پاک فضائیہ کو مشقوں کیلئے دعوت نامے۔۔ کون سے ممالک میں نصاب کے طور پر پڑھایا جائے گا؟ پی اے ایف کے دنیا بھر میں چرچے

ہماری ویب  |  May 16, 2025

6 اور 7 مئی کی درمیانی رات تاریخ نے ایک نیا باب رقم کیا۔ جنوبی ایشیا کی فضا میں ایسی جھڑپ ہوئی جس نے صرف دو ہمسایہ ایٹمی طاقتوں کے درمیان کشیدگی کو اجاگر نہیں کیا، بلکہ عالمی سطح پر پاکستان کی فضائی صلاحیتوں کو نئی آنکھ سے دیکھا جانے لگا۔ بھارت کے ساتھ ہونے والی اس فضائی مڈبھیڑ میں پاک فضائیہ نے نہ صرف مؤثر جواب دیا بلکہ جنگی مہارت، جدید ٹیکنالوجی کے مؤثر استعمال اور حکمتِ عملی کے منفرد امتزاج سے دنیا کو حیران کر دیا۔ اس آپریشن میں بھارت کے چھ جنگی طیارے مار گرائے گئے جن میں جدید رافیل بھی شامل تھا۔ جبکہ پاکستان کی جانب سے صرف 42 طیارے فضا میں تھے، بھارت نے 72 جنگی جہاز بھیجے تھے۔ تاہم عددی برتری کے باوجود بھارت کو تکنیکی اور حکمتِ عملی کے میدان میں پسپائی کا سامنا کرنا پڑا۔ اس فضائی جھڑپ میں چین سے حاصل کردہ J-10C طیارے نے کلیدی کردار ادا کیا۔ پہلی مرتبہ کسی بڑے فضائی معرکے میں استعمال ہونے والے اس طیارے کی کارکردگی نے عالمی مبصرین کو چونکا دیا۔ جدید ریڈار، طویل فاصلے تک مار کرنے والے میزائل اور ڈیجیٹل وار فیئر ٹیکنالوجی کے امتزاج نے ایک نیا معیار متعین کیا۔ دنیا کی نظریں اب پاک فضائیہ پر ہیں۔ اسلام آباد میں مختلف ممالک کے سفارت خانے متحرک ہو چکے ہیں۔ کئی نے مشترکہ مشقوں اور دفاعی تعاون کی تجاویز پر تبادلہ خیال کی خواہش ظاہر کی ہے۔ سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات پہلے ہی پاکستان کو آئندہ بین الاقوامی مشقوں میں شرکت کی دعوت دے چکے ہیں۔ چین میں بھی اس پیش رفت کو بڑی توجہ دی جا رہی ہے۔ تجزیہ کار اس بات پر روشنی ڈال رہے ہیں کہ پاکستان نے چینی ٹیکنالوجی اور اپنی مقامی حکمتِ عملی کو کس مہارت سے یکجا کر کے دشمن کو پچھاڑا۔ JF-17 تھنڈر جیسے منصوبوں میں اس شراکت داری کو مزید وسعت دیے جانے کی توقع ہے، جس کا بڑا حصہ پاکستان میں تیار ہوتا ہے۔ عالمی ذرائع ابلاغ نے اس فضائی جنگ کو غیر معمولی قرار دیا ہے۔ سی این این نے اسے جدید تاریخ کی سب سے بڑی فضائی جھڑپ قرار دیا، جب کہ رائٹرز کا کہنا تھا کہ مستقبل میں امریکا اور چین کی فضائی اکیڈمیز میں یہ ایک قابلِ مطالعہ کیس ہوگا۔ ڈیلی ٹیلی گراف نے اگرچہ بھارتی پائلٹس کی ہمت کی تعریف کی، لیکن ساتھ ہی یہ تسلیم کیا کہ بھارت تکنیکی میدان میں پیچھے رہ گیا۔

مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More