2025 میں طب کا نوبیل انعام ایسی دریافتوں کے نام ہوا جو ہمارے جسم میں موجود مدافعتی نظام کی وضاحت کرتی ہیں۔ ہمیں یہ تو معلوم ہے کہ یہ مدافعتی نظام انفیکشنز پر حملہ آور ہوتا ہے لیکن ہم یہ نہیں جانتے کہ یہ نظامجسم کے اپنے خلیات کے خلاف مزاحمت کیوں نہیں کرتا؟
یہ انعام جاپانی محقق شمون ساکاگوچی اور امریکی محققین میری برنکو اور فریڈ ریمزڈیل کو دیا گیا۔
انھوں نے اپنی تحیقق میں جسم میں ایسے ’سکیورٹی گارڈز‘ دریافت کیے جو مدافعتی نظام کے ان حصوں کا خاتمہ کرتے ہیں جو جسم کے خلاف حملہ کر سکتے ہیں۔
ان کی تحقیق کو آٹو امیون امراض اور کینسر کے علاج کے نئے طریقوں کے لیے استعمال کیا جا رہا ہے۔
طب کے نوبیل انعام کے ساتھ فاتحین کو ایک کروڑ 10 لاکھ سویڈش کرونر یعنی آٹھ لاکھ 70 ہزار امریکی ڈالر کی رقم بھی دی جائے گی جو تینوں میں تقسیم ہو گی۔
نوبیل کمیٹی کے سربراہ اولی کامپ کہتے ہیں کہ ’ان دریافتوں نے ہماری سمجھ بوجھ میں فیصلہ کن اضافہ کیا کہ مدافعتی نظام کیسے کام کرتا ہے اور ہم سبھی لوگ آٹو امیون امراض سے متاثر کیوں نہیں ہوتے۔‘
ان تینوں کی تحقیق مدافعتی نظام کو سمجھنے کے لیے اہم قرار دی گئی ہے اور ان سوالات کے جواب ملےکہ مدافعتی نظام ہمیں ہزاروں انفیکشنز سے کیسے بچاتا ہے اور جسم کے ٹشوز خود اس سےکیسے محفوظ رہتے ہیں۔
Getty Imagesطب کے شعبے میں نوبیل انعام انسانی جسم میں موجود مدافعتی نظام پر کی گئی تحقیق پر دیا گیا
ہمارا مدافعتی نظام انفیکشن کی علامات تلاش کے لیےوائٹ بلڈ سیلز یا خون کے سفید خلیے استعمال کرتا ہے، چاہے جسم میں ایسے وائرس یا بیکٹیریا داخل ہوئے ہوں جو اس نے کبھی نہ دیکھے ہوں۔
خلیات ایسے سینسرز (ریسپٹرز) استعمال کرتے ہیں جو کھربوں مختلف بلا ترتیب اقسام کے اشتراک سے بنتے ہیں۔
یوں مدافعتی نظام کو یہ صلاحیت ملتی ہے کہ وہ مختلف انفیکشنز پر حملہ آور ہو سکے لیکن اس عمل سے وائٹ بلڈ سیلز ہمارے جسم کو نقصان بھی پہنچا سکتے ہیں۔
سائنسدانوں جانتے ہیں کہ جسم کو نقصان پہنچانے والے یہ سفید خلیے تھامیس غدود میں ختم ہو جائے ہیں، یہ جسم میں موجود وہ جگہ ہے جہاں سفید خلیے بنتے ہیں۔
رواں سال نوبیل انعام جسم میں موجود اس ریگولیٹری ٹی سیلز کی دریافت پر دیا گیا ہے جیسے مدافعتی نظام کا سکیورٹی گارڈ بھی کہا جاتا ہے کیونکہ یہ پورے جسم میں گردش کر کے جسم کو نقصان پہنچانے والے مدافعتی خلیوں کو حملہ آور ہونے سے روکتا ہے۔
نئے مدافعتی نظام کی دریافت، ’جس خزانے کو عرصے سے تلاش کرتے رہے وہ ’سونے کی کان‘ ہمارے جسم کے اندر ہی موجود تھی‘معاشیات کا نوبل انعام جیتنے والا جوڑا کون ہے؟نارمل ڈیلیوری کے ذریعے پیدا ہونے والے بچوں میں قوت مدافعت زیادہ کیوں ہوتی ہے؟نوبیل انعام آخر ہے کیا اور یہ اتنا اہم کیوں ہے؟
بعض آٹو امیون بیماریوں (مدافعتی نظام پر اثر نہ کرنے والی بیماریاں) میں یہ نظام موثر طور پر کام نہیں کرتا ہے جیسے ٹائپ ون ذیابطیس یا پر سیروسیز وغیرہ
نویبل پینل کا کہنا ہے کہ ’اس دریافت سے مختلف نئے شعبوں میں تحقیقسے کسینر اور آٹو امیون بیماریوں کے لیے نئے اور جدید علاج دریافت کرنے میں مدد ملے گی۔ ‘
کینسر کی بیمایرو میں ریگولیٹری ٹی سیلزجسم میں موجود ناسور کے خلاف مزاحمت کرنا چھوڑ دیتے ہیں اور یہی وجہ اب تک کی تحقیق کا زیاد تر دارومدار ان خراب خلیوں کی تعداد کم کرنے پر ہے۔
آٹو امیون بیماریوں میں ریگولیٹری ٹی سیلز کو زیادہ مضبوط بنانا ہے تاکہ جسم کو نقصان پہنچانے والے یہ خلیے حملہ نہ کر سکیں۔
تجربات اور اُن کے نتائجGetty Imagesجاپان کی اوساکا یونیورسٹی سے منسلک پروفیسر شیمون ساکاگوچی نے اُن چوہوں پر تجربات کیے جن کا تھائیمس (مدافعتی غدود) نکال دیا گیا تھا تاکہ اُن میں خودکار مدافعتی بیماری پیدا ہو۔
جاپان کی اوساکا یونیورسٹی سے منسلک پروفیسر شیمون ساکاگوچی نے اُن چوہوں پر تجربات کیے جن کا تھائیمس (مدافعتی غدود) نکال دیا گیا تھا تاکہ اُن میں خودکار مدافعتی بیماری پیدا ہو۔
انھوں نے ثابت کیا کہ دیگر چوہوں کے مدافعتی خلیے جسم میں داخل کرنے سے اس بیماری کو روکا جا سکتا ہے۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ جسم میں ایک ایسا نظام موجود ہے جو مدافعتی خلیوں کو جسم پر حملہ کرنے سے روکتا ہے۔
امریکی محققین میری برنکو اور فریڈ ریمزڈیل آٹو امیون بیماری میں مبتلا ایک چوہیا پر تحقیق کر رہے تھے جس کے دوران انھوں نے ایک ایسا جین دریافت کیا جس سے ریگولیٹری ٹی سیلز کے کام اور اہمیت کاپتہ چلا۔
برطانیہ کی فزیولوجیکل سوسائٹی کے صدر پروفیسر اینیٹ ڈولفن کا کہنا ہے کہ ’اس اہم تحقیق سے پتہ چلا کہ کس طرح مدافعتی نظام کو ریگولیٹری ٹی سیلز کے ذریعے کنٹرول کیا جاتا ہے تاکہ یہ جسم کے اپنے ٹشوز پر غلطی سے حملہ آور نہ ہو جائے۔‘
انھوں نے کہا کہ ’یہ کام ایک شاندار مثال ہے کہ کس طرح بنیادی جسمانی تحقیق انسانی صحت کے لیے دور رس اثرات مرتب کر سکتی ہے۔‘
نارمل ڈیلیوری کے ذریعے پیدا ہونے والے بچوں میں قوت مدافعت زیادہ کیوں ہوتی ہے؟نئے مدافعتی نظام کی دریافت، ’جس خزانے کو عرصے سے تلاش کرتے رہے وہ ’سونے کی کان‘ ہمارے جسم کے اندر ہی موجود تھی‘جاپانی سائنس دان کے لیے طب کا نوبیل انعامنوبیل انعام آخر ہے کیا اور یہ اتنا اہم کیوں ہے؟ہیپاٹائٹس سی کا وائرس دریافت کرنے والے سائنسدانوں کے لیے نوبیل انعاممعاشیات کا نوبل انعام جیتنے والا جوڑا کون ہے؟