پاکستان افغانستان جنگ: سات پاکستانیوں کی لاشیں واپس،’اصغر مزدوری کرنے سرحد پار گیا تھا‘

اردو نیوز  |  Oct 17, 2025

عالمی امدادی تنظیم ’ہلال احمر‘ نے کہا ہے کہ افغانستان سے سات پاکستانی شہریوں کی لاشیں بلوچستان کے سرحدی شہر چمن منتقل کر دی گئی ہیں جن میں دو سکیورٹی اہلکار اور پانچ عام شہریوں کی ہیں۔

یہ اموات منگل اور بدھ کی درمیانی شب اور بدھ کی صبح چمن کے قریب پاک افغان سرحد پر ہونے والی جھڑپوں کے دوران ہوئیں جن میں دونوں جانب سے بھاری اسلحے کا استعمال کیا گیا۔

دونوں ممالک کے درمیان 48گھنٹوں کے لیے (جمعے کی شام چھ بجے تک) جنگ بندی نافذ ہے تاہم چمن اور دوسرے سرحدی علاقوں کے رہائشی بدستور خوف، پریشانی اور غیریقینی کی کیفیت میں ہیں۔

بلوچستان میں ہلال احمر کے سربراہ عبدالولی خان غبیزئی نے اردو نیوز کو بتایا کہ ’افغان طالبان نے سرحد کے قریب لاؤڈ سپیکر پر اعلان کیا کہ وہ پاکستانی شہریوں کی لاشیں ہلال احمر کے حوالے کریں گے جس کے بعد پاکستانی حکام نے تنظیم سے رابطہ کیا۔‘

سول ہسپتال چمن کے میڈیکل سپرنٹنڈنٹ ڈاکٹر محمد اویس نے تصدیق کی کہ پانچ شہریوں کی لاشیں ہسپتال لائی گئیں۔ ان کے مطابق چار افراد مارٹر گولہ لگنے سے جبکہ ایک شخص کو سر پر گولی لگنے کے نتیجے میں جان سے ہاتھ دھونا پڑا۔

ڈاکٹر اویس کے مطابق چار لاشوں کی شناخت کر لی گئی ہے جو چمن کے مقامی رہائشی تھے اور ان کی میتیں ضابطے کی کارروائی کے بعد ورثا کے حوالے کر دی گئی ہیں جبکہ ایک لاش کی شناخت اب تک نہیں ہوسکی۔

سکیورٹی ذرائع کے مطابق بابِ دوستی کے قریب جھڑپ کے دوران جان سے جانے والے اہلکاروں کی شناخت لانس نائیک سلیمان اور سپاہی صابر کے نام سے ہوئی۔ دونوں کی میتیں ان کے آبائی علاقوں کو روانہ کر دی گئیں۔

ہلاک ہونے والے عام شہریوں میں سید علی ادوزئی، محمد اصغر عشے زئی، روزی خان صالح زئی اور نصیب اللہ صالح زئی شامل تھے جن کا تعلق چمن کے علاقوں ٹھیکیدار گلی بوغرہ کاریز اور ہندو سوز چوک سے تھا۔ چاروں کی تدفین ان کے آبائی علاقوں میں کر دی گئی جہاں فضا سوگوار رہی۔

سرحد جھڑپوں کے بعد افغانستان کے علاقے میں مقامی لوگ ملبہ صاف کر رہے ہیں۔ فوٹو: اے ایف پیمحمد اصغر کے چچا شیر علی نے بتایا کہ ’میرے بھتیجے کی عمر صرف 20 سال تھی۔ وہ محنت مزدوری سرحد پار گیا تھا۔‘

ان کے بقول اصغر چمن سرحد کے بالکل قریب افغان شہر سپین بولدک کی ’ویش منڈی‘ میں واقع کار شوروم پر کام کرتا تھا۔ منگل اور بدھ کی درمیانی رات وہ’ویش‘ منڈی میں موجود تھا جب گولہ باری میں کی زد آ گیا۔‘

شیر علی نے کہا کہ ’یہ جنگ عام لوگوں کی زندگیاں اور خوشیاں چھین رہی ہے۔ یہ جنگ بند اور دوبارہ نہیں ہونی چاہیے۔‘

چمن میں سرحد پر کام کرنےوالے مزدوروں کی تنظیم ’لغڑی اتحاد‘ کے رہنما صادق اچکزئی کے مطابق سرحد کے قریب افغان علاقے سپین بولدک اور ویش مندی میں بڑی تعداد میں پاکستانی شہری اور مزدور کام کرتے ہیں۔ جب گولہ باری ہوئی تو یہ پاکستانی مزدور بھی زد میں آ گئے۔،

انہوں نے بتایا کہ ’مزدور سب سے زیادہ خطرے میں ہوتے ہیں کیونکہ ان کے پاس پناہ لینے کی جگہ بھی نہیں ہوتی۔‘

ان کا دعویٰ ہے کہ افغان حدود میں گولہ باری سے ہلاک ہونے والے پاکستانی شہریوں کی تعداد دس سے زیادہ ہے۔ ان میں زیادہ تر وہ مزدور تھے جو سرحد پار سے گھوڑوں پر سامان لاتے تھے اور سرحد بند ہونے کے بعد افغانستان کی حدود میں پھنس گئے تھے۔

دونوں ملکوں کے درمیان سرحد کے قریب آبادی نقل مکانی کر رہی ہے۔ فوٹو: اے ایف پیکوئٹہ سے تقریباً 120 کلومیٹر دور چمن سے ملحقہ سرحد پر سنیچر اور اتوار کی درمیانی رات اور پھر منگل و بدھ کی شب شدید جھڑپیں ہوئیں تھیں جس کے جواب میں پاکستان نے افغان شہر سپین بولدک کے علاوہ قندھار اور کابل میں فضائی کارروائیاں بھی کیں جن میں بھاری نقصان کی اطلاعات سامنے آئیں۔

پاکستانی فوج کے شعبہ تعلقات عامہ (آئی ایس پی آر) بدھ کو اپنے بیان میں کہا کہ افغان طالبان نے چمن سرحد پر چار مقامات پر حملہ کیا جسے پاکستانی فورسز نے ناکام بنایا۔آئی ایس پی آر نے الزام لگایا کہ یہ حملے منقسم آبادی کی حفاظت کی پرواہ کیے بغیر کیے گئے تاہم جوابی کارروائی میں 15 سے 20 طالبان مارے گئے۔

دوسری جانب افغان میڈیا کے مطابق طالبان حکام نے دعویٰ کیا کہ جھڑپوں میں 40 عام شہری ہلاک اور 170 سے زائد زخمی ہوئے۔

افغانستان میں اقوام متحدہ کے امدادی مشن (یوناما) نے ایک بیان میں کہا ہے کہ لڑائی میں بڑی تعداد میں عام شہری نشانہ بنے۔

بیان کے مطابق سپین بولدک میں 17 شہری ہلاک اور 346 زخمی ہوئے۔

یوناما نے دونوں فریقوں سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ عام شہریوں کے تحفظ کے لیے دشمنی کا مستقل خاتمہ کریں اور عالمی اصولوں کی پاسداری کریں۔

افغان کے سرحدی قصبے سپین بولدک کے رہائشی گھروں کے ملبے سے سامان نکال رہے ہیں۔ فوٹو: اے ایف پیبدھ کو دونوں ممالک نے 48 گھنٹوں کے لیے جنگ بندی پر اتفاق کیا۔ پاکستان کے وزیر دفاع خواجہ آصف نے تاہم خدشہ ظاہر کیا کہ یہ جنگ بندی زیادہ عرصے تک برقرار رہنا مشکل ہے۔ ادھر جمعرات کو فرنٹیئر کور کے اعلیٰ افسران نے چمن سرحد کا دورہ کیا اور آپریشنل تیاریوں کا جائزہ لیا۔

جھڑپوں کے بعد مقامی انتظامیہ نے بدھ کو سرحد سے متصل ایک کلومیٹر کے علاقے کو احتیاطاً خالی کرانے کا حکم دیا جس کے بعد لوگوں نے نقل مکانی شروع کی۔ اگرچہ جنگ بندی کے بعد یہ سلسلہ رک گیا ہے تاہم کئی خاندان اب بھی اپنے بچوں اور خواتین کو محفوظ علاقوں میں منتقل کر رہے ہیں۔

چمن کے علاقے گلدارہ باغچہ کے رہائشی مولوی عبدالرحیم نے بتایاکہ ’ہمارا گھر سرحد سے چند سو قدم کے فاصلے پر ہے۔ جب بدھ کی رات گولہ باری شروع ہوئی دھماکوں کی کی شدت سے سب گھر والے خوف کا شکار ہو گئے، بچے رونے لگ گئے۔

 ان کے بقول ’میری اہلیہ شدید بیمار ہیں اور بستر پر پڑی ہیں۔ جب گولہ باری شروع ہوئی تو ہمیں لگا کہ شاید اب ہم زندہ نہیں بچیں گے۔ میں نے رات بھر بچوں کو سنبھالا صبح ہوئی تو زرنج (موٹر سائیکل رکشہ) منگوا کر بیوی بچوں کو رشتہ داروں کے گھر منتقل کیا۔ اب دو دن سے وہیں ہیں۔‘

عبدالرحیم کا کہنا تھا کہ ’ہم غریب لوگ ہیں، علاج کے پیسے بھی نہیں اور اب جنگ نے حالات اور خراب کر دیے ہیں۔ اگر دوبارہ جھڑپیں ہوئیں تو ہم کہاں جائیں گے؟‘

چمن اور سپین بولدک سے ملحقہ افغانستان اور پاکستان کی سرحدی پٹی باقی حصوں سے اس لیے مختلف ہے کہ یہاں سرحد گنجان آبادی کے درمیان میں سے گزرتی ہے۔ دونوں جانب پشتونوں کے اچکزئی، نورزئی اور دیگر قبائل آباد ہیں جن کے درمیان صدیوں پرانے خاندانی، قبائلی اور ثقافتی روابط ہیں۔

سرحد کی بندش کے باعث باہمی تجارت اور افغان ٹرانزٹ ٹریڈ بھی مکمل طور پر بند ہے۔ فوٹو: اے ایف پیجھڑپوں کے باعث اتوار کی صبح سے سرحد بند ہے اور ہر قسم کی تجارت اور آمدورفت معطل ہے۔ سرحد کی بندش کی وجہ سے دونوں جانب ہزاروں افراد پھنس چکے ہیں۔

چمن پولیس کے ایک عہدے دار کے مطابق سرحد بند ہونے سے تقریباً چار سے پانچ ہزار افغان شہری چمن میں پھنس گئے ہیں جن میں خواتین اور بچے بھی شامل ہیں۔ انتظامیہ نے ایک ہزار سے زائد افراد کو ریڈ زون سے نکال کر محفوظ علاقے ’ماسٹر پلان ‘منتقل کر دیا۔ مقامی سماجی کارکن سمیع خان کے مطابق پھنسے ہوئے افغان باشندے کھانے پینے اور بنیادی سہولتوں کی کمی کی شکایات کر رہے ہیں۔

سرحد کی بندش کے باعث باہمی تجارت اور افغان ٹرانزٹ ٹریڈ بھی مکمل طور پر بند ہے۔ چمن چیمبر آف کامرس کے رکن عبدالوارث کے مطابق پانچ روزہ بندش کے باعث دونوں جانب کے تاجروں کو کروڑوں روپے کا نقصان ہو چکا ہے، سینکڑوں گاڑیاں سامان سمیت پھنسی ہوئی ہیں۔ اگر سرحد طویل عرصے تک بند رہی تو اس کے اثرات معیشت اور عوام دونوں پر پڑیں گے۔

 

مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More