Getty Images’ایسی کون سی گیدڑ سنگھی ہے کہ جسے سونگھکر ٹرمپ ہمارے فیلڈ مارشل اور وزیرِ اعظم پر لٹو ہیں‘
عظیم المرتبت، پیامبرِ امن، لاثانی مؤرخ، مدبرِ اعظم، عالمی نجات دہندہ، بے نظیر نابغہِ روزگار، ظلِ الہی ڈونلڈ ٹرمپ مدظلہ کی خوشنودی کا حصول آسان نہیں۔ وہ روزانہ اِس قدر خودستائی کرتے ہیں کہ اُن کے لیول سے اُوپر جا کے انھیں شیشے میں اُتارنا ہر ایرے غیرے جادوگر کی اوقات نہیں۔
بلکہ یوں کہنا چاہیے کہ ٹرمپآبِ خوشامد سے گندھی چھال سے بٹا وہ رسہ ہیں کہ جس پر متوازن رہنے کی کوشش میں اچھے اچھوں کا پتہ اُچھل جاتا ہے۔ برادر ایلون مسک اور نریندر مودی تو ہمارے سامنے کی مثال ہیں۔ کل کہاں تھے اور کہاں پہنچ گئے۔
یوکرین کے صدر زیلنسکی بال بال بچے۔ نیٹو ممالک نے سر جُھکا کے جاں بخشی کروائی، قطر نے طیارہ دان کر کے حضورِ والا کا تبسم خریدا، دیگر خلیجیوں نے فرشی سلام کی کلا سے کام لیا۔
اسرائیل بالعموم اور نیتن یاہو بالخصوص امریکیوں کے حلق پر انگوٹھا رکھ کے اپنی ضدیں پوری کروانے کے عادی ہیں۔ مگر ٹرمپ کو وہ بھی بروقت بھانپ گئے۔ پہلے جہاں دھونس دھمکی اور روٹھنے منانے سے کام چل جاتا تھا وہاں نیتن یاہو کو ہر ملاقات میں حضورِ والا کو بار بار جتانا پڑا کہ خدا نے آپ کو یونہی نہیں پیدا کیا بلکہ اس پاپی سنسار کو یہود و نصاریٰ کے لیے امن کا گہوارہ بنانے کے خاص مقصد سے زمین پر بھیجا ہے۔
آپ ہی کو اب مشرقِ وسطیٰ کی ری ڈیزائیننگ اور ریورس انجینیئرنگ کرنا ہے۔
اسرائیل نے آپ جیسا محسنِ اعظم وائٹ ہاؤس میں گزرے اسی برس میں نہ دیکھا اور نہ ہیآئندہ دیکھے گا۔ اسرائیل کی اس موقع شناس محنت کا نتیجہ ہم سب کے آگے ہے اور اس کے مزید نتائجاور آگے آتے چلے جائیں گے۔
سب دنیا کے پاس اعلیٰ حضرت ٹرمپ کو نذرانہ پیش کرنے کے لیے کچھ نہ کچھ ہے۔ مگر ہمارے پاس کیا ہے؟ ہم تو خود قرضے، امداد اور دعاؤں پر گزارہ کر رہے ہیں۔
جتنی ہماری امریکہ سے تجارت ہے اس سے زیادہ تو وائٹ ہاؤس کا سالانہ بجٹ ہے۔ جو تھوڑی بہت معدنی دولت پلے ہے اس سے تو امریکہ کی ایک داڑھ بھی نہیں گیلی ہو سکتی۔ ’مکان کرائے پر خالی ہے‘ کا بورڈ بھی ایک کیل سے جھول رہا ہے۔ تو پھر ایسی کون سی گیدڑ سنگھی ہے کہ جسے سونگھکر ٹرمپ ہمارے فیلڈ مارشل اور وزیرِ اعظم پر لٹو ہیں۔
Getty Images’لبوں سے ایسے پھول جھڑے کہ اُن کی خوشبو سے بیجنگ میں بیٹھے ہمارے ہمالہ سے بلند، شہد سے میٹھے اور سمندر سے بھی گہرے چینی محسن معطر ہو گئے ہوں گے‘
بھلاکون سا غیر ملکی سپہ سالار ہے جس نے پچھلے ڈھائی سو برس میں صدرِ امریکہ کے ساتھ کبھی آزو بازوسرکاری لنچ کیا ہو؟
شرم الشیخکے روسٹرم پر کسی طاقتور انگشت بہ دنداں مغربی یا عرب شیخ کو ہاتھ پکڑ کے نہیں لایا گیا جس احترام کے ساتھ ہمارے عزت مآب شہباز شریف کو لایا گیا اور پھر جہاں پناہ نے نہ صرف فیلڈ مارشل کو یاد فرمایا بلکہ وزیرِ اعظم سےباقاعدہ فرمائش کی کہ آپ نے مجھ سے ذرا دیر پہلے کونے میں جو کچھ کہا تھا وہ باقی دنیا کو بھی بتا دیں۔اور پھر عزت مآب شہباز شریف نے بھی حقِ خطابت نچوڑ کے رکھ دیا۔
لبوں سے ایسے پھول جھڑے کہ اُن کی خوشبو سے بیجنگ میں بیٹھے ہمارے ہمالہ سے بلند، شہد سے میٹھے اور سمندر سے بھی گہرے چینی محسن معطر ہو گئے ہوں گے۔
صدیوں سے محوِ خواب حافظ شیرازی، المتنبی، فردوسی، فرزوق پسینے سے تربتر ہوں گے۔ زندگی بھر فلسفہِ خودی کے داعی اقبال نے بھی کروٹ بدل لی ہو گی۔
باقی دنیا کا تو اتنا نہیں معلوم البتہ انکساری، تابعداری، قناعت، اطاعت ہمارا زیور ہیں (ایمان، اتحاد، یقینِ محکم بھی ہیں)۔ جاتے کا مرثیہ اور آتے کا قصیدہ کوئی ہم سا کہہ کے دکھائے۔
ہماری آنکھیں کالا اور سفید خوب پہچانتی ہیں۔ البتہ گرے یا بھورا دیکھنے کی چشمی تربیت نہیں ہے۔ ہزاروں برس کی بادشاہت ہمارے خلیوں میں رچی بسی ہے۔ دربار نے ہمیشہ شاعری، گائیکی اور پہلوانی کی ہی پذیرائی کی۔ فسطائیت کی سلسلہ وار فضا میں خوشامد کا آکسیجن سلنڈر ہی ہمیں انفرادی و اجتماعی طور پر بچاتا آیا ہے۔
گورا رنگ جبلی کمزوری ہے۔ محبوبہ، بیوی، بہو اور حکمران اجلے ہوں تو بسم اللہ، گورے ہوں تو سبحان اللہ۔ قصیدگی اور دل بستگی کا لطف دوبالا ہو جاتا ہے۔
ہم نے کب کس بادشاہ کا حکم نہیں بجا لایا؟ بادشاہ چھوڑ کس چھوٹے سے چھوٹے چوہدری یا کوتوال کا من لطائف، نقالی اور جگت سے نہیں بہلایا؟
’خوشامد نہیں آرٹ‘’میثاقِ جمہوریت کی ڈسی ہوئی نسل‘’پسندیدہ‘ فیلڈ مارشل، شہباز شریف اور ٹرمپ: ’خدا آپ کو سلامت رکھے، دنیا کو آپ کی سب سے زیادہ ضرورت تھی‘پاکستان کے امریکہ کے ساتھ معدنیات کے شعبے میں تعاون اور افغان سرحد پر جھڑپوں کے بارے میں چین نے کیا کہا؟
سراج الدولہ، ٹیپو سلطان، دلا بھٹی، ہوشو شیدی، بھگت سنگھ وغیرہ کو ہم اپنی سنہری تاریخ کی اڑچنیں سمجھ کے نظراندازکرتے ہوئے اگر 1857 سے ہی شروع کریں اور پہلی و دوسری عالمی جنگ میں انجام دی جانے والی خدمات کو بھی گن لیں تو تابعداری و وفاداری کی عالمی تاریخ ہمارے بغیر کیسے مکمل ہو گی۔
انہی خدمات کے عوض ہمیں جو حکمران اشرافیہ اور بالائی طبقے آزادی کے نام پر انعام ہوئے۔ آج ہم جو بھی کچھ ہیں انہی کی تو عنایت ہے۔
ہمیں جمہوری اقدار و خوداری گرچہ بہت عزیز ہیں۔ ہم نے بار بار ان کے لیے قربانیاں بھی دی ہیں۔ مگر کون سی ایسی مذہبی یا سیاسی جماعت ہے جس میں نمایاں ہونے کے لیے خوشامد و تابعداری کی سیڑھی استعمال نہیں ہوتی۔
کون سا مدبر ہے جوللو چپو کی کرنسی خرچ کیے بغیر کسی بھی خاکی یا نوری انتظام میں پنپ سکے۔ چالاک لومڑی کا پیٹ بھی اسی کوے کی خوشامد سے بھرتا ہے جس کی چونچ میں انگور ہو۔
اصول و راستی کا جھنڈا کتنوں نے بلند کیا اور جن چند سرپھروں نے جی حضور ایکسپریس کی چلتی بس میں سوار ہونے کے بجائے اپنی ڈیڑھ اینٹ الگ کرنے کی کوشش کی، کیا وہ باغی، غدار اور نمک حرام نہیں کہلوائے، سولی پر نہیں چڑھے، جلاوطن نہیں ہوئے، دبک کے بیٹھ نہیں گئے یا بٹھا نہیں دیے گئے؟
ہوتی ہو گی تابعداری و خوشامد کسی دور میں سیاسی و تزویراتی مجبوری یا عیب۔ اب تو یہ جینیاتی وصف بن چکا ہے۔ٹرمپ نے بس اتنا کیا ہے کہ اس خوبی کو صنعتی نرگسیت کا درجہ دے دیا ہے۔
معلوم نہیں ہے یہ خوشامد کہ حقیقت
کہہ دے کوئی اُلو کو اگر رات کا شہباز
( اقبال )
جی حضوری ہی مقامی، علاقائی بین الاقوامی سیاست کا چلن ہے۔ یا بخشیشں دینے والے بنو یا بخشو بنو۔
کسی کو یہ انتظام پسند نہیں تو اپنے کمرے کی دس بائی بارہ مملکت میں بیٹھ کے ماؤس اور کی بورڈکے ذریعے دنیا تبدیل کرتا پھرے۔
جو کہ کرتے ہیں خوشامد وہ بڑے ہیں انساں
جو نہیں کرتے وہ رہتے ہیں ہمیشہ حیراں
ہاتھ آتے ہیں خوشامد سے ہزاروں ساماں
جس نے یہ بات نکالی ہے میں اس کے قرباں
( نظیر اکبر آبادی )
بے لباس بادشاہ طاقتور ہو تو پھر پوشاک کی تعریف لازم ہے تاوقتیکہ شاہی جلوس آگے نہ بڑھ جائے۔
’پسندیدہ‘ فیلڈ مارشل، شہباز شریف اور ٹرمپ: ’خدا آپ کو سلامت رکھے، دنیا کو آپ کی سب سے زیادہ ضرورت تھی‘’خوشامد نہیں آرٹ‘پاکستان کے امریکہ کے ساتھ معدنیات کے شعبے میں تعاون اور افغان سرحد پر جھڑپوں کے بارے میں چین نے کیا کہا؟’میثاقِ جمہوریت کی ڈسی ہوئی نسل‘’خواجہ آصف کو بخش دیں‘شہباز شریف اور عاصم منیر سے ملاقات کے دوران ٹرمپ کے کوٹ پر لگی ’لڑاکا طیارے کی پن‘ سے جڑے سوال اور جوابٹرمپ کی چند اسلامی ممالک کے سربراہان مملکت سے ملاقات میں شہباز شریف کی شرکت کیوں اہمیت کی حامل ہے؟