کیا ضمانت ہے۔قانون دان بھی زور دیتے ہیں کہ شہریوں کو قانونی طریقہ کار، اپیل کے حقوق اور غلط ریکارڈ کی صورت میں درکار اصلاحی اقدامات سے مطلع کیا جائے تاکہ غلط فہمی اور بلا وجہ نوٹسز کا سلسلہ نہ بڑھے۔تاجروں اور آن لائن کاروبار کرنے والوں نے بھی خدشات کا اظہار کیا ہے۔ اُن کا کہنا ہے کہ اگر ہر کریڈٹ کارڈ ٹرانزیکشن کو بطور اشاریہ لیا جائے گا تو روزمرہ کے کاروباری معمولات پر غیرضروری دباؤ بڑھ سکتا ہے اور بالخصوص ایسے کاروبار جو سیزنل سیلز یا بڑی خریداریوں کے دوران ٹرانزیکشنز میں اضافے کا تجربہ کرتے ہیں۔کچھ ماہرین نے یہ نشاندہی بھی کی کہ ایف بی آر کو ڈیجیٹل پلیٹ فارمز اور بینکنگ سسٹمز کے ساتھ مربوط رہ کر کاروباری پس منظر کو بھی مدنظر رکھنا چاہیے تاکہ ہر بڑی ادائیگی خودکار طور پر مشکوک نہ قرار پائے۔عبید احمد اور بہت سے شہریوں کی طرح عوام کا مطالبہ یہ ہے کہ حکومت اور متعلقہ ادارے نہ صرف شفافیت برقرار رکھیں بلکہ نجی مالی معلومات کے تحفظ کو یقینی بنائیں۔عبید احمد کی طرح ہر وہ شہری، جو باقاعدگی سے اپنا ٹیکس ریٹرن فائل کرتا ہے، اب کسی حد تک اضطراب کا شکار ہے۔ (فائل فوٹو: فری پک)وہ چاہتے ہیں کہ واضح قوانین ہوں جو بتائیں کہ ڈیٹا کہاں ذخیرہ ہو گا، کسے رسائی حاصل ہو گی، اور کس مدت کے لیے رکھا جائے گا۔ علاوہ ازیں، غلط یا ڈیٹا انٹراپرٹیشن کی صورت میں شہریوں کے حقوق اور اپیل کے عمل کو واضح اور آسان بنایا جائے۔