’ہنسیں، مسکرائیں یا روئیں‘: 27ویں آئینی ترمیم کے مسودے پر سوشل میڈیا پر دلچسپ تبصرے

بی بی سی اردو  |  Nov 08, 2025

Getty Images

پاکستانی سوشل میڈیا پر اس وقت یہ معاملہ زیرِ بحث ہے کہ ملک میں 27ویں آئینی ترمیم میں نہ صرف وفاقی آئینی عدالت کا قیام بلکہ ججز کی مرضی کے بغیر ان کے تبادلوں کی بھی تجویز دی گئی ہے۔

یہ مجوزہ آئینی ترمیم وفاقی کابینہ سے منظوری کے بعد سینیٹ میں پیش کی گئی اور دونوں ایوانوں میں قانون و انصاف کی قائمہ کمیٹیوں میں زیرِ بحث ہے۔

وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ نے 27ویں آئینی ترمیم کا دفاع کیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ اس وقت تک بحث جاری رہے گی جب تک اتفاق رائے پیدا نہیں ہوجاتا کیونکہ اس کی منظوری کے لیے دو تہائی اکثریت درکار ہے۔

یہ مسودہ محض پارلیمان میں ہی نہیں بلکہ سوشل میڈیا پر بھی زیرِ بحث ہے اور مختلف قانونی ماہرین، سیاستدانوں اور دیگر صارفین نے اس پر اپنی رائے دی ہے۔

’چیف جسٹس آف پاکستان کا عہدہ ختم‘

سوشل میڈیا پر صارفین کے تبصرے دیکھ کر یہ اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ 27ویں آئینی ترمیم کے منظور ہونے سے بھی پہلے اس کے مسودے نے ملک میں کن خدشات کو جنم دیا، خاص کر عدالتی اصلاحات کو لے کر۔

سابق گورنر سندھ محمد زبیر نے ایکس پر لکھا کہ اب وزیر اعظم خود وفاقی آئینی عدالت کے پہلے چیف جسٹس کو تعینات کریں گے جبکہ آئینی عدالت میں ججز کا ’پہلا بیچ‘ وزیر اعظم کی ایڈوائس اور آئینی عدالت کے چیف جسٹس سے مشاورت کے بعد صدر کی جانب سے تعینات کیا جائے گا۔

ان کی رائے ہے کہ عدلیہ کو اس سے پہلے کبھی ایگزیکٹو کے اتنے تابع نہیں کیا گیا۔

سابق سینیٹر مصطفیٰ نواز کھوکھر نے اسے ’آئینی مارشل لا‘ سے تشبیہ دی جبکہ سابق وزیر قانون بابر اعوان کا کہنا ہے کہ یہ آئینی ترمیم نہیں بلکہ 1973 کے دستور کا ’ڈیتھ وارنٹ اور اور جمہوری پارلیمانی نظام کا مکمل رول بیک‘ ہے۔

وہ مزید کہتے ہیں کہ ’شخصی آمریت، پاکستان کی فیڈریشن کے لیے ہمیشہ تباہ کن رہی۔‘

وکیل عبدالعیز جعفری نے آئینی ترمیم پر طنز کرتے ہوئے کہا کہ اس کا مسودہ ’شمالی کوریا بھیج دینا چاہیے تاکہ کم جونگ ان اپنے بچوں کو اس کی لوری سنائیں۔‘

چیف آف ڈیفینس فورسز کا عہدہ، وفاقی آئینی عدالت اور ججز کے تبادلے: 27ویں آئینی ترمیم کے مسودے میں کیا ہے؟افغان طالبان کے پاس کون سے ہتھیار ہیں اور پاکستان کے ساتھ سرحدی جھڑپوں کے دوران انھوں نے کیسے اپنا دفاع کیا؟پاکستان میں تیل کے آف شور بلاکس کی کامیاب بولیاں موصول: ’وسیع ذخائر‘ کہاں ہیں اور دریافت کا کام دوبارہ کیوں شروع کیا گیا؟پی ٹی آئی کو ’مشکل وقت میں‘ چھوڑنے والے رہنما عمران خان کی رہائی کے لیے سرگرم: ’سیاسی درجہ حرارت کم کرنا ہوگا‘

جب بی بی سی نے قانونی ماہر صلاح الدین احمد سے ان کا موقف جاننے کے لیے رابطہ کیا تو انھوں نے 27ویں آئینی ترمیم کے مسودے سے پیدا ہونے والے خدشات کا احاطہ کیا۔

وہ کہتے ہیں کہ اس ترمیم میں سپریم کورٹ کے عدالتی اختیارات ختم کیے جا رہے ہیں کیونکہ آئینی معاملات پر درخواستیں اب حکومت کے چُنے ہوئے ججز پر مشتمل وفاقی آئینی عدالت جائیں گی جبکہ ہائیکورٹس میں بھی حکومت کے چُنے ہوئے ججز پر مشتمل آئینی بینچز ہی آئینی درخواستیں سنیں گے۔

وہ مزید کہتے ہیں کہ ہائیکورٹ سے ٹرانسفر قبول نہ کرنے والے ججز کو ریٹائر کیا جا سکتا ہے جس سے ’پاکستان میں عدلیہ کی آزادی کی امید دم توڑ چکی ہے۔‘

قانونی ماہر اسد رحیم خان نے لکھا کہ 27ویں ترمیم کے ذریعے ’چیف جسٹس آف پاکستان‘ کا عہدہ ہی ختم کر دیا گیا جس کے لیے مختلف شقوں سے لفظ ’پاکستان‘ ہٹانا پڑا۔

وہ کہتے ہیں کہ اب چیف جسٹس آف پاکستان کی جگہ وفاقی آئینی عدالت کے چیف جسٹس اور سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کے عہدے ہوں گے۔

ایڈووکیٹ اظہر صدیقی نے سوال کیا کہ ’ہنسیں، مسکرائیں یا روئیں؟ ۔۔۔ عدلیہ کی آزادی گئی گھاس چرنے۔ ہماری سپریم کورٹ، ہماری مرضی۔‘

Getty Imagesآرٹیکل 243 میں مجوزہ ترمیم سے جنم لیتے سوال

دریں اثنا قانونی ماہر صلاح الدین احمد کا خیال ہے کہ آرٹیکل 243 میں مجوزہ ترمیم کے ذریعے ’پاکستان میں سویلین بالادستی کی کوششیں بھی دم توڑ دیں گیں اور یہ یقینی بنایا جائے گا فیلڈ مارشل عاصم منیر اپنی زندگی کے دوران پاکستان میں طاقت کا واحد مرکز رہیں۔‘

صحافی ماجد نظامی کی رائے ہے کہ آرٹیکل 243 میں مجوزہ ترمیم نے کچھ سوالات جنم لیے ہیں۔ وہ پوچھتے ہیں کہ چیف آف ڈیفینس فورسز (سی ڈی ایف) کی ’مدت ملازمت کیا ہو گی؟ کیا سی ڈی ایف کے عہدے میں توسیع یا دوبارہ تقرری ہو سکے گی؟‘

’کیا سی ڈی ایف ائیر فورس اور نیوی کا رسمی سرپرست ہو گا یا انتظامی اختیارات میں بھی عمل دخل ہو گا؟ کیا مستقبل میں اس عہدے پر ائیر فورس اور نیوی سے بھی کسی کو تعینات کیا جائے گا یا یہ صرف آرمی کے لیے مخصوص ہو گا؟‘

وہ یہ بھی پوچھتے ہیں کہ کیا یہ عہدہ ’فائیو سٹار ہی رہے گا یا مستقبل میں کوئی فور سٹار اس پر تعینات ہو سکتا ہے؟ کیا یہ فیلڈ مارشل عاصم منیر کے لیے وقتی بندوبست یے یا بعد ازاں مستقلاً اس پر تقرری کی جائے گی؟‘

دفاعی امور کی تجزیہ کار عائشہ صدیقہ کہتی ہیں کہ وزارت قانون کے مسودے سے ایسا لگتا ہے جیسے فیلڈ مارشل عاصم منیر اب ’تینوں سروسز کو کنٹرول کریں گے‘ جس میں ان کے بقول ’آپریشنل اور بیوروکریٹک پیچیدگی ہوگی اور اس سے کارکردگی متاثر ہو سکتی ہے۔‘

قانونی ماہر ریما عمر کہتی ہیں کہ صدارتی استثنی کے مقابلے فیلڈ مارشل کو حاصل استثنی تاحیات ہوگی۔

امریکہ میں پاکستان کے سابق سفیر حسین حقانی نے ایکس پر لکھا کہ 'پاکستان کے 1962 کے آئین کے ابتدائیے میں یہ جُملہ موجود تھا کہ یہ آئین فیلڈ مارشل محمد ایوب خان نے قوم کو عطا کیا۔ اس بار اس کی کسر رہ گئی۔‘

وزیر دفاع کا کیا کہنا ہے؟

وزیر دفاع خواجہ آصف کا کہنا ہے کہ 27ویں آئینی ترمیم کا مسودہ لانے سے قبل اتحادی جماعتوں سے مشاورت کی گئی۔ اے آر وائے نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ اس میں کسی چیز کو خفیہ نہیں رکھا گیا۔

انھوں نے کہا کہ ’ساری دنیا میں فیلڈ مارشل تاحیات ہوتا ہے لیکن عہدے کے ساتھ مدت ملازمت جڑی ہوتی ہے۔۔۔ انھیں یونیفارم پہنے اور رینک استعمال کرنے کی تاحیات اجازت ہوتی ہے۔‘

وہ کہتے ہیں کہ ’لوگوں کو غلط فہمی ہو رہی ہے کہ مدت ملازمت کو تاحیات کیا جا رہا ہے۔ مدت ملازمت ویسی ہی رہے گی جیسی قانون میں موجود ہے (یعنی پانچ سال)۔‘

خواجہ آصف کا کہنا ہے کہ چیف آف ڈیفنس سٹاف کا عہدہ چیئرمین جوائنٹ چیف آف سٹاف کا ’نعم البدل ہے۔‘

وہ کہتے ہیں کہ اختیارات میں کوئی اضافہ نہیں کیا گیا۔ ’یہ سب قیاس آرائیاں ہیں۔ اگلے ایک دو روز میں سب واضح ہوجائے گا۔‘

وزیر دفاع نے یہ بھی کہا کہ سپریم کورٹ کو ختم نہیں کیا جا رہا بلکہ آئینی عدالت قائم کی جا رہی ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ سپریم کورٹ میں 55 ہزار کیسز زیرِ التوا ہیں جن میں سے قریب سات ہزار کیس آئینی معاملات سے متعلق ہیں اور باقی کیسز عام عوام کے ہیں۔

’انصاف کو تیز بنانے کے لیے یہ کیا جا رہا ہے کہ جن کے پاس آئینی کیسز ہیں وہ دوسرے کیسز نہیں سن سکیں گے۔۔۔ یہ پورے عمل کو تیز بنائے گا۔ اس کا مقصد سپریم کورٹ کے اختیار کم کرنا نہیں۔‘

انھوں نے ججز کے تبادلے سے متعلق ترامیم کا دفاع کیا کہ انڈیا میں بھی ایسا ہی ہوتا ہے اور ججز اپنی سینیارٹی لے کر ٹرانسفر ہوں گے۔

ان کا کہنا تھا کہ ’یہ کہاں کا انصاف ہے کہ ایک شخص ایک ہی جگہ بیٹھنا چاہے اور اس کو چوائس دی جائے۔‘

وہ کہتے ہیں کہ جج کا تبادلہ کرنے سے ان کی آزادی پر کوئی قدغن نہیں لگے گی۔

وزیر دفاع نے مزید کہا کہ ججز کے تبادلوں کا اختیار ایگزیکٹو کے پاس نہیں بلکہ سپریم جوڈیشل کونسل ہی ہو گا۔

چیف آف ڈیفینس فورسز کا عہدہ، وفاقی آئینی عدالت اور ججز کے تبادلے: 27ویں آئینی ترمیم کے مسودے میں کیا ہے؟افغان طالبان کے پاس کون سے ہتھیار ہیں اور پاکستان کے ساتھ سرحدی جھڑپوں کے دوران انھوں نے کیسے اپنا دفاع کیا؟کن پاکستانیوں کی دوہری شہریت کی منسوخی زیرِ غور ہے؟پی ٹی آئی کو ’مشکل وقت میں‘ چھوڑنے والے رہنما عمران خان کی رہائی کے لیے سرگرم: ’سیاسی درجہ حرارت کم کرنا ہوگا‘پاکستان میں تیل کے آف شور بلاکس کی کامیاب بولیاں موصول: ’وسیع ذخائر‘ کہاں ہیں اور دریافت کا کام دوبارہ کیوں شروع کیا گیا؟
مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More