صوبہ پنجاب میں پولیس مقابلوں میں اضافے کی وجوہات کیا ہیں؟

اردو نیوز  |  Jun 22, 2025

پاکستان کے صوبہ پنجاب میں ان دنوں پولیس مقابلوں کی خبریں عروج پر ہیں، آئے روز کسی نہ کسی علاقے سے پولیس مقابلے کی خبر میڈیا کی زینت بن رہی ہے۔ 18 جون کو صوبے بھر میں 24 گھنٹوں کے اندر آٹھ ملزمان کی پولیس مقابلوں میں ہلاکت رپورٹ ہوئی، اور یہ مقابلے سیالکوٹ، گوجرانوالہ، پتوکی، ملتان اور وہاڑی کے علاقوں میں ہوئے۔

گذشتہ دنوں ضلع حافظ آباد میں اجتماعی زیادتی کے کیس، جس میں ملزمان نے شوہر کے سامنے ان کی بیوی کی عصمت دری کی تھی، کے مقدمے کے تین ملزمان دو مختلف مواقع پر پولیس مقابلے میں ہلاک ہوئے۔

پنجاب بھر میں ہونے والے پولیس مقابلے حال میں وجود میں آنے والے پولیس ہی کے ہی محکمہ کرائم کنٹرول (سی سی ڈی) کے رپورٹ کردہ ہیں۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ سرکاری اعداد و شمار کے مطابق اس محکمے کے قیام سے لے کر اب تک 785 پولیس مقابلے رپورٹ ہو چکے ہیں جو گذشتہ برس کی نسبت 35 فیصد زیادہ ہیں۔ پولیس مقابلوں کے بڑھتے رجحان کے حوالے سے جب آئی جی دفتر سے رابطہ کیا گیا تو یہ بتایا گیا کہ اس موضوع پر سی سی ڈی ہی کوئی وضاحت دے سکتا ہے۔

محکمہ کرائم کنٹرول کے ترجمان عبدالواحد نے اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’ایسا نہیں ہے کہ پولیس مقابلے بڑھے ہیں یا ماروائے عدالت ملزمان کی ہلاکتوں میں اضافہ ہوا ہے۔ اصل میں سی سی ڈی کا مینڈیٹ پنجاب بھر میں جرائم پیشہ افراد کو پکڑنا ہے جو عادی مجرم ہیں، چونکہ اب یہ ادارہ نچلی سطح تک فعال ہو چکا ہے اس لیے مجرمان کے گرد گھیرا تنگ ہوا ہے، اور وہ بھاگنے کی کوشش میں حملہ آور ہوتے ہیں۔‘

ان کا کہنا تھا کہ ’ہم نے سیکنڑوں کی تعداد میں ملزمان کو گرفتار بھی کیا ہے جو 15 15 برسوں سے روپوش تھے اور اشتہاری تھے۔ اگر ہزار افراد کے خلاف ریڈ ہوا ہے تو اس میں 100 سے بھی کم ایسے ہیں جنہوں نے جب پولیس کو جواب دینے کوشش کی تو وہ مارے گئے، باقی جنہوں نے ہتھیار ڈالے وہ گرفتار کر کے عدالتوں میں پیش کیے گئے۔‘

خیال رہے کہ اس پنجاب کے ایڈیشنل آئی جی سہیل ظفر چٹھہ سی سی ڈی کے سربراہ ہیں۔ ان کو پہلے ڈی جی اینٹی کرپشن پنجاب کا چارج دیا گیا تھا۔

وزیراعلٰی مریم نواز کی ہدایت پر پنجاب کے گلی کوچوں سے لے کر دیہاتوں تک میں جرائم کی روک تھام کے لیے سی سی ڈی کا قیام فروری 2025 میں عمل میں لایا گیا۔

پنجاب بھر میں ہونے والے پولیس مقابلے حال میں وجود میں آنے والے پولیس ہی کے ہی محکمہ کرائم کنٹرول کے رپورٹ کردہ ہیں۔ (فائل فوٹو: اے ایف پی)یہ محکمہ صوبے میں جاری منظم جرائم کے خاتمے کے لیے بنایا گیا۔ اور پرانی کریمنل انویسٹی گیشن ایجنسی (سی آئی اے) کی جگہ پر کام کر رہا ہے۔ سی سی ڈی کو جدید ٹیکنالوجی اور وسائل سے لیس کیا گیا ہے۔ لیکن سی سی ڈی کا دائرہ کار کیا ہے، اور یہ کیسے جرائم سے نمٹے گا؟

سی آئی اے کا خاتمہ اور سی سی ڈی کا قیامپنجاب پولیس کا محکمہ سی آئی اے طویل عرصے سے سنگین جرائم جیسے قتل، ڈکیتی، اور منشیات کی سمگلنگ کی تفتیش کے لیے کام کرتا رہا ہے۔ تاہم وزیراعلٰی مریم نواز نے 2025 میں امن و امان کی ابتر صورتحال پر تنقید کرتے ہوئے سی آئی اے کو ختم کرنے کا فیصلہ کیا۔

ان کا کہنا تھا کہ’ پولیس کی کارکردگی تسلی بخش نہیں، اور منظم جرائم سے نمٹنے کے لیے ایک جدید، موثر اور ٹیکنالوجی سے لیس ادارے کی ضرورت ہے۔‘

اس فیصلے کے تحت سی آئی اے کے تین دفاتر لاہور اور دیگر اضلاع میں دو دو دفاتر سی سی ڈی کے حوالے کر دیے گئے۔

سی سی ڈی کو چار ہزار سے زائد افسران و اہلکاروں پر مشتمل ایک مضبوط فورس بنایا گیا، جس میں سے دو ہزار سے زائد افسران اور اہلکار پنجاب پولیس سے منتقل کیے گئے۔ ایڈیشنل انسپکٹر جنرل (اے آئی جی) اس کے سربراہ ہیں، جبکہ تین ڈی آئی جیز، 10 ایس ایس پیز، 13 ایس پیز، اور 47 ڈی ایس پیز ہر ضلع میں تعینات ہیں۔ لاہور میں 900 اور راولپنڈی، فیصل آباد، ملتان، گوجرانوالہ میں اس کے ایک ہزار اہلکار ہیں۔

وزیراعلٰی مریم نواز کی ہدایت پر پنجاب میں جرائم کی روک تھام کے لیے سی سی ڈی کا قیام فروری 2025 میں عمل میں لایا گیا۔ (فائل فوٹو: ایکس)سی سی ڈی کا بنیادی مقصد سات سنگین منظم جرائم؛ قتل، ڈکیتی، قبضہ مافیا، گینگسٹر نیٹ ورکس، منشیات، ہتھیاروں کی نمائش اور ڈالا کلچر پر قابو پانا ہے۔

یہ محکمہ جدید ٹیکنالوجی، جیسے ڈرون سرویلنس اور 21 ہزار سیف سٹی کیمروں کا استعمال کرتا ہے تاکہ جرائم کے ہاٹ سپاٹس کی نشاندہی کی جائے۔ ڈرون پانچ منٹ میں جائے وقوعہ پر پہنچ کر شواہد اکٹھے کرتے ہیں، جبکہ مصنوعی ذہانت (اے آئی) جرائم کے ڈیٹا مینجمنٹ میں مدد دیتی ہے۔

سی سی ڈی کے چھ سیلز ہیڈ منی، کریمنل ریکارڈ آفس، اشتہاری ملزمان (پی اوز)، انٹیلی جنس، جرائم کی تفتیش اور چالان تک نگرانی کرتے ہیں۔ محکمے کو نئی عمارات، گاڑیاں، اسلحہ، اور خصوصی الاؤنسز دیے گئے ہیں تاکہ اس کی کارکردگی میں اضافہ ہو۔

مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More