پاکستان کے زیرِ انتظام کشمیر میں مظاہرین کیا چاہتے ہیں اور احتجاج پرتشدد کیوں ہو گیا؟

بی بی سی اردو  |  May 13, 2024

EPA

پاکستان کے زیر انتظام کشمیر میں عوامی جوائنٹ ایکشن کمیٹی اور حکومت کے درمیان مذاکرات میں ابھی تک کوئی پیشرفت ممکن نہیں ہو سکی ہے۔ جوائنٹ ایکشن کمیٹی کے رکن سردار عمر نزیر کشمیری نے مارچ کو آگے بڑھانے کا اعلان کرتے ہوئے مذاکرات کے عمل کو حکومتی کی جانب سے دھوکہ قرار دیا ہے۔

عوامی ایکشن کمیٹی کا کہنا ہے کہ چونکہ آٹے کی سبسڈی کی آفر کے علاوہ کسی دوسرے مطالبے کو حکومت نے ماننے سے انکار کر دیا ہے، اس لیے تمام قافلے اب مظفرآباد کی طرف مارچ کریں۔

پاکستان کے زیرِ انتظام کشمیر میں بجلی اور آٹے کی قیمتوں میں اضافے کے خلاف ہونے والا احتجاج پرتشدد رخ اختیار کر گیا ہے اور پولیس اور مظاہرین کے درمیان دو دن تک جاری رہنے والی جھڑپوں کے نتیجے میں متعدد افراد زخمی جبکہ ایک پولیس اہلکار ہلاک ہوا ہے۔

اس وقت کئی شہروں سے احتجاجی قافلے دار الحکومت مظفرآباد کی جانب رواں ہے اور مظفرآباد سمیت کشمیر کے متعدد شہروں میں انٹرنیٹ سروس جزوی طور پر معطل کر دی گئی ہے۔

ایکشن کمیٹی کے ممبر امتیاز اسلم نے صحافی محمد زبیر خان کو بتایا کہ حکومت سے مذاکرات کے لیے ایکشن کمیٹی کے عمر نذیر، شوکت نواز میر، راجہ امجد علی ایڈووکیٹ، سردار ارباب ایڈووکیٹ، خان الیاس، انوار بیگ، سردار شبیر، شہزاد جواد، مہران ایڈووکیٹ شامل تھے جبکہ حکومت کی طرف سے چیف سیکرٹری کشمیر، ڈی آئی جی پولیس راولاکوٹ، ڈپٹی کمشنر راولاکوٹ شامل تھے۔

امتیاز اسلم کے مطابق ’مذاکرات میں ہم نے حکومتی نمائندوں سے کہا کہ ہمارے تین مطالبات منگلہ ڈیمسے کشمیر کو بجلی لاگت کی قمت پر فراہم کی جائے۔ جس پر حکومتی وفد نے کہا کہ یہ واپڈا کا کام ہے اور اس میں آئی ایم ایف بھی شامل ہے۔ یہ اتنی جلدی ممکن نہیں اور شاہد یہ ممکن ہی نہیں ہے۔‘

ان کا کہنا تھا کہ ’ہمارا دوسرا مطالبہ تھا کہ ہمیں آٹا حکومت پاکستان کے وعدے سبسڈی ریٹ اور اس ریٹ جس پر گلگت بلتستان کو دیا جاتا ہے فراہم کیا جائے اس پر انھوں نے کہا کہ وہ اس پر تیار نہیں ہوئے اور زائد نرخ بتا رہے تھے۔‘

ان کا کہنا تھا تیسرا مطالبہ تھا کہ ’بیورکریسی، ججرز، حکمرانوں، ممبران اسمبلی موجودہ اور سابقہ کی مراعات کا خاتمہ کیا جائے۔‘

امتیاز اسلم کا کہنا تھا کہ ’مذاکرات ناکام ہونے کے بعد بھی ہم نے حکومتی وفد کو بتایا ہے کہ ہم 24 گھنٹے دستیاب ہیں اگر وہ چاہیں تو ہمارے مطالبات کو منظور کرلیں ورنہ ہم لانگ مارچ جاری رکھیں گے او ریہ پر امن لانگ مارچ ہو گا حکومت رکاوٹ ڈالنے کی کوشش نہ کرے اور یہ کہ جو تشدد ہوا ہے اس کی ذمہ دار ایکشن کمیٹی نہیں ہے۔‘

ان کا کہنا تھا کہ ہم توقع رکھتے ہیں کہ وزیر اعظم شہباز شریف معاملات کو بیورکریسی کے زریعے نہیں بلکے خود حکومتی نمائندے آکر حل کریں گے۔

عوامی ایکشن کمیٹی کی کال پر 11 مئی کو احتجاج کیا جانا تھا، تاہم اس سے پہلے ہی پاکستان کے زیرِ انتظام کشمیر کی حکومت نے وفاقی حکومت سے ایف سی اور پنجاب کانسٹیبلری کے 1200 اہلکار طلب کیے تھے جس کا مقصد بظاہر انسٹالیشنز، ہائیڈل پراجیکٹس اور اسمبلی کی حفاظت کرنا تھا۔

اگرچہ احتجاج 11 مئی کو تھا لیکن ڈڈیال اور میرپور میں ہونے والی گرفتاریوں کے ردِ عمل میں یہ احتجاج 10 مئی کو ہی شروع ہو گیا، جس کے بعد دارالحکومت مظفرآباد میں پولیس اور مظاہرین کے درمیان شدید جھڑپیں شروع ہو گئیں جس کے سبب حالات مزید کشیدہ ہوگئیں۔ درجنوں مظاہرین کو گرفتار کیا گیا اور اس تصادم میں متعدد مظاہرین اور پولیس اہلکار زخمی بھی ہوئے۔

اس کے بعد 11 مئی کو میرپور اور کوٹلی سے لانگ مارچ شروع ہوا جسے جگہ جگہ روکنے کی کوشش کی گئی۔ کئی مقامات پر مظاہرین اور پولیس میں دوبارہ شدید تصادم ہوا، پولیس کی فائرنگ سے متعدد مظاہرین زخمی ہوئے اور حکومتی ترجمان کے مطابق اس تصادم میں ایک سب انسپکٹر بھی ہلاک ہوا۔

پاکستان کے زیرِ انتظام کشمیر کی اتحادی حکومت میں شامل پاکستان پیپلز پارٹی کے رہنما اور حکومتی مصالحتی کمیٹی کے چیئرمین فیصل ممتاز راٹھور کا کہنا ہے کہ وہ آج 13 رکنی وفد کے ہمراہ صدر آصف زرداری سے ملاقات کر رہے ہیں، جس کے دوران یہ تمام مسائل ان کے سامنے پیش کیے جائیں گے۔

بی بی سی سے بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ وہ عوامی ایکشن کمیٹی کے ارکان کے ساتھ رابطے میں ہیں اور جلد ہی مسائل کا حل نکال لیا جائے گا۔

انھوں نے ایکشن کمیٹی کے مطالبات سے متعلق سوال کے جواب میں کہا کہ کشمیر میں اس وقت تین پارٹیوں کی حکومت ہے، کوئی وزیر آسائشیں نہیں لے رہا، نہ ایکسٹرا گاڑی ہے، کوئی نئی ملازمت نہیں نکالی گئی اور نہ ہی کوئی کرپشن سکینڈل سامنے آیا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ کشمیر کے 228 اربکے بجٹ میں سے 200 ارب تنخواہوں میں چلے جاتے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ عوامی ایکشن کمیٹی کے مطالبے کے مطابق آٹے پر سبسڈی پہلے سے دی جا رہی ہے، تاہم ’آٹے کی سبسڈی مستقل نہیں کر سکتے۔ یہ وفاق کا کام ہے، لیکن اس وقت مقامی حکومت اپنے بجٹ سے دے رہی ہے۔ آج کی ملاقات میں صدر سے کہیں گے کہ بجلی کے لیے بھی ریلیف دیں۔‘

پاکستان کے زیرِ انتظام کشمیر کے وزیر اعظم نے رات گئے پرس کانفرنس میں عوامی ایکشن کمیٹی کو مذاکرات کی دعوت دیتے ہوئے کہا کہ ’اگر ایکشن کمیٹی کو آٹے کی مد میں مزید رعایت چاہیے تو ترقیاتی بجٹ قربان کرنا ہوگا۔ آئیں اور کسی بھی سطح پر بات کریں۔ ‘

ان کا کہنا تھا کہ ’ضلعی انتظامیہ اور پولیس نے انتہائی ضبط و تحمل کا مظاہرہ کیا۔ ہم باہمی اعتماد سے مسائل حل کرنا چاہتے ہیں۔‘

انھوں نے کہا کہ سوشل میڈیا پر پروپیگینڈا پوسٹس کی وجہ سے اشتعال انگیزی بڑھی ’شہری بھی آپ کے ہیں، حکومت بھی آپ کی ہے۔ حکومت کوئی غیر سیاسی فیصلہ نہیں کرے گی۔ نہ جبر سے کوئی کسی کی آواز دبائے گی۔ پبلک سیکورٹی سے غفلت نہیں برتی جائے گی۔‘

دوسری جانب ایکشن کمیٹی کے رکن امجد علی خان نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا ہے کہ ’آئندہ کےلائحہ عمل کا فیصلہ کور کمیٹی ہی کرے کی جس کے 31 ارکان ہیں۔ فی الحال تو کچھ گرفتار ہیں، کچھ لانگ مارچ میں شامل یں اور کچھ گرفتاری سے بچنے کی کوشش میں ہیں۔ ایسی صورتحال میں کوئی انفرادی فیصلہ نہیں ہو سکتا۔‘

ایکشن کمیٹی کے رکن اور چیئرمین مرکزی انجمن تاجران مظفرآباد شوکت نواز میر کا کہنا ہے کہ یہ احتجاج غیر معینہ مدت تک جاری رہے گا۔ ان کا ایک ویڈیو پیغام میں کہنا ہے کہ ’موبائل سروس بند کر کے عوام کو مزید اذیت دی جا رہی ہے۔ ‘

عوامی ایکشن کمیٹی کے رکن اور تحریک کے سرگرم کارکن فیصل جمیل کشمیری نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ ’ایک سال سے یہ تحریک پر امن طریقے سے چل رہی تھی۔ اس میں سارے عوامی مطالبات ہیں، جو پونچھ میںآٹھ مئی 2023 سے آٹے کی عدم دستیابی اور سبسڈی سے شروع ہوئے۔ اگست میں بجلی کےبل زیادہ آئے تو مظفر آباد اور میرپور ڈویژن سے بھی لوگ اس میں شامل ہوئے۔‘

انھوں نے صورتحال کا ذمہ دار وزیر اعظم انوار الحق کو قرار دیا ہے۔

فیصل جمیل کشمیری نے کہا کہ مطالبات میں حکومت کے بے جا اخراجات پر کنٹرول بھی شامل ہے۔ ’موجودہ کابینہ 16 سے بڑھ کر 40 پر گئی۔ پھر حکومت کہتی ہے کہ فنڈز نہیں ہیں۔ پورے کشمیر کے 25 لاکھ لوگوں کے لیے اتنی بڑی کابینہ۔۔۔ حکومت نے اپنے اخراجات بڑھا لیے ہیں۔‘

فیصل جمیل کشمیری کا کہنا تھا کہ ’پراپرٹی ٹرانسفر ٹیکس بہت زیادہ لگا دیا گیا ہے جو 35 فیصد تک ہے۔ اتنا زیادہ پوری پاکستان میں نہیں۔ احتساب ایکٹ میں تیرامیم کرنی تھیں تاکہ واقعی احتساب ہو۔ یہاں انسدادِ بد عنوانی کے اتنے زیادہ ادارے ہیں ، اپنے لوگ لگانے کے لیے بہت زیادہ لوگوں کو ملازمتیں دی گئیں جس کی وجہ سے سارا بجٹ تنخواہوں میں چلا جاتا ہے۔ ان تمام وجوہات کی وجہ سے یہ تحریک شروع کی گئی۔ ‘

انھوں نے کہا ’ایک سال سے حکومت سے اس بارے میں مذاکرات ہو رہے ہیں۔ مذاکرات اس بات کی گواہی ہیں کہ تحریک پر امن ہے۔ حکومت نے خود ڈڈیال میں چھاپے مارے، لوگ گرفتار ہوئے۔ صورتحال جو کشیدہ ہوئی اسے نہیں ہونا چاہیے۔ ‘

انھوں نے عوام سے پرامن رہنے کی اپیل کرتے ہوئے مظاہروں میں لوگوں کے مارے جانے اور زخمی ہونے پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے اس کی مذمت کی۔

فیصل جمیل کشمیری کا کہنا تھا کہ ’پوری دنیا میں سول سوسائٹی کے لوگ احتجاج کرتے ہیں۔ یہاں مسئلہ یہ ہے کہ جوں ہی آپ کوئی مطالبات کریں تو ایجنٹ ہونے کا الزام لگ جاتا ہے اور خاموش کروا دیا جاتا ہے۔‘

BBC جوائنٹ ایکشن کمیٹی میں کون لوگ شامل ہیں؟

عوامی ایکشن کمیٹی میں ہر ضلع کی ایکشن کمیٹی شامل ہے جن میں کشمیر کے دس اضلاع سے تین تین لوگ مرکزی جوائنٹ عوامی ایکشن کمیٹی میں بھیجے گئے ہیں۔ یہ 30 رکنی کمیٹی ہے جس میں تاجر، وکلا، سول سوسائٹی، کاؤنسلرز اور طلبا شامل ہیں۔

پاکستان کے زیرِ انتظام کشمیر میں عوامی ایکشن کمیٹیوں کا وجود 8 مئی 2023 کو راولاکوٹ میں آٹے کے بحرانکے نتیجے میں احتجاج شروع ہونے کے بعد عمل میں آیا، جسے پہلے تو پونچھ عوامی ایکشن کمیٹی کا نام دیا گیا۔

تاہم اگست 2023 میں بجلی کے بل آنے کے بعد راولاکوٹ سے شروع ہونے والی یہ تحریک پورے کشمیر میں پھیل گئی۔ حکومت نے بجلی بلز میں پروٹیکٹڈ اور ان پروٹیکٹڈ کی دو نئی اصطلاحات متعارف کروائیں جن کے تحت 200 یونٹ سے زیادہ بجلی استعمال کرنے والوں کو دوگنا بل وصول ہوا۔

حکومت کے اس اقدام کے خلاف مظفرآباد میں طلبا نے احتجاج شروع کیا جس میں تاجر بھی شامل ہو گئے۔ ادھر پونچھ میں ایکشن کمیٹی نے آٹے کے ساتھ ساتھ بجلی کو بھی موضوع بحث بنا لیا جس کےبعد میرپور بھی اس میں شامل ہو گیا۔

5 ستمبر 2023 کو پونچھ اور میرپور ڈویژنز میں بھی بھرپور شٹرڈاؤن اور پہیہ جام ہوا جس کے بعد تینوں ڈویژنز کی عوامی ایکشن کمیٹیوں نے مظفرآباد میں 17 ستمبر کو مشترکہ اجلاس منعقد کیا جس میں پورے کشمیر سے 200 سے زیادہ افراد نے شرکت کی۔

اس اجلاس میں فیصلہ ہوا کہ پاکستان کے زیر انتظام کشمیر کے ہر ضلعے میں عوامی ایکشن کمیٹیاں تشکیل دی جائیں گی جہاں سے فی ضلع تین افراد کو مرکزی کور کمیٹی میں نامزد کیا جائے گا جنھیں تمام فیصلے کرنے کا اختیار ہو گا۔

اس کے بعد اسے ’جموں و کشمیر جوائنٹ عوامی ایکشن کمیٹی‘ کا نام دے دیا گیا۔

مطالبات ہیں کیا ؟

پاکستان کے زیر انتظام کشمیر میں جوائنٹ عوامی ایکشن کمیٹی نے مذاکرات کے دوران حکومتی ٹیم کے سامنے دس مطالبات رکھے۔ جن میں سے بقول ان کے حکومت نے نو مطالبات تسلیم بھی کیے۔

آٹے پر گلگت بلتستان کے مساوی سبسڈی دی جائے۔بجلی کا ٹیرف کشمیر میں منگلا ہائیڈروپاور پراجیکٹ سے پیدا ہونے والی بجلی کی پیداواری لاگت کے مطابق مقرر کیا جائے۔حکمران طبقے اور افسر شاہی کی غیر ضروری مراعات کا مکمل خاتمہ کیا جائے۔طلبا یونینز پر لگی پابندی ختم کی جائے اور انتخابات کا انعقاد کروایا جائے۔کشمیر بنک کو شیڈولڈ کیا جائے۔بلدیاتی نمائندوں کو فنڈز اور اختیارات دیے جائیں۔کشمیر میں سیلولر کمپنیوں اور انٹرنیٹ سروسز کو معیاری کیا جائے۔کشمیر میں پراپرٹی ٹرانسفر ٹیکس کو کم کیا جائے۔کشمیر میں احتساب بیورو کو فعال کیا جائے اور ایکٹ میں تصیح کی جائے۔سرسبز درختون کی کٹائی پر عملاً پابندی لگائی جائے اور مقامی ووڈ انڈسٹری کو فعال بنانے کے لیے قانون سازی کی جائے۔

جوائنٹ ایکشن کمیٹی کے مطابق چار فروری 2024 کو خطے کی حکومت نے بجلی کے نرخوں کے علاوہ باقی تمام مطالبات تسلیم کرتے ہوئے ایک نوٹیفیکیشن بھی جاری کر دیا مگر اس نوٹیفیکیشن کے تین ماہ گزرنے کے باوجود اس پر کوئی کام نہیں کیا گیا جو احتجاج کی وجہ بنا۔

بجلی کے حوالے سے 19 دسمبر2023 کو طے ہوا تھا کہ وفاق سے پیداواری لاگت پر بات کر کے معاملات طے کیے جائیں گے۔ اس اتفاقِ رائےکی دستاویز پر ایکشن کمیٹی کے ارکان کے علاوہ حکومتی کمیٹی کے چئیرمین فیصل ممتاز راٹھور، وزیر قانون میاں عبدالوحید نے بھی دستخط کیے تھے، مگر اس پر بھی کوئی پیش رفت نہیں ہوئی۔

نوبت یہاں تک پہنچی کیسے؟

ان مطالبات کے حق میں جوائنٹ ایکشن کمیٹی نے پورے کشمیر میں دھرنے دینے کا اعلان کیا اور 28 ستمبر 2023 کو عوامی ایکشن کمیٹی نے بجلی کے بلوں کو کسی جگہ غباروں سے باندھ کر ہوا میں اڑایا، کسی جگہ نذر آتش کیا اور کسی جگہ پانی میں کشتیاں بنا کر بہا دیا۔

اس تمام عمل کو سول نافرمانی سے تعبیر دیتے ہوئے مرتکب افراد کے خلاف حکومت نے دہشت گردی کی ایف آئی آرز درج کی گئیں۔ ایکشن کمیٹی کے ذمہ داران کے خلاف کریک ڈاؤن شروع ہوا اور گرفتاریاں عمل میں لائی گئیں۔ اس کے نتیجے میں مظفرآباد میں پولیس اور مظاہرین کے درمیان شدید جھڑپیں شروع ہوئیں۔

دن بدن بگڑتی صورتحال کے پیشِ نظر حکومت نے جوائنٹ عوامی ایکشن کمیٹی کے ساتھ مذاکرات کے لیے نووزرا پر مشتمل کمیٹی تشکیل دی گئی۔ مذاکرات کے کئی دور ہوئِے جن میں حکومت کے سامنے دس مطالبات رکھے گئے۔ چار فروری 2024 کو نو مطالبات کو تسلیم کر کے نوٹیفیکیشن جاری کیا گیا۔

پاکستان میں عبوری حکومت نے وزیردفاع لیفٹنٹ جنرل انور احمد حیدر کی سربراہی میں ورکنگ گروپس تشکیل دیے تاکہ بجلی سے متعلق معاملات کو یکسو کیا جاسکے تاہم اس پر کوئی پیش رفت نہیں ہوسکی۔ 30 مارچ گزرنے کے بعد مطالبات پورے نہ ہونے پر جموں وکشمیر جوائنٹ عوامی ایکشن کمیٹی نے راولاکوٹ اور دھیرکوٹ میں ایک اجلاس طلب کیا جس میں متفقہ طور پر یہ فیصلہ کیا گیا کہ 11 مئی کو میرپور اور پونچھ ڈویژن، ضلع ہٹیاں اور ضلع نیلم سے عوامی مارچ قانون ساز اسمبلی مظفرآباد کی طرف جائے گا اور وہاں مطالبات تسلیم کیے جانے تک دھرنا دیا جائے گا۔

پاکستان کے زیرانتظام کشمیر میں احتجاج کیوں ہو رہا ہے؟ ’پورا پاکستان ہمارے وسائل استعمال کرتا ہے، بدلے میں کچھ نہیں ملتا‘تحریک انصاف کے دورِ حکومت میں عام آدمی کے بجلی کے بل میں کتنا اضافہ ہوا؟پاکستان میں مہنگائی سے پریشان عوام: ’اب ہم ایک وقت کا کھانا ہی کھا سکتے ہیں‘

11 مئی کے ریاست گیر احتجاج کے پیش نظر حکومت نے ریاست کے تمام اضلاع میں دفعہ 144 نافذ کرتے ہوئے آٹھ مئی سے مظفرآباد، کوٹلی، ڈڈیال سمیت مختلف شہروں میں کارکنوں کو گرفتار کرنا شروع کیا۔

ردِ عمل کے طور پر ایکشن کمیٹی نے ایک دن پہلے ہی 10 مئی کو ریاست بھر میں پہیہ جام و شٹر ڈاون ہڑتال کا اعلان کر دیا۔ میرپور، مظفرآباد اور پونچھ ڈویژنز مکمل طور پر بند رہے۔ تاجران، بلدیاتی نمائندے، وکلا، سول سوسائٹی نے عوامی ایکشن کمیٹی کی کال پر ریاست بھر میں احتجاج میں حصہ لیا۔

ایکشن کمیٹی کے مطابق ڈڈیال میرپور میں پولیس نے شہریوں کے گھروں میں داخل ہو کر رات کے وقت 50 سے زائد افراد کو گرفتار کیا جس کے بعد شہریوں نے جمع ہو کر اسسٹنٹ کمشنر دفتر پر حملہ کر دیا، مظاہرین نے اسسٹنٹ کمشنر کی گاڑی توڑ کر اسے آگ لگا دی اور سرکاری عملے پر تشدد کرتے ہوئے انھیں دفاتر سے باہر نکال دیا۔

بات پھیلی تو ان گرفتاریوں کے خلاف میرپور، کوٹلی، حویلی و دیگر شہروں میں بھی عوام سڑکوں پر نکل آئے۔

ممبر عوامی ایکشن کمیٹی و صدر انجمن تاجر مظفرآباد شوکت نواز میر اپنے ایک ویڈیو پیغام میں ان گرفتاریوں کے خلاف عوام سے باہر نکلنے کی اپیل کی اور حکومت سے مطالبہ کیا کہ ڈڈیال میں گرفتار کیے گئے شہریوں کو فوری رہا کیا جائے، ان کا کہنا تھا کہ ’پر امن احتجاج ہمارا حق ہے، عوامی حقوق کے لیےجدوجہد سے کوئی نہیں روک سکتا۔‘

BBCحکومت اور انتظامیہ کیا کہتی ہے؟

پاکستان کے زیر انتظام کشمیر کی حکومت کے ترجمان ماجد خان کا کہنا ہے کہ دونوں جانب سے مذاکرتی کمیٹیاں بنائی گئیں تھیں اور مسائل کا حل بھی نکالا گیا تھا۔ تاہم آٹے پر حکومت کی جانب سے ٹارگلٹڈ سبسڈی کو ایکشن کمیٹی نے مسترد کر دیا تھا جبکہ بجلی کے لیے وہ پیداواری لاگ کی مطالبہ کررہے ہیں جس میں وفاقی حکومت اور واپڈا بھی انوالو ہیں۔

بی بی سی سے بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ بجلی اور گندم دونوں وفاق کے زیر انتظام مسائل ہیں اس لیے اس کا حل وفاقی حکومت سے بات کر کے ہی نکل سکتا ہے۔

انھوں نے بتایا کہ اگرچہ پاکستان کی نگران حکومت کے ساتھ ان مسائل پر بات چیت ہوئی تھی اور حل تجویز کیے گئے تھے لیکن نگراں حکومت کے پاس فیصلہ سازی کے اختیار کم ہوتے ہیں اس لیے انھوں نے یہ معاملات منتخب حکومت کے آنے تک چھوڑ دیے تھے۔ تاہم الیکشن کے بعد پاکستان خود اپنے معاشی بد تر حالات کا سامنا کر رہا ہے اس لیے کشمیر کے معاملات تعطل کا شکار ہوئے۔ ان کا کہنا تھا کہ ’وفاق ہمیں ریلیف دے تو ہم کچھ کر سکتے ہیں۔‘

حالیہ تحریک کے پر تشدد ہونے کی وجوہات کا ذکر کرتے ہوئے ماجد خان کا کہنا تھا کہ ’ہمیں معلوم تھا کہ تاجر احتجاج کریں گےاور ہم پر امن احتجاج کو روکنے کی حامی نہیں۔ تاہم ہمیں علم ہوا کہ 10 فیصد لوگ ایسے ہیں جو احتجاج کو پر تشدد کرنا چاہتے ہیں۔ اس لیے وہاں اسلحے کا استمعال ہوا اور پولیس والے زخمی ہوئے۔ ‘

ماجد خان نے بتایا کہ ’ہم نے احتیاطاً کچھ گرفتاریاں کی تھیں تاہم مظاہرین کو کسی مقام پر نہیں روکا گیا۔ تاہم سرکاری املاک کا تحفظ پولیس کی ذمہ داری ہے۔ احتجاج کے دوران آتشیں اسلحہ استعمال ہوا جس کی تحقیقات کی جا رہی ہیں۔ کیونکہ تاجر دہشت گرد نہیں ہوسکتے۔‘

اس وقت بھی کشمیر کے مختلف علاقوں سے احتجاج مارچ مظفر آباد جا رہے ہیں، انھیں روکے جانے سے متعلق ماجد خان کا کہنا تھا کہ حکومت کا مظاہرین سے محاذ آرائی کا کوئی ارادہ نہیں۔

ان کا کہنا تھا ’اس وقت ہماری بہت سے مقامات پر ان لوگوں سے بات چیت جاری ہے۔ وہ آئیں ہم سے بات کریں ہم وفاقی حکومت تک ان کی بات پہنچائیں گے۔ ہمارے ہاں غیر ملکی کام کر رہے ہیں اس لیے ہم بدامنی کے متحمل نہیں ہوسکتے۔‘

ان کا کہنا تھا کہ کسی بھی مسئلے کا مذاکرات کے علاوہ اور کوئی حل نہیں ہے۔

پاکستان کے زیرانتظام کشمیر میں احتجاج کیوں ہو رہا ہے؟ ’پورا پاکستان ہمارے وسائل استعمال کرتا ہے، بدلے میں کچھ نہیں ملتا‘پاکستان میں مہنگائی سے پریشان عوام: ’اب ہم ایک وقت کا کھانا ہی کھا سکتے ہیں‘بجلی کی طلب سے زیادہ پیداوار پاکستان کے لیے مسئلہ کیوں بن گئی ہے؟تحریک انصاف کے دورِ حکومت میں عام آدمی کے بجلی کے بل میں کتنا اضافہ ہوا؟
مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More