زوبین گرگ: انڈین گلوکار کی موت پر اٹھتے سوالات جنھیں پاکستان میں بھی خراج عقیدت پیش کیا گیا

بی بی سی اردو  |  Oct 08, 2025

Getty Imagesزوبین گرگ کی موت پر آسام میں تین دن کے سوگ کا اعلان کیا گیا اور پورا آسام بند رہا

آسامی موسیقی کے سپر سٹار زوبین گرگ کی گذشتہ ماہ ستمبر کی 19 تاریخ کو سنگاپور میں سمندر میں تیرنے کے دوران ڈوبنے سے موت ہوگئی لیکن اب ان کی موت پر آسام میں متضاد بیانات آ رہے ہیں اور اس معاملے میں کئی افراد کے خلاف ایف آئی آر درج کی گئی ہے۔

ان کی موت کے بعد سے سوشل میڈیا پر شکوک و شبہات ظاہر کیے جا رہے ہیں جبکہ ان کی موت پر انڈیا کی شمالی ریاست آسام میں تین دن کے سوگ کا اعلان کیا گیا اور سرکاری اعزاز کے ساتھ ان کی آخری رسومات ادا کی گئی۔

گذشتہ دنوں پاکستان کے شہر کراچی میں میوزک بینڈ ’خودغرض‘ نے زوبین گرگ کو ان کے معروف گیت ’یا علی‘ کے ساتھ خراج عقیدت پیش کیا جسے انڈیا میں خوب سراہا جا رہا ہے اور یہ کہا جا رہا ہے کہ ’موسیقی کی کوئی سرحد نہیں ہوتی۔‘

لیکن اب ان کی موت پر سیاست تیز ہوتی نظر آ رہی ہے۔

زوبین گرگ کی اہلیہ گریما سائکیا گرگ اور ان کی بہن پامے بورٹھاکر نے سنگا پور میں گلوکار کی موت کا سبب بننے والے حالات کی جانچ کی اپیل کی ہے اور انصاف کا مطالبہ کیا ہے۔

مز گریما نے اپنے فیس بک پیج پر لکھا: ’۔۔۔ہم ایک بار پھر اکٹھے ہوں گے، بہت جلد گولڈی (زوبین کا عرفی نام)۔ لیکن ہم سب اس کی وجہ جاننا چاہتے ہیں کہ آپ جسمانی طور پر ہم سے دور کیوں چلے گئے۔۔۔کیوں؟ یہ ایک بڑا سوال ہے۔ یہ سوال میرے خالی دل کو دن رات جلا رہا ہے۔ مجھے جواب چاہیے۔۔۔‘

گلوکارہ کی بہن نے اپنی سوشل میڈیا پوسٹ میں کہا: ’جب ہم دوسرے جہاں میں ملیں گے تو آپ مجھے دوبارہ ’مومون‘ کہہ کر پکاریں گے۔۔۔ اب ہمارا ایک ہی مقصد ہے۔۔۔ آپ کے لیے انصاف کو یقینی بنانا۔‘

Getty Imagesزوبین گرگ کی موت پر جتنا بڑا ہجوم جمع ہوا تھا اس کی مثال انڈیا میں حالیہ دنوں میں نہیں ملتی ہےموت پر سیاست کا الزام

دوسری جانب انڈین میڈیا رپورٹس کے مطابق آسام کے وزیر اعلیٰ ہمنتا بسوا سرما نے گذشتہ روز سوموار کو کہا کہ ان کی حکومت ان لوگوں کے خلاف پولیس کیس درج کرے گی جنھوں نے زوبین گرگ کی موت کے معاملے پر لوگوں کو اکسایا ہے۔

مسٹر سرما نے کہا کہ ’اگر اپوزیشن کے سیاست دان اس میں ملوث ہیں تو ان کا نام بھی پولیس مقدموں میں لیا جائے گا۔‘ انھوں نے کہا کہ مجھے یقین ہے کہ اس معاملے میں گورو گوگوئی سے بھی پوچھ گچھ کی جائے گی۔

واضح رہے کہ گورو گوگوئی ریاست میں حزب اختلاف کانگریس پارٹی کے صدر ہیں۔

وزیر اعلی سرما نے خبردار کرتے ہوئے کہا کہ ’کچھ لوگ آسام کو نیپال میں تبدیل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں، ہم انھیں نہیں چھوڑیں گے۔‘

’۔۔۔جس طرح ہم نے سی اے اے (شہریت کے متنازع قانون) مخالف مظاہروں کے دوران مقدمہ درج کیا تھا، اسی طرح یہاں بھی ہم ان لوگوں کے خلاف مقدمہ درج کریں گے جو ہوائی اڈے کے باہر یا عوامی طور پر خراج تحسین کے دوران پریشانی پیدا کرنے کی کوشش کر رہے تھے، اور یہ کہ یہ اقدام سیاسی مقاصد کے لیے تھے۔‘

آسام کے ریاستی کانگریس کمیٹی (اے پی سی سی) کے صدر گورو گوگوئی نے پیر کے روز چیف منسٹر ہمنتا بسوا سرما پر تنقید کرتے ہوئے ان پر گلوکار زوبین گرگ کی موت کی تحقیقات کو گمراہ کرنے اور موڑ دینے کا الزام لگایا۔

گوگوئی نے کہا: ’آسام کے لوگ چاہتے ہیں کہ حکومت زوبین گرگ کی موت کے پیچھے جوابات سامنے لائے۔ بدقسمتی کی بات یہ ہے کہ وزیر اعلیٰ جان بوجھ کر تحقیقات کو پٹری سے اتار رہے ہیں۔ زوبین گرگ کی موت سے متعلق ہمیں جواب دینے کے بجائے، وہ کچھ ایسی معلومات جاری کر رہے ہیں جو متوفی اور ان کے آس پاس کے لوگوں کی اخلاقیات پر سوالیہ نشان لگاتے ہیں۔‘

گوگوئی نے الزام لگایا کہ چیف منسٹر کے اقدامات ایونٹ آرگنائزر شیامکانو مہنتا کو بچانے کی کوشش معلوم ہوتے ہیں جنھوں نے زوبین گرگ کو سنگاپور مدعو کیا تھا۔

زوبین گرگ کون تھے؟

زوبین گرگ آسام کے برہمن خاندان میں پیدا ہوئے۔ ان کی والدہ کو موسیقی سے لگاؤ تھا اس لیے کہا جا سکتا ہے کہ گود میں ہی انھوں نے موسیقی کی تعلیم پائی۔

زوبن گرگ نے اپنی موسیقی کے کیریئر کا آغاز 1990 کی دہائی میں کیا۔ آسامی زبان کے گیتوں سے شہرت کی بلندیوں پر پہنچنے والے زوبین بالی وڈ میں مواقع تلاش کے لیے ممبئی پہنچے۔

انھوں نے فلم ’گینگسٹر‘ کے ’یا علی رحم علی‘ سے شہرت حاصل کی۔ اسی فلم سے اداکارہ کنگنا رناوت نے اپنے کریئر کی ابتدا کی تھی۔ انھوں نے زوبین کی موت پر لکھا: ’زوبین، آپ جیسا کوئی نہیں۔‘

اس کے بعد زوبین نے ’نمستے لندن‘ کے گیت ’دل ربا‘ اور ’کرش 3‘ فلم کے گيت ’دل تو ہی بتا‘ جیسے نغموں میں اپنی آواز کا جادو جگایا۔ وہ بیک وقت گلوکار، نغمہ نگار، اداکار، کمپوزر، ہدایتکار، فلم ساز اور شاعر تھے۔

بالی وڈ میں بڑی کامیابی کے باوجود زوبین نے مرکزی دھارے کی ہندی فلم انڈسٹری کو خیرباد کہا اور آسام واپس آ گئے۔

ممبئی چھوڑنے کے اپنے فیصلے کے بارے میں، انھوں نے کئی انٹرویوز میں کہا کہ وہ سیدھے سادے انسان ہیں اور ممبئی میں بہت زیادہ دکھاوا یا گھمنڈ ہے۔ اس لیے انھوں نے ’اپنے وطن (آسام) میں اپنے لوگوں کے ساتھ‘ رہنے کو ترجیح دی۔

زوبین نے اپنے بارے میں کئی پلیٹفارم پر کہا کہ انھوں 30 ہزار سے زیادہ گیت گائے لیکن 33 سالہ کریئر میں اتنے گیت گانا بہت مشکل ہے۔ انھوں نے تقریبا 40 زبانوں میں بھی گیت گائے۔

’آمدن کے ساتھ عوامی مقبولیت‘: انڈیا میں مسلمان مخالف نفرت آمیز موسیقی کیوں بن رہی ہے؟میوزک کنسرٹ کی وائرل ویڈیو: کمپنی کے سربراہ کے بعد ویڈیو میں نظر آنے والی خاتون عہدیدار نے بھی استعفیٰ دے دیا1100 روپے ادھار، ایک خواب اور فلم ’عاشقی‘ کے گانے جنھوں نے کلکتہ کے کیدار کو کمار سانو بنا دیا’ناگن ڈانس‘ کی 70 برس پرانی وہ دھن جس کا آج تک کوئی مقابلہ نہیں کر سکا

گوہاٹی کے آئی آئی ٹی میں رہنے والے خالد لطیف نے بی بی سی اردو سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’زوبین آسام کے عوام کے لیے کسی جنون سے کم نہیں تھے۔ وہ غریبوں کی مدد کرتے تھے اور عوام کی آواز تھے۔ جب آسام ایئرپورٹ سے ان کا جسم ان کے گھر کاہیلاپاڑا لایا جا رہا تھا تو ان کے پرستاروں کا اتنا ہجوم تھا کہ 25 کلومیٹر کا فاصلہ طے کرنے میں دس گھنٹے سے زیادہ کا وقت لگ گيا۔‘

خالد لطیف نے بتایا کہ ’وہ عوام کی کھلے دل سے مدد کرتے تھے۔ یہاں تک کہ کووڈ وبا کے زمانے میں جو بھی ان کے پاس مدد کے لیے آیا ان کی مدد کی۔‘

مانس جیوتی بورا جو اپنے کیرئیر کے ابتدائی دنوں میں زوبین کے ساتھ تھے اور ان کے ساتھ بہت سے گانے ترتیب دیے انھوں نے کہا: ’لوگوں میں زوبین کے لیے اس قدر دیوانگی تھی کہ وہ اپنے کنسرٹس میں آنے والے لاکھوں کے ہجوم کو ایک ہی نوٹ سے خاموش کر سکتے تھے اور اگلے نوٹ کے ساتھ پھر سے جنون پیدا کر سکتے تھے۔ زوبین جیسے آئیکون دوبارہ پیدا نہیں ہوں گے۔ دنیا میں جب تک آسامیا موسیقی رہے گی زوبین کی آواز گونجتی رہے گی۔‘

سینیئر صحافی دلیپ چندن زوبین کو ایک فنکار کے طور پر قریب سے جانتے ہیں، ان کا کہنا ہے کہ ’زوبین نے 1992 میں اپنے پہلے البم 'انامیکا' کے ساتھ آسامی موسیقی کے منظر نامے پر قدم رکھا۔ اس وقت ان کے گانے سنسنی خیز تھے۔ 1985 میں ختم ہونے والی آسامی تحریک کے بعد زوبین کے نغموں میں آسامی نوجوانوں کے لیے خوشی اور امید تھی کیونکہ کمزور ہوتی علاقائیت میں زوبین کی آواز ایک نئے روپ میں سامنے آئی۔‘

’موسیقی کی کوئی سرحد نہیں ہوتی اور کوئی مذہب نہیں ہوتا‘

کراچی میں ’خودغرض‘ کی جانب سے خراج عقیدت پیش کرنے کے بعد انڈیا میں سوشل میڈیا پر یہ بات کہی جا رہی ہے کہ ’موسیقی کی کوئی سرحد نہیں ہوتی اور کوئی مذہب نہیں ہوتا۔‘

خودغرض کے انسٹا گرام پر لکھا گیا کہ ’زوبین، آپ ہمیشہ ہماری پلے لسٹ میں رہیں گے۔ آپ کا شکریہ۔‘

اس کے جواب میں پریانس کش نے لکھا: ’زوبین دا ہمیشہ کہتے تھے کہ موسیقی کی کوئی سرحد یا زبان نہیں ہوتی۔ میرے سب سے پسندیدہ بینڈز میں سے ایک، خودغرض نے میرے مادر وطن کے بیٹے زوبین دا کو خراج تحسین پیش کیا ہے۔ سرحد پار سے فنکاروں کو زوبین دا کو خراج تحسین پیش کرتے ہوئے دیکھ کر مجھے بہت اچھا لگرہا ہے۔ زوبین دا زندہ باد۔‘

ایک اور صارف نے لکھا: ’ہمارے پیارے زوبین گرگ سے محبت کا اظہار کرنے کے لیے آپ کا شکریہ۔ وہ سب سے پیار کرتے تھے اور لوگوں کو تقسیم کرنے والی ہر چیز کے خلاف تھے۔ انھوں نے کبھی کسی مذہب کی پیروی نہیں کی اور انسانیت کے لیے، لوگوں، جانوروں اور ماحولیات کے لیے کام کیا۔‘

ایک تیسرے صارف نے تبصرہ کیا: ’فن کی کوئی سرحد نہیں ہوتی، کیا ہمیں مزید شواہد کی ضرورت ہے! انڈیا کے آسام سے آپ کا بہت شکریہ اور بہت ساری محبتیں، آپ لوگ عاطف جی کا خیال رکھیے گا۔‘

ایک چوتھے صارف نے لکھا: ’یہ دیکھ کر افسوس ہوتا ہے کہ انڈیا کے بڑے میوزک ہاؤسز نے زوبین کی یاد میں دلپزیر پیغام نہیں لکھا، جب کہ ایک پڑوسی ملک کا میوزک بینڈ ایک میوزک لیجنڈ پر اتنا مہربان ہے۔‘

’ناگن ڈانس‘ کی 70 برس پرانی وہ دھن جس کا آج تک کوئی مقابلہ نہیں کر سکاآئمہ بیگ اور سارہ رضا آمنے سامنے: آٹو ٹیون کیا ہے اور گلوکاروں میں اس کا استعمال ’باعثِ شرم‘ کیوں؟آر ڈی برمن جنھوں نے بیئر کی خالی بوتلوں سے یادگار دھن بنائی’میری موسیقی جغرافیائی سیاست سے آزاد ہے‘: گلوکار بادشاہ پر پاکستانی سپانسرڈ شو میں پرفارم کرنے کا الزام ادت نارائن پر فینز کو بوسہ دینے پر تنقید: ’جب میں گا رہا ہوتا ہوں تو لوگوں پر جنون سوار ہو جاتا ہے‘
مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More