جمود کا شکار برآمدات، ڈوبتی صنعتیں اور بیروزگاری: شہباز شریف کے دور اقتدار میں پاکستان معاشی ترقی کیوں نہیں کر پا رہا؟

بی بی سی اردو  |  Oct 27, 2025

Getty Images

انڈیا میں سنہ 1991 کی معاشی اصلاحات سے قبل، یعنی 1950 سے لے کر 1980 تک، معاشی شرح نمو اوسطاً 3.50 فیصد سے چار فیصد رہی تھی۔ اس صورتحال کو دہلی سکول آف اکنامکس کے ماہر معیشت ڈاکٹر راج کرشنا نے ’ہندو ریٹ آف گروتھ‘ کہا تھا۔ اس اصطلاح کو آج بھی دنیا بھر کے بعض معاشی ماہرین استعمال کرتے ہیں۔

اس اصطلاح کا سادہ سا مطلب یہ ہے کہ کسی ملک میں معاشی شرح نمو مسلسل سست روی کا شکار ہو اور ملک کی فی کس مجموعی قومی پیداوار بھی کم ہے جبکہ ہر سال آبادی تیزی سے بڑھ رہی ہو۔

انڈیا کے پڑوس میں واقع پاکستان میں گذشتہ تین برسوں سے معاشی شرح نمو اوسطاً 1.5 فیصد رہی ہے جس کی بنیادی وجہ صنعتی پیداوار میں کمی ہے۔ گذشتہ تین سالوں میں ماحولیاتی تبدیلی، بارشوں اور سیلاب کی وجہ سے زرعی شعبہ متاثر ہوا ہے جبکہ صنعتی ترقی کو بھی رکاوٹوں کا سامنا ہے اور صنعتیں بند ہونے سے بیروزگاری اور غربت میں بھی اضافہ ہو رہا ہے۔

انھی معاشی مشکلات کے پیش نظر وزیر اعظم شہباز شریف کی حکومت نے صنعتوں کی بحالی اور برآمدات میں اضافے کے لیے آٹھ ورکنگ گروپس بنائے ہیں جن میں سرکاری حکام کے ساتھ ساتھ نجی شعبے کے افراد بھی شامل ہیں۔

وزیراعظم ہاؤس کی جانب سے جاری بیان کے مطابق یہ ورکنگ گروپس صنعتی ترقی اور برآمدات میں اضافے سے متعلق سفارشات مرتب کریں گے۔

مگر اس چیلنج سے نمٹنے کے لیے ماضی میں بھی کئی منصوبے بنائے جا چکے ہیں۔ گذشتہ سال برطانوی ماہر معیشت سٹیفن ڈرکون نے حکومت کو معاشی ٹرانسفارمشین کا منصوبہ پیش کیا تھا جبکہ حکومت کی جانب سے ’اُڑان پاکستان‘ کا منصوبہ بھی سامنے لایا گیا تھا۔

تاہم ابھی تک معاشی گروتھ اور برآمدات میں کوئی اضافہ نہیں دیکھا گیا۔

پاکستان میں ہر چوتھا شخص غربت کا شکار، ہم یہاں تک کیسے پہنچے؟

پاکستان میں تحریک انصاف کی حکومت اپریل 2022 میں ختم ہوئی تھی۔ اس حکومت کے خاتمے کے دو مہینے بعد جب اس دور کے وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل نے اکنامک سروے پیش کیا تھا تو اس میں پاکستان کی معاشی شرح نمو چھ فیصد دکھائی گئی تھی۔

تاہم اگلے مالی سال میں یہ شرح نمو 0.3 فیصد رہی، سنہ 2024 میں 2.5 فیصد جبکہ تیس جون 2025 کو ختم ہونے والے مالی سال میں یہ معاشی گروتھ قریب تین فیصد رہی تھی۔

مالی سال 2022 کے اختتام تک پاکستان کی برآمدات تقریباً 32 ارب ڈالر کی تھیں جو جون 2025 تک وہیں کھڑی ہیںیعنی اُن میں کوئی اضافہ نہیں ہوا ہے۔

ایک بڑا چیلنج یہ رہا ہے کہ پاکستان کی صنعتی شرح نمو بھی خراب رہی ہے۔ مالی سال 2022 میں بڑی صنعتوں کی پیداوار میں 11.8 فیصد کا اضافہ ریکارڈ کیا گیا تھا جبکہ 2023 میں اس پیداوار میں 10.3 فیصد کی بڑی کمی ریکارڈ کی گئی تھی۔

مالی سال 2024 میں اس میں 0.03 فیصد کی کمی ہوئی اور تیس جون 2025 کو ختم ہونے والی مالی سال میں اس کی پیداوار 0.74 فیصد تھی۔

ہائبرڈ نظام کی معاشی شکل اور فوج کا کردار: زراعت اور سیاحت سے متعلق ’ایس آئی ایف سی‘ کے منصوبوں پر تنقید کیوں ہو رہی ہے؟کرنسی ڈیلرز نے آئی ایس آئی سے مدد مانگ لی: ’ڈالر کی سمگلنگ شروع ہو جائے تو اداروں کو حرکت میں آنا پڑتا ہے‘پاکستان میں ’امیر آدمی‘ کی گاڑی سستی اور ’عام آدمی‘ کی سواری مہنگی کیوں ہو گئی ہے؟اُڑان پاکستان: معاشی بحالی کا 10 سالہ منصوبہ ’گیم چینجر‘ یا ’غیر حقیقی‘؟

پاکستان میں معاشی شرح، برآمدات اور بڑی صنعتوں کی پیداوار کے یہ اعداد و شمار حکومتی دستاویز اکنامک سروے اور وفاقی ادارہ شماریات کی ویب سائٹ پر فراہم کیے گئے ہیں۔

پاکستان کی دو بڑی سیاسی جماعتیں تحریک انصاف اور مسلم لیگ نون ایک دوسرے کو خراب معاشی صورتحال کا ذمہ دار ٹھہراتی ہیں۔

ایک طرف سابق وزیر اعظم عمران خان کی پارٹی تحریک انصاف چھ فیصد معاشی گروتھ اور 32 ارب ڈالر برآمدات کا کریڈٹ لیتی ہے تو دوسری طرف موجودہ حکومت اور مسلم لیگ ن کے رہنما یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ اس معاشی گروتھ کے حصول میں کرنٹ اکاؤنٹ میں عدم توازن پیدا ہوا تھا اور اسی وجہ سے ملک کے دیوالیہ ہونے کے خطرے سے نمٹنے کے لیے کڑی شرائط والے آئی ایم ایف پروگرام میں جانا پڑا۔

اس سب کے دوران غربت اور بیروزگاری میں بھی اضافہ ہوا ہے۔ عالمی بینک کے جاری کردہ تازہ اعداد و شمار کے مطابق پاکستان میں ہر چوتھا شخص غربت کا شکار ہے، یعنی ملک کی آبادی کا پچیس فیصد سے زائد حصہ غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گزار رہا ہے۔

اس کے مطابق پاکستان کے چھ کروڑ لوگ معاشی مسائل، مہنگائی اور مختلف ادوار میں کمزور معاشی پالیسیوں سے شدید متاثر ہوئے ہیں۔

Getty Imagesگذشتہ تین سالوں میں ماحولیاتی تبدیلی، بارشوں اور سیلاب کی وجہ سے زرعی شعبہ متاثر ہواپاکستان میں صنعتی و معاشی ترقی کیوں نہیں ہو رہی؟

پاکستان میں صنعتی شعبے سے منسلک افراد کے مطابق اس وقت یہ شعبہ بے پناہ مسائل کا شکار ہے۔

فیڈریشن آف پاکستان چمبرز آف کامرس اینڈ انڈسٹری کے سینیئر نائب صدر ثاقب فیاض مگوں نے بی بی سی کو بتایا کہ زیادہ کاروباری لاگت اور ٹیکسوں کی ادائیگی کے پیچیدہ نظام اور ٹیکسوں کی بلند شرح کی وجہ سے صعنتی شعبہ اس وقت بہت زیادہ مسائل کا شکار ہے۔

انھوں نے بتایا کہ ایک طرف مقامی صعنتکار مسائل کا شکار ہیں تو دوسری طرف بیرونی سرمایہ کار بھی پاکستان آنے سے کتراتے ہیں اور وہ ٹیکسوں کے پیچیدہ نظام کی وجہ سے پاکستان میں سرمایہ کاری نہیں کرنا چاہتے۔

پاکستان میں گذشتہ چند برسوں میں کمزور معاشی شرح نمو اور منفی صعنتی ترقی اور برآمدات میں اضافہ نہ ہونے کی کئی وجوہات ہیں۔

ماہرین کے مطابق ایک بڑی وجہ کرنٹ اکاونٹ خسارہ ہے جو زیادہ معاشی ترقی اور برآمدات میں اضافے کی وجہ سے بڑھ جاتا ہے۔ پاکستان میں ڈالر یعنی غیر ملکی زر مبادلے کی کمی کی وجہ سے ملک کو بیرونی ادائیگیوں میں عدم توازن کا شکار ہونا پڑتا ہے۔

ماہرین معیشت نے اس کی وجہ آئی ایم ایف پروگرام کو بھی قرار دیا ہے جس کی وجہ سے معاشی شرح نمو حاصل نہیں کی جا سکتی۔

انسٹیٹوٹ آف بزنس مینجمنٹ کراچی میں معیشت کی پروفیسر شاہدہ وزارت نے بی بی سی کو بتایا کہ آئی ایم ایف پاکستان سے کہتا ہے کہ ’برآمدات کو سستا کریں تاکہ زیادہ فارن ایکسیچنج کمایا جا سکے۔ اس کے لیے روپے کو ڈی ویلیو کرنا پڑتا ہے جس سے درآمدات مہنگی ہو جاتی ہیں، اخراجات بڑھ جاتے ہیں، شرح سود کو بڑھانا پڑتا ہے اور اس کے نتیجے میں معاشی شرح نمو رُک جاتی ہے۔‘

انھوں نے کہا کہ کئی برسوں سے یہی ہوتا رہا ہے۔ ’تحریک انصاف کے دور میں یہ مسئلہ شروع ہوا اور موجودہ حکومت کے دور میں یہ خراب تر ہو چکا ہے۔ اس لیے ملک میں معاشی گروتھ نہیں ہو پا رہی اور صعنتی ترقی رُکی ہوئی ہے۔‘

شاہدہ وزارت نے کہا کہ موجودہ اکنامک ماڈل ’ڈیلیور نہیں کر رہا۔ اسے بدلنے کی ضرورت ہے۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ پالیسی آئی ایم ایف کی بجائے پاکستان کے اندر بنے۔‘

پاکستان کے سابق وزیر خزانہ ڈاکٹر حفیظ پاشا کا کہنا ہے کہ تحریک انصاف کے دور میں یہ مسئلہ اس وقت شروع ہوا جب روس یوکرین جنگ کی وجہ سے تیل و گیس اور دوسری چیزوں کی قیمتیں بہت اوپر چلی گئی تھیں۔

وہ کہتے ہیں کہ اس وقت ملک کے پاس سترہ ارب ڈالر تھے لیکن درآمدی چیزوں کی قیمتیں اس وقت بہت زیادہ ہونے کی وجہ سے پاکستان کا درآمدی بل دگنا ہو گیا تھا۔ ’مثلاً اس وقت تیل کی قیمت 100 ڈالر (فی بیرل) سے اوپر چلی گئی تھی جو اس وقت ساٹھ ڈالر فی بیرل ہے۔‘

ان کا کہنا تھا کہ جب معیشت و صنعت کو چلانے کے لیے مہنگی درآمدی چیزوں کی وجہ سے زرمبادلہ ذخائر ہوئے تو افراط زر یعنی مہنگائی بڑھ گئی تھی۔

اگرچہ آئی ایم ایف پروگرام میں جانے سے معاشی استحکام حاصل ہوا مگر وہ کہتے ہیں کہ اس کے لیے ٹیکس بڑھانا پڑا اور ترقیاتی بجٹ کم کرنا پڑا ہے۔ ’اس کا نتیجہ کم معاشی گروتھ کی صورت میں نکلا ہے جس کی وجہ سے آج پاکستان میں بائیس فیصد تک بیروزگاری کی شرح ہو گئی ہے جو تاریخ میں دس فیصد سے زیادہ نہیں ہوئی تھی۔‘

وزیر اعظم پاکستان کے معاون خصوصی برائے صنعت و پیداوار ہارون اختر نے بی بی سی کو بتایا کہ یہ حقیقت ہے کہ پاکستان میں بجلی و گیس کے ریٹ بہت زیادہ ہوگئے ہیں اور اسی طرح شرح سود بھی زیادہ ہے اور ٹیکسوں کی شرح بھی زیادہ ہے۔

وہ یہ تسلیم کرتے ہیں کہ پاکستان کا صعنتی شعبہ ان وجوہات کے باعث مسابقتی نہیں رہا۔

انھوں نے کہا کہ حکومت کے پاس اتنی مالیاتی سپیس نہیں تھی کہ وہ صعنتی شعبوں کو کوئی ریلیف فراہم کر سکے کیونکہ پاکستان آئی ایم ایف پروگرام میں موجود ہے اور اس کی شرائط کو تسلیم کرنا پڑتا ہے۔

تاہم ہارون اختر کہتے ہیں کہ اس پروگرام کی وجہ سے ملک میں میکرو اکنامک استحکام آ رہا ہے اور ملک کے مختلف معاشی اشاریوں میں بہتری نظر آئی ہے۔

ورکنگ گروپس کیا ہیں اور کیا یہ معاشی و صنعتی ترقی ممکن بنا پائیں گے؟

وفاقی وزیر صنعت و پیداوار ہارون اختر خان کا کہنا ہے ان ورکنگ گروپس میں نجی شعبے کے افراد کو شامل کیا گیا ہے اور وہ سفارشات مرتب کر کے حکومت کو جمع کرائیں گے تاکہ معاشی و صنعتی ترقی کے لیے حکمت عملی بنا کر اس پر عمل درآمد کیا جا سکے۔

انھوں نے کہا اس کے ساتھ اُن کی وزارت کی جانب سے صنعتی پالیسی پر بھی کام ہو رہا ہے اور اس کے بننے سے بھی صنعتی ترقی اور برآمدات میں اضافے میں مدد ملے گی۔

موجودہ حکومت کی جانب سے تحریک انصاف کی سابقہ حکومت کو ملک کو ڈیفالٹ کے دہانے پر پہنچانے کا الزام لگایا جاتا ہے۔

اُس دور میں عمران خان کی معاشی ٹیم کے رکن اور وزیر اعلیٰ پنجاب کے سابق مشیر ڈاکٹر سلمان شاہ نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ یہ الزام درست نہیں بلکہ سیاسی عدم استحکام معاشی گروتھ میں کمی کا باعث بنا تھا۔

وہ کہتے ہیں کہ ’پی ڈی ایم حکومت نے پانچ سے چھ مہینے آئی ایم ایف پروگرام میں جانے میں تاخیر کی جس کا نتیجہ خراب معاشی صورتحال کی صورت میں نکلا۔‘

وہ کہتے ہی کہ ٹیکس بڑھنے سے ’ملک میں سرمایہ کاری رُک گئی اور آج یہ ورکنگ گروپس بنائے گئے ہیں۔ اس کا مطلب ہے کہ حکومت کے پاس اتنے عرصے سے کوئی معاشی حکمت عملی نہیں تھی۔‘

سلمان شاہ کہتے ہیں کہ پاکستان میں ایسی کمیٹیوں اور ورکنگ گروپس کی سفارشات پر عملدرآمد کی تاریخ کچھ حوصلہ افزا نہیں ہے۔

ادھر تحریک انصاف دور میں وزارت خزانہ کے ترجمان مزمل اسلم اُن کے دور میں چھ فیصد شرح نمو کی بنیاد صنعت اور زرعی پرفارمنس تھی مگر اب حکومت کے دور میں پاکستان ’دنیا کا مہنگا ترین ملک بنا جب صنعتی و زرعی گروتھ نہ ہونے کے برابر ہے۔‘

مزمل اسلم کا کہنا تھا کہ ورکنگ گروپس میں وہی لوگ ہیں جو ماضی میں بھی حکومتی کمیٹیوں کا حصہ رہے ہیں لیکن اس کا ’کوئی نتیجہ نہیں نکلا تھا۔‘

ہائبرڈ نظام کی معاشی شکل اور فوج کا کردار: زراعت اور سیاحت سے متعلق ’ایس آئی ایف سی‘ کے منصوبوں پر تنقید کیوں ہو رہی ہے؟اُڑان پاکستان: معاشی بحالی کا 10 سالہ منصوبہ ’گیم چینجر‘ یا ’غیر حقیقی‘؟کرنسی ڈیلرز نے آئی ایس آئی سے مدد مانگ لی: ’ڈالر کی سمگلنگ شروع ہو جائے تو اداروں کو حرکت میں آنا پڑتا ہے‘پاکستان میں تیل کے ممکنہ ’وسیع ذخائر‘ کہاں ہیں اور ان کی دریافت کا کام کہاں ہو رہا ہے؟پاکستان میں ’امیر آدمی‘ کی گاڑی سستی اور ’عام آدمی‘ کی سواری مہنگی کیوں ہو گئی ہے؟
مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More