پاکستان میں نیشنل ڈیٹا بیس اینڈ رجسٹریشن اتھارٹی (نادرا) نے ایک نئی رضاکارانہ عام معافی سکیم کا اعلان کیا ہے جس کے تحت شہری اگر رضاکارانہ طور پر یہ تسلیم کریں کہ انہوں نے شناختی دستاویزات میں غلط معلومات فراہم کی تھیں، تو ان کے خلاف قانونی کارروائی نہیں کی جائے گی۔
جون 2025 میں نیشنل ڈیٹا بیس اینڈ رجسٹریشن اتھارٹی (نادرا) نے شناختی قوانین میں کئی بڑی ترامیم متعارف کروائی ہیں۔
ان تبدیلیوں کو شفافیت، تحفظ اور جعل سازی کے خاتمے کے عہد کے ساتھ پیش کیا گیا ہے۔ انہی اصلاحات کے تحت ایک رضاکارانہ عام معافی سکیم کی منظوری بھی دی گئی ہے۔
اس سکیم کے تحت اگر کسی شہری نے غلط یا جعلی معلومات کی بنیاد پر شناختی کارڈ یا فیملی رجسٹریشن سرٹیفکیٹ حاصل کیا ہے، تو وہ خود کو نادرا کے سامنے پیش کر سکتا ہے۔
حکام کے مطابق ایسے افراد کو قانونی تحفظ دیا جائے گا، بشرطیکہ وہ ازخود اپنی غلطی تسلیم کریں۔
نادرا نے ملک بھر میں تصیقی بورڈز قائم کیے ہیں تاکہ ایسے کیسز کی جانچ پڑتال کی جا سکے۔ لیکن اگر کوئی شہری سکیم سے فائدہ نہ اٹھائے اور بعد ازاں جعل سازی ثابت ہو جاتی ہے تو اس کے خلاف سخت کارروائی کی جائے گی۔
ایک اور موقع یا نگرانی کا نیا نظام؟
نادرا کی یہ پیشکش بظاہر ایک مصالحتی اقدام دکھائی دیتی ہے، مگر انسانی حقوق کے کارکنوں اور بعض شہریوں میں اس سکیم کے مقاصد پر سوالات اٹھائے جا رہے ہیں۔
جون 2025 میں نیشنل ڈیٹا بیس اینڈ رجسٹریشن اتھارٹی (نادرا) نے شناختی قوانین میں کئی بڑی ترامیم متعارف کروائی ہیں۔ (فوٹو: ایکس)
کراچی کے مقامی صحافی نادر خان کہتے ہیں کہ ’یہ سکیم بیک وقت رعایت بھی ہو سکتی ہے اور نگرانی کا نیا راستہ بھی۔ خاص طور پر ان اقلیتی برادریوں کے لیے جن کے کاغذات ہمیشہ سے نادرا کے لیے مشتبہ رہے ہیں۔‘
کئی شہریوں کا ماننا ہے کہ یہ سکیم ایک سرویلنس ٹریپ ہو سکتی ہے، جس کے ذریعے حکومت ان افراد کو خود سامنے آنے پر مجبور کر رہی ہے، جن کے کوائف پہلے ہی مشکوک یا متنازع ہیں۔
شہریوں میں الجھن اور خوف
کراچی کے علاقے اورنگی ٹاون سے تعلق رکھنے والے نعیم احمد (فرضی نام) کا شمار ان ہزاروں شہریوں میں ہوتا ہے جنہیں نادرا نے اظہار وجوہ کا نوٹس بھیجا ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ میں نے 15سال قبل شناختی کارڈ بنوایا تھا۔ اب کہا جا رہا ہے کہ والد کا ریکارڈ نادرا میں موجود نہیں۔
انہوں نے کہا کہ کیا میں سکیم کا فائدہ لوں یا خاموش رہوں؟ میں نے اگر یہ تسلیم کر لیا کہ غلطی میری تھی، تو کہیں میرا شناختی کارڈ ہمیشہ کے لیے منسوخ نہ ہو جائے؟
اس سکیم کے تحت اگر شہریوں کو واقعی تحفظ اور درستگی کا موقع دیا گیا تو یہ ایک قابل ستائش قدم ہو گا۔ (فوٹو: بادرا ویب سائٹ)
یہی الجھن ہزاروں شہریوں کو لاحق ہے، خاص طور پر ان لوگوں کو جو پناہ گزین ہیں یا غیر رسمی آبادیوں میں رہتے ہیں، جیسے افغان، بنگالی یا برمی نژاد خاندان، جن کی کئی نسلیں پاکستان میں پیدا ہو چکی ہیں مگر ان کی شہریت تاحال غیر واضح ہے۔
نادرا کا مؤقف
نادرا کے ترجمان شباہت علی نے اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’یہ سکیم شہریوں کو ایک محفوظ راستہ فراہم کرتی ہے کہ وہ قانون کے مطابق اپنی شناختی معلومات درست کریں۔ کسی کے ساتھ زیادتی نہیں ہوگی۔‘
ان کا مزید کہنا تھا کہ سکیم کے ذریعے شناختی نظام کو عالمی معیار کے مطابق بنایا جا رہا ہے تاکہ جعل سازی کے امکانات ختم کیے جا سکیں۔
نادرا کی سکیم ایک جانب ڈیجیٹل شفافیت اور سلامتی کی علامت بننے کی کوشش کر رہی ہے، مگر دوسری جانب یہ اقدام شہریوں کے لیے ایک نازک امتحان بھی ہے۔
اس سکیم کے تحت اگر شہریوں کو واقعی تحفظ اور درستگی کا موقع دیا گیا تو یہ ایک قابل ستائش قدم ہو گا۔ لیکن اگر یہ سکیم مخصوص برادریوں کے خلاف کارروائی یا نگرانی کا نیا آلہ بنی، تو یہ ریاستی اعتماد کو مزید کمزور کرنے کا سبب بن سکتی ہے۔