کے الیکٹرک نے سائیں سرکار کے 26 ارب روپے دبا لیے

ہماری ویب  |  Jul 03, 2025

الیکٹرسٹی ڈیوٹی صوبائی ٹیکس ہے جو کے الیکٹرک سمیت دیگر بجلی تقسیم کار کمپنیاں صارفین سے بلوں میں وصول کرکے سندھ حکومت کو دینے کی پابند ہیں تاہم حیرت انگیز طور پر بجلی کی تقسیم کار کمپنیاں صارفین سے وصول ہونے والی اربوں روپے کی رقم حکومت کو جمع نہیں کراتیں۔

اس ضمن میں آڈیٹر جنرل آف پاکستان کی گزشتہ ماہ ریلیز ہونے والی رپورٹ 2024۔25 میں انکشاف ہوا ہے کہ سندھ حکومت کے بجلی کی تقسیم کار کمپنیوں پر الیکٹرسٹی ڈیوٹی کی مد میں واجب الادا رقم 27 ارب روپے سے تجاوز کرچکی ہے یہ ریکارڈ جون 2023 تک کا ہے، ذرائع کے مطابق پچھلے 2 سال میں اس واجب الادا رقم میں مزید کئی ارب روپے کا اضافہ ہوچکا ہے۔

محکمہ توانائی سندھ کے حسابات کی جانچ پڑتال کے مطابق الیکٹرسٹی ڈیوٹی کی مد میں بجلی تقسیم کار کمپنیوں پر واجبات 27 ارب 86 کروڑ 76 لاکھ روپے ہیں جس میں سب سے زیادہ رقم کے الیکٹرک سے وصول نہیں کی جاسکی ہے، کے الیکٹرک کی جانب سے 26 ارب 37 کروڑ 86 لاکھ روپے کی رقم صارفین سے وصول کی گئی ہے لیکن سندھ حکومت کو نہیں دی جارہی۔

اسی طرح سکھر الیکٹرک کارپوریشن پر الیکٹرسٹی ڈیوٹی کی مد میں 24 کروڑ 46 لاکھ روپے اور حیدرآباد الیکٹرک کارپوریشن پر ایک ارب 24 کروڑ روپے واجب الادا ہے۔ آڈٹ رپورٹ میں اتنی بڑی رقم کی وصولی کو صوبائی مالی غفلت کا نتیجہ قرار دیا ہے۔

انرجی ڈپارٹمنٹ کے سامنے یہ معاملہ اگست 2024 میں اٹھایا گیا جس پر 10 فروری 2025 کو ڈپارٹمنٹل اکاؤنٹ کمیٹی کی میٹنگ ہوئی جس میں انرجی ڈپارٹمنٹ کے حکام نے موقف اختیار کیا کہ حیدرآباد الیکٹرک کارپوریشن سے 20 کروڑ روپے اور سکھر الیکٹرک کارپوریشن سے 23 کروڑ 50 لاکھ روپے وصول کرلیے گئے ہیں۔

انرجی ڈپارٹمنٹ حکام کے مطابق کے الیکٹرک سے متعدد بار درخواست کی گئی ہے لیکن وہ یہ رقم دینے سے انکاری ہے اور کے الیکٹرک مذکورہ رقم واٹر اینڈ سیوریج بورڈ پر واجب الادا رقم سے ایڈجسٹ کرانے کے لیے بضد ہے۔ ذرائع کے مطابق کے الیکٹرک کے واٹر اینڈ سیوریج پر واجبات ہوں گے لیکن از خود وصولی کرنا غیر قانونی ہے۔ ایک جانب کے الیکٹرک نے اس کو جواز بنا کر اربوں روپے اپنے پاس بھی رکھ لیے ہیں اور واٹر اینڈ سیوریج کی بجلی بھی منقطع کرکے انہیں وصولی کے لیے بلیک میل کرتے رہتے ہیں۔

مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More