پاکستان میں قانونی طور پر رجسٹرڈ قرضہ ایپس کتنی مفید ہیں؟

اردو نیوز  |  Oct 17, 2025

پاکستان میں حالیہ عرصے کے دوران جہاں غیرقانونی لون ایپس کے خلاف مؤثر کارروائیاں کی گئی ہیں وہیں قانونی طور پر رجسٹرڈ ایپس بھی سامنے آئی ہیں جو شہریوں کو چھوٹے پیمانے پر قرضے فراہم کر رہی ہیں۔

ان ایپس پر خصوصاً مڈل اور لوئر مڈل کلاس طبقے نے اعتماد کا اظہار کیا ہے، اور لاکھوں شہری مختلف رجسٹرڈ ایپس کے ذریعے اپنی روزمرہ ضروریات کے لیے قرضے حاصل کر رہے ہیں۔

اسلام آباد کی رہائشی فروخ احمد نے بھی ایک رجسٹرڈ لون ایپ سے قرض حاصل کیا، جو ان کے لیے ایک مثبت تجربہ ثابت ہوا۔

انہوں نے اردو نیوز سے گفتگو میں بتایا کہ کچھ عرصہ پہلے تک وہ کافی کنفیوژ اور محتاط تھیں کیونکہ انہیں خدشہ تھا کہ کہیں کوئی آن لائن لون ایپ فراڈ نہ کر دے۔

تاہم جب انہیں 50 ہزار روپے کی فوری ضرورت پیش آئی اور وہ رقم کسی اور ذریعے سے دستیاب نہ ہو سکی، تو انہوں نے ایک رجسٹرڈ لون ایپ سے قرض لیا، جسے انہوں نے ایک ماہ کے اندر باقاعدگی سے واپس ادا کر دیا۔

فروخ احمد کے مطابق ایپ نے ان سے وہی منافع وصول کیا جو مقررہ شرح کے مطابق تھا، اور قرض کی ادائیگی کا سارا عمل شفاف اور آسان رہا۔

جب ان سے پوچھا گیا کہ کیا ایپ نے ان کا ذاتی ڈیٹا یا موبائل معلومات حاصل کیں، تو انہوں نے بتایا کہ انہیں اس بارے میں تفصیل معلوم نہیں، تاہم بظاہر ایپ نے ان سے کوئی غیر ضروری معلومات طلب نہیں کیں۔

ان کے مطابق جو شرائط قرض دیتے وقت بتائی گئی تھیں، ایپ نے ان پر مکمل عمل کیا، اور وہ بھی مقررہ مدت کے اندر قرض واپس کرنے میں کامیاب رہیں۔

رجسٹرڈ ایپس عموماً شہریوں کو دو ہزار سے 50 ہزار روپے تک کے قرضے فراہم کرتی ہیں (فوٹو: اے ایف پی)تاہم مالیاتی امور کے ماہرین شہریوں کو خبردار کرتے ہیں کہ وہ صرف انہی ڈیجیٹل لون ایپس سے قرض لیں جو سکیورٹیز اینڈ ایکسچینج کمیشن آف پاکستان (ایس ای سی پی) کے تحت رجسٹرڈ ہوں، تاکہ ان کے ذاتی ڈیٹا کی چوری، غلط استعمال یا بلیک میلنگ کے خطرات سے محفوظ رہا جا سکے۔

اب تک کتنی ایپس رجسٹرڈ ہیں؟

ایس ای سی پی کے مطابق درجنوں ڈیجیٹل ایپس کو رجسٹر کیا جا چکا ہے جنہوں نے کمیشن کے کمپلائنس ضوابط پر پورا اترنے کے بعد لائسنس حاصل کیا۔ ایس ای سی پی کی ویب سائٹ پر دستیاب اعداد و شمار کے مطابق، اب تک 14 نینو لینڈنگ ایپس کو باقاعدہ منظوری دی جا چکی ہے جو شہریوں کو قانونی طور پر چھوٹے قرضے فراہم کر سکتی ہیں۔ اس کے علاوہ نو دیگر مالیاتی ایپس کو بھی قرضہ جاتی معاملات کے لیے لائسنس جاری کیے گئے ہیں۔

ایس ای سی پی کے ضوابط کے مطابق کسی بھی ایپ کو رجسٹرڈ کرنے کے لیے کمپنی کو پہلے نان بینکنگ فنانشل کمپنی کے طور پر رجسٹریشن حاصل کرنا ہوتی ہے۔ اس کے بعد کمپنی اپنی ڈیجیٹل لینڈنگ ایپلیکیشن ایس ای سی پی کو منظوری کے لیے جمع کرواتی ہے، جس میں ڈیٹا پرائیویسی پالیسی، قرض کی شرائط، صارفین کے حقوق اور سکیورٹی میکنزم کی وضاحت شامل ہوتی ہے۔ منظوری کے بعد ہی ایپ کو گوگل پلے سٹور یا ایپل سٹور پر ’ایس ای سی پی سرٹیفائیڈ لون ایپ‘ کے طور پر جاری کیا جا سکتا ہے۔

شیخ عمر نسیم کے مطابق دائرہ کے بنیادی صارفین میں دیہاڑی دار مزدور اور چھوٹے دکاندار شامل ہیں (فوٹو: اے ایف پی)شہری کتنا قرضہ لے سکتے ہیں؟

رجسٹرڈ ایپس عموماً شہریوں کو دو ہزار سے 50 ہزار روپے تک کے قرضے فراہم کرتی ہیں، جن کی واپسی کی مدت ہر ایپ کی پالیسی کے مطابق مختلف ہوتی ہے۔ اگر کوئی ایپ صارفین کو ہراساں کرے یا ضوابط کی خلاف ورزی کرے تو ایس ای سی پی اس کے خلاف قانونی کارروائی کر کے اسے فوری طور پر سروس سے ہٹا سکتی ہے۔

اردو نیوز نے ان میں سے ایک رجسٹرڈ لون ایپ ’دائرہ‘ سے رابطہ کر کے یہ جاننے کی کوشش کی کہ حالیہ عرصے میں کتنے صارفین نے یہ ایپ استعمال کی اور کتنا قرض فراہم کیا گیا۔

اس ایپ کے سی ای او شیخ عمر نسیم نے اُردو نیوز کو بتایا کہ دائرہ کو پاکستانی فن ٹیک کمپنی، فن لیپ نے متعارف کرایا تھا، جو عالمی مالیاتی ٹیکنالوجی ادارے، فن ولوشن گروپ کا حصہ ہے۔

اُن کا کہنا تھا کہ دائرہ نے اکتوبر 2024 میں پاکستان میں اپنا قرض پروگرام شروع کیا اور صرف ایک سال کے دوران 10 لاکھ سے زائد صارفین رجسٹر کیے، جن میں سے دو لاکھ سے زائد صارفین کو مجموعی طور پر ایک ارب روپے سے زیادہ مالیت کے چھوٹے قرضے فراہم کیے گئے۔

ان کے مطابق دائرہ کے بنیادی صارفین میں دیہاڑی دار مزدور، چھوٹے دکاندار، غیر روایتی شعبوں سے وابستہ کارکنان، اور ایسے افراد شامل ہیں جو پہلی بار کسی مالیاتی ادارے سے قرض حاصل کر رہے تھے۔

ڈیٹا سکیورٹی کے حوالے سے شیخ عمرکا کہنا تھا کہ دائرہ ایپ ایس ای سی پی کے ضوابط پر مکمل عمل کرتی ہے، اور صارفین کا ذاتی ڈیٹا، بینکنگ معلومات یا موبائل گیلری کی تفصیلات اپنے پاس محفوظ نہیں رکھتی۔

ایس ای سی پی کے مطابق ڈیجیٹل نینو قرضوں کے لیے یومیہ منافع کی شرح 0.75 فیصد مقرر کی گئی ہے (فوٹو: اے پی پی)انہوں نے اپنی گفتگو جاری رکھتے ہوئے مزید بتایا کہ کمپنی صارفین کو فون کالز کے ذریعے قرض لینے پر مجبور نہیں کرتی بلکہ صرف آن لائن یا سوشل میڈیا مہمات کے ذریعے آگاہی فراہم کرتی ہے۔

قرض کی واپسی کے حوالے سے ان کا کہنا تھا کہ دائرہ کے صارفین میں ڈیفالٹرز کی شرح نہ ہونے کے برابر ہے، کیونکہ قرض دینے سے پہلے صارفین کی مالی حیثیت، لین دین کی صلاحیت اور کریڈٹ رویے کو اچھی طرح جانچا جاتا ہے۔

اُنہوں نے مزید بتایا کہ پاکستان ایشیائی خطے میں تیزی سے ترقی کرنے والے ڈیجیٹل مالیاتی نظاموں میں شامل ہے، جہاں خواتین کی شمولیت کے ساتھ ساتھ قرضوں کی طلب میں بھی اضافہ دیکھنے میں آ رہا ہے۔

’دائرہ نے کاروباری شفافیت، جدید ٹیکنالوجی اور ذمہ دارانہ پالیسیوں کے ذریعے چھوٹے قرضوں کے حصول کے تجربے کو بہتر بنایا ہے، اور اسی مقصد کے تحت کمپنی نے ایس ای سی پی سے باقاعدہ لائسنس حاصل کر لیا ہے۔‘

یہاں یہ جاننا بھی ضروری ہے کہ یہ لون ایپس شہریوں کو کتنی شرحِ منافع یا سود پر قرض فراہم کرتی ہیں۔ سکیورٹیز اینڈ ایکسچینج کمیشن آف پاکستان (ایس ای سی پی) کے سرکلر نمبر 12 آف 2024 کی شق 2(a)(vi) کے تحت واضح کیا گیا ہے کہ ڈیجیٹل نینو قرضوں کے لیے یومیہ منافع کی شرح 0.75 فیصد مقرر کی گئی ہے، جو کہ سالانہ بنیاد پر 274 فیصد منافع کی شرح (اے پی آر) بنتی ہے۔

یہ حد ایپس کی وائٹ لسٹنگ کے عمل کے دوران سختی سے نافذ کی جاتی ہے، اور کسی بھی ادارے کو ایس ای سی پی کی پیشگی منظوری کے بغیر اپنی ایپ کے یوزر انٹرفیس میں کوئی تبدیلی کرنے کی اجازت نہیں ہوتی۔

اردو نیوز نے اس حوالے سے مالیاتی امور کے ماہر ڈاکٹر اکرام الحق سے بھی رابطہ کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ پاکستان میں قرض دینے اور لینے کی سرگرمیاں ایک لائسنس یافتہ کاروبار ہیں جو مخصوص قانونی فریم ورک کے تحت چلتی ہیں۔

انہوں نے بتایا  کہ اس کے دو سے تین ماڈل رائج ہیں۔ ایک کے تحت سٹیٹ بینک آف پاکستان شیڈیول بینکوں کو قرض دینے کا لائسنس دیتا ہے، جبکہ دوسرا مائیکرو فنانس ماڈل ہے جس میں چھوٹے قرض فراہم کرنے والی ایپس ایس ای سی پی کے تحت رجسٹر ہوتی ہیں۔

ڈاکٹر اکرام الحق نے شہریوں کو مشورہ دیا کہ وہ قرض حاصل کرتے وقت صرف رجسٹرڈ اور قانونی ایپس ہی کا انتخاب کریں (فوٹو: ٹیک جُوس)ڈاکٹر اکرام الحق نے وضاحت کی کہ چونکہ اس کاروبار میں لوگوں کا ذاتی ڈیٹا، مالی معلومات اور قرض کی حساس تفصیلات شامل ہوتی ہیں، اس لیے بغیر لائسنس کے اس شعبے میں کام کرنا غیرقانونی ہے۔

اُن کے مطابق ایس ای سی پی کے ساتھ رجسٹرڈ لون ایپس کے لیے بھی سخت معیارات مقرر کیے گئے ہیں تاکہ صارفین کے تحفظ کو یقینی بنایا جا سکے۔

انہوں نے اس رجحان کو ایک مثبت پیش رفت قرار دیا کہ اب پاکستان میں چھوٹے پیمانے پر قرضے دینے والی نینو لون ایپس ایس ای سی پی کے رجسٹریشن اور نگرانی کے تحت کام کر رہی ہیں۔

تاہم انہوں نے شہریوں کو مشورہ دیا کہ وہ قرض حاصل کرتے وقت صرف رجسٹرڈ اور قانونی ایپس ہی کا انتخاب کریں تاکہ ڈیٹا چوری، بلیک میلنگ یا مالی فراڈ جیسے خطرات سے محفوظ رہیں۔

 

مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More