’فوجیوں کا گاؤں‘ جہاں ہر گھر میں ریٹائرڈ یا حاضر سروس فوجی موجود ہیں

بی بی سی اردو  |  Oct 27, 2025

BBC

’وہ بہت ذہین تھے اور کڑیل جوان تھے۔ ایک تصویر میں انھوں نے سبھاش چندر بوس جیسا لباس زیب تن کیا ہوا تھا اور دوسری تصویر میں وہ چست پتلون اور بوٹ پہنے ہوئے تھے۔۔۔‘

انڈیا کے ضلع ہوشیار پور کے قدیم گاؤں ’دھولبہا‘ کے رہنے والے نرمل سنگھ اپنے دادا کی ظاہری شکل و صورت اور شخصیت کی تفصیل بتا رہے تھے۔

نرمل سنگھ کے دادا، حوالدار دھیرج سنگھ، دھولبہا گاؤں کے اُن 73 نوجوانوں میں سے ایک تھے جنھوں نے پہلی عالمی جنگ کے دوران برٹش انڈین آرمی کی طرف سے لڑائی میں حصہ لیا تھا۔

حوالدار دھیرج سنگھ سمیت دھولبہا گاؤں کے اِن 73 نوجوانوں میں سے آٹھ زندہ واپس نہ لوٹ سکے اور محاذ جنگ پر مارے گئے۔

محاذِ جنگ پر داد شجاعت سمیٹنا اس گاؤں کا نوجوان کا دہائیوں سے طرہ امتیاز رہا ہے۔

آج بھی خوبصورت اور قدیم دھولبہا گاؤں کا ہر ہر فرد پہلی عالمی جنگ میں حصہ لینے والے اپنے اِن 73 جوانوں کی بہادری اور جرات کی میراث محفوظ رکھتا ہے۔

سنہ 1947 میں انڈیا کی آزادی کے بعد بھی اس گاؤں کے نوجوانوں نے مسلح افواج میں شامل ہونے کی روایت کو جاری رکھا اور یہاں کے مکینوں کے مطابق اس قدیم گاؤں میں شاید ہی کوئی ایسا گھر ہو جس میں کوئی سابق یا موجودہ فوجی موجود نہ ہو۔ اور اِسی وجہ سے دھولبہا کو ’فوجیوں کا گاؤں‘ بھی کہا جاتا ہے۔

ریاست پنجاب کی حکومت کے محکمہ آثار قدیمہ کے مطابق دھولبہا ایک قدیم گاؤں ہے اور اس گاؤں سے ماضی میں ہونے والی کھدائیوں کے دوران سینکڑوں سال پرانے مجسمے اور آثار ملے ہیں۔

محکمہ آثار قدیمہ کے مطابق صدیوں قبل بھی یہاں آبادی رہائش پذیر تھی اور اس گاؤں سے دریافت ہونے والے چند آثارات کے بارے میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ اُن کا تعلق ہزاروں برس قدیم البلاستوسيني دور سے ہے۔

گاؤں میں ایک میوزیم بھی ہے جہاں یہاں سے دریافت ہونے والی اشیا اور مجسموں کو رکھا گیا ہے۔

BBC

گاؤں والوں کے مطابق پہلی عالمی جنگ میں حصہ لینے والے اس گاؤں کے چند فوجیوں کے خاندان 1947 کی تقسیم کے بعد ہجرت کر کے پاکستان بھی منتقل ہوئے تھے۔

حوالدار دھیرج سنگھ کی تیسری نسل اب بھی گاؤں میں آباد ہے۔

دھیرج سنگھ کے پوتے نرمل سنگھ کا کہنا ہے کہ انھوں نے برٹش انڈین آرمی کی وردی میں ملبوس اپنے دادا کی تصویر دیکھ رکھی ہے جس میں وہ بالکل سبھاش چندر بوس کی طرح لگ رہے تھے۔ نرمل کے مطابق یہی تصویر اُن کی دادا کی آخری نشانی تھی۔

انھوں نے کہا کہ ’دادا کی یہ تصویر فریم میں ہمارے کمرے کی دیوار پر لٹکی ہوتی تھی۔ کئی سال پہلے ہمارے گھر میں آگ لگی جس کے باعث بہت سے سامان جل گیا اور دادا کی تصویر بھی اسی آگ میں جل کر خاکستر ہو گئی۔‘

دھولبہا گاؤں میں پہلی عالمی جنگ میں لڑنے والے اس گاؤں کے نوجوانوں کی ایک یادگار بھی موجود ہے۔ اس یادگار کے ستونوں پر ہلاک ہونے والے نوجوانوں کے نام اور جنگ میں شامل ہونے والے نوجوانوں کی تعداد کندہ ہے۔

گاؤں والوں نے اس جنگی یادگار کی دیکھ بھال کے لیے ایک کمیٹی بنائی ہے جو گذشتہ کئی برسوں سے اس یادگار کی دیکھ بھال کر رہی ہے۔ ریٹائرڈ صوبیدار میجر شکتی سنگھ اس کمیٹی کے صدر ہیں۔

’الریاض‘: پاکستان کے سرحدی گاؤں کی خاص برفی جو انڈین فوجی بھی کھاتے ہیںجب ’انڈین فوجیوں کی لاشیں سڑکوں پر چھوڑ‘ دی گئیں: انڈیا کا گاؤں جہاں آج بھی جنگ کے سائے منڈلاتے ہیں

شکتی سنگھ بتاتے ہیں کہ پہلے یہاں ایک پرانی یادگار ہوتی تھی مگر بعد میں اس جگہ پر ڈیم بنا دیا گیا اور جب وہ یادگار ڈیم کے رقبے میں آ گئی تو اسے دوسری جگہ بنا دیا گیا۔

فوجی تاریخ کے ماہر مندیپ باجوہ کا کہنا ہے کہ ’یہ گاؤں بہت مشہور ہے۔ گاؤں میں بنائی گئی جنگی یادگار میں نصب یادداشت کی تختی اس بات کا منہ بولتا ثبوت ہے۔‘

’پہلی عالمی جنگ کے بعد، انگریزوں نے ان تمام دیہات کی خدمات کو تسلیم کرنے کا فیصلہ کیا جن سے تعلق رکھنے والے جوان برٹش انڈین آرمی کی جانب سے محاذوں کا حصہ بنے۔ ان تمام دیہات میں یادگاری تختیاں لگائی گئیں جن پر واضح الفاظ میں دیہات کی جانب سے فراہم کیے گئے تعاون کے بارے میں بتایا گیا تھا۔‘

وہ کہتے ہیں کہ پنجاب کے گاؤں، دیہات میں نصب ’ان تختیوں کے دونوں سروں پر دو ستارے ہیں جنھیں ’سٹار آف ڈیوڈ‘ کہا جاتا ہے، یہ دونوں ستارے اور پتھروں پر درج تحریروں سے واضح ہوتا ہے کہ انگریزوں نے گاؤں والوں کی شراکت کو تسلیم کیا اور اس پر ان کی تعریف کی۔‘

بہادری، جذبے اور جرات کی کہانی دھولبہا گاؤں کے کسی ایک گھرانے تک محدود نہیں بلکہ یہاں موجود گھر گھر کی کہانی ہے۔

گاؤں کے سرپنچ، منگت رام کے والد بھی ایک سابق فوجی تھے اور اُن کی وفات دورانِ ڈیوٹی ہی ہوئی تھی۔

منگت رام کا کہنا ہے کہ اس گاؤں میں 623 گھر ہیں، گاؤں میں 317 ریٹائرڈ فوجی ہیں اور تقریباً 306 نوجوان اِس وقت بھی فوج میں خدمات انجام دے رہے ہیں۔

وہ کہتے ہیں کہ ’لگ بھگ ہر گھر میں ایک ریٹائرڈ یا حاضر سروس فوجی موجود ہے۔ میرے والد بھی فوج میں تھے۔ جب ہمارا گاؤں فوجیوں کے گاؤں کے طور پر جانا جاتا ہے تو ہمیں فخر محسوس ہوتا ہے۔ یہ بڑے فخر کی بات ہے کہ ایک گاؤں کے اتنے آدمی محاذ جنگ پر جا چکے ہیں۔ یہ اس گاؤں کی شاندار تاریخ ہے۔‘

BBC

منگت رام مزید کہتے ہیں کہ ’ہمیں اس سب پر بہت فخر محسوس ہوتا ہے۔ لیکن صرف وہی جانتا ہے کہ جس خاندان کا کوئی فرد شہید ہو جاتا ہے تو اس پر کیا گزرتی ہے۔‘

حوالدار دھیرج سنگھ کی تیسری اور چوتھی نسل کے نوجوانوں بھی انڈین فوج اور سیکورٹی فورسز میں اپنا حصہ ڈال رہے ہیں۔

نرمل سنگھ نے بتایا کہ ’میرا بڑا بھائی فوج میں لانس نائیک ہے اور بھتیجا فوج سے صوبیدار کی حیثیت سے ریٹائر ہوا ہے، جبکہ میرا ایک بھتیجا بی ایس ایف میں حوالدار کے عہدے پر تعینات ہے۔‘

مسلح کارروائیوں میں گاؤں کا تعاون

اینگلو افغان جنگ میں اس گاؤں سے تعلق رکھنے والے دو فوجی مارے گئےپہلی عالمی جنگ میں اس گاؤں کے 73 نوجوانوں نے حصہ لیا جن میں سے آٹھ محاذ جنگ پر ہلاک ہوئےدوسری عالمی جنگ میں اس گاؤں سے تعلق رکھنے والے دو جوان جان سے ہاتھ دھو بیٹھےپاکستان کے ساتھ سنہ1971کی جنگ میں دو جوان ہلاک ہوئےسنہ1995میں 'آپریشن رکھشک' میں اس گاؤں کا ایک نوجوان ہلاک ہواپاکستان کے ساتھ ہونے والی کارگل جنگ میں اس گاؤں سے تعلق رکھنے والا ایک فوجی زخمی ہوامسلح افواج کے انتخاب کی وجہ کیا ہے؟

جنگی یادگار کمیٹی کے صدر ریٹائرڈ صوبیدار میجر شکتی سنگھ کا کہنا ہے کہ گاؤں والوں کے مسلح افواج کو منتخب کرنے کے پیچھے روزگار اور حب الوطنی کا جذبہ بنیادی وجوہات ہیں۔

’گاؤں میں روزگار کے زیادہ ذرائع نہیں ہیں۔ ایک دور دراز علاقہ ہونے کی وجہ سے یہاں زراعت کے مواقع بھی بہت محدود ہیں۔ فوج کی ملازمتیں روزگار کا بنیادی ذریعہ ہیں۔ حب الوطنی اور ملک کی خدمت کے جذبے نے بھی نوجوانوں کو مسلح افواج میں شامل ہونے کی ترغیب دی اور رفتہ رفتہ یہ رجحان بن گیا۔‘

ان کا کہنا ہے کہ گاؤں والوں کو اعلیٰ تعلیم تک رسائی دستیاب نہیں اور کالج دور دراز کے علاقوں میں ہونے کے باعث گاؤں کے لوگ اعلیٰ تعلیم سے محروم رہتے ہیں۔

انھوں نے کہا کہ ’اِسی وجہ سے لوگ دسویں جماعت مکمل کرنے کے بعد فوج میں بھرتی ہونے کو ترجیح دیتے ہیں۔ فوج میں زندگی مالی طور پر محفوظ رہتی ہے اور معاشرے میں عزت بھی بڑھتی ہے۔ اسی لیے وہ فوج کو ترجیح دیتے ہیں۔‘

’الریاض‘: پاکستان کے سرحدی گاؤں کی خاص برفی جو انڈین فوجی بھی کھاتے ہیںایک گمشدہ یاک کی تلاش جس نے کارگل کے پہاڑوں پر ’پاکستانی فوجیوں کی موجودگی‘ کا راز فاش کیاکارگل جنگ کے وہ ’گُمنام ہیرو‘ جن کے والد 26 سال بعد بھی قانونی جنگ لڑ رہے ہیں: ’ماں میں ایک دن پوری دنیا میں مشہور ہو جاؤں گا‘جب ’انڈین فوجیوں کی لاشیں سڑکوں پر چھوڑ‘ دی گئیں: انڈیا کا گاؤں جہاں آج بھی جنگ کے سائے منڈلاتے ہیں
مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More