’سستے گھر کا خواب‘: بجٹ میں تعمیراتی شعبے کو مجوزہ ٹیکس ریلیف ملنے سے متوسط طبقہ اپنا گھر بنا پائے گا؟

بی بی سی اردو  |  Jun 11, 2025

Getty Images

پاکستان کی وفاقی حکومت کی جانب سے ملک کے نئے مالی سال کے بجٹ میں تعمیراتی شعبے کی ترقی اور ملک میں کم لاگت کے گھروں کی تعمیر کے لیے ٹیکس میں چھوٹ اور مراعات سے متعلق تجاویز دی گئی ہیں۔

وفاقی وزیر خزانہ نے اپنی بجٹ تقریر میں کہا ہے کہ تعمیراتی شعبہ پاکستانی معیشت کا اہم حصہ ہے کیونکہ ملک میں بڑے پیمانے کی صنعتی پیداوار تعمیراتی شعبے پر منحصر ہے۔ انھوں نے کہا کہ اس شعبے پر بھاری ٹیکسوں کی وجہ سے منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں۔

وفاقی وزیر خزانہ نے ملک میں تعمیراتی شعبے کی ترقی کے لیے اس شعبے پر عائد مختلف ٹیکسوں میں کمی اور چھوٹ کا اعلان کیا تو اس کے ساتھ ملک میں گھروں کی کمی کو پورا کرنے کے لیے چھوٹے گھروں کی تعمیر پر مراعات کا بھی اعلان کیا۔

انھوں نے امید کا اظہار کیا کہ ان اقدامات سے تعمیراتی شعبے میں ترقی ہو گی اور یہ شعبہ معیشت کی ترقی میں اہم کردار ادا کرے گا۔

یہاں سوال یہ ہے کہ حکومت کی جانب سے تعمیراتی شعبے کے لیے بجٹ میں اٹھائے گئے اقدامات کے بعد اس شعبے میں ترقی اور عام افراد کے لیے سستے گھروں کی فراہمی ممکن ہو پائے گی؟

بی بی سی نے شعبہ تعمیرات کے ماہرین اور اس سے وابستہ افراد سے بات کر کے ملک میں سستے گھروں کی فراہمی کے امکان کے بارے میں بات کی۔

Getty Imagesبجٹ میں تعمیراتی شعبے کے لیے کیا ٹیکس ریلیف دیا گیا؟

نئے مالی سال کے بجٹ میں وزیر خزانہ نے اپنی تقریر میں بتایا کہ ’بھاری ٹیکسوں کی وجہ سے تعمیراتی شعبے کی اقتصادی سرگرمیوں پر منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں اس لیے جائیداد کی خریداری پر ودہولڈنگ ٹیکس کی شرح چار فیصد سے کم کر کے ڈھائی فیصد، ساڑھے تین فیصد سے کم کر کے دو فیصد اور تین فیصد سے کم کر کے ڈیڑھ فیصد کرنے کی تجویز ہے۔‘

انھوں نے کہا کہ ’تعمیرات کے شعبے کے بوجھ کو مزید کم کرنے کے لیے کمرشل جائیدادوں، پلاٹس اور گھروں کی منتقلی پر گذشتہ سال عائد کی جانے والی سات فیصد تک کی فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی ختم کرنے کی بھی تجویز ہے۔‘

ان کا مزید کہنا تھا کہ ’اس کے ساتھ ساتھ کم لاگت کے گھروں کی تعمیر کے لیے قرض فراہم کرنے اور گھروں پر قرض حاصل کرنے کی حوصلہ افزائی کرنے کے لیے دس مرلے تک کے گھروں اور دو ہزار سکوائر فٹ تک کے فلیٹس پر ٹیکس کریڈٹ متعارف کروایا جا رہا ہے۔

’حکومت گھروں پر قرض حاصل کرنے کے رجحان کو فروغ دینے کے لیے ایک جامع نظام متعارف کروائے گی۔‘

وزیر خزانہ نے کہا کہ اسلام آباد کی حدود میں جائیداد کی خریداری پر سٹامپ پیپر ڈیوٹی چار فیصد سے کم کر کے ایک فیصد کرنے کی تجویز دی گئی ہے۔

Getty Imagesٹیکس کی شرح میں کمی اور چھوٹ سے تعمیراتی شعبے پر کیا اثرات مرتب ہوں گے؟

نئے وفاقی بجٹ میں تعمیراتی شعبے پر ٹیکس میں کمی اور چھوٹ کے بارے میں ایسوسی ایشن آف بلڈرز اینڈ ڈیوپلرز کے سابق چیئرمین عارف جیوا نے بی بی سی کو بتایا کہ ’حکومت کی جانب سے گھروں اور جائیدادوں کی خرید و فروخت پر فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی گذشتہ سال لگائی گئی تھی جس کا مطلب ہے کہ پہلے ایک کروڑ کے پلاٹ اور گھر کی خرید و فروخت پر سات فیصد ٹیکس زیادہ ادا کرنا پڑتا تھا، اب یہ سات فیصد اضافی لاگت نہیں رہے گی۔‘

انھوں نے کہا کہ اسی طرح ود ہولڈنگ ٹیکس میں کمی کے اقدام سے بھی سیکٹر کو مدد ملے گی جو چند سال سے مشکلات کا شکار تھا۔ انھوں نے کہا کہ ’ٹیکس میں کمی اور خاتمے سے یقینی طور پر ریئل اسٹیٹ کے شعبے میں خرید و فروخت کو فروغ ملے گا۔‘

تاہم ان کا کہنا ہے کہ ان اقدامات کا فوری اثر نظر نہیں آئے گا بلکہ اس کے اثرات آنے میں کچھ وقت لگے گا۔

ریئل اسٹیٹ شعبے کے ماہر احسن ملک نے اس پیشرفت کے بارے میں بات کرتے ہوئے کہا کہ ’فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی غلط لگائی گئی تھی اور اس کے خاتمے کے بارے میں تین مہینے پہلے ہی طے ہو گیا تھا کیونکہ یہ کورٹ میں چیلنج ہو گئی تھی۔‘

ان کا کہنا تھا کہ ’یوں تو اس بجٹ میں کہا جا رہا ہے کہ تعمیراتی شعبے کے لیے مراعات کا اعلان کیا گیا تاہم اس میں سب سے زیادہ تشویشناک پہلو یہ ہے کہ فائلر کو کسی جائیداد کی خریداری کے لیے ٹیکس ادارے میں بتانا ہو گا کہ یہ پیسہ کہاں سے لیا اور وہ اس کی منظوری دے گا تو پھر وہ خرید پائے گا۔‘

احسن ملک نے کہا کہ ’اس سے نہ صرف ہراساں کرنے کا بلکہ ’منی میکنگ‘ کا ایک نیا دروازہ بھی کھل جائے گا۔ پہلے ہی بیرون ملک پاکستانیوں کو ٹیکس کمشنروں سے جائیداد کے حوالے سے منظوری لینی پڑتی ہے اور وہ اس حوالے سے مشکلات کا شکار دکھائی دیتے ہیں۔ اب یہی کام مقامی افراد کے ساتھ ہو گا جو جائیداد کی خرید و فروخت میں مشکلات پیدا کرے گا۔‘  

Getty Imagesکیا حکومتی اقدامات کے بعد متوسط طبقہ بھی مکان خرید پائے گا؟

بجٹ میں تعمیراتی شعبے کے لیے مراعات کا اعلان کرنے کے ساتھ کم لاگت کے گھروں کی تعمیر کے لیے قرض فراہم کرنے اور گھروں پر قرض حاصل کرنے کی حوصلہ افزائی کرنے کے لیے دس مرلے تک کے گھروں اور دو ہزار سکوائر فٹ تک کے فلیٹس پر ٹیکس کریڈٹ متعارف کروایا جا رہا ہے۔

پاکستان میں ان بجٹ اقدامات سے متوسط طبقے کے لیے اپنے گھر کی تعمیر اور خریداری میں کتنی سہولت ہو گی؟ اس بارے میں تعمیراتی شعبے کے بلڈر اور ڈیولپر حنیف گوہر کا کہنا ہے کہ ’گھر کی خریداری کے لیے سب سے پہلے اتنی آمدنی کا ہونا ضروری ہے کہ ایک متوسط طبقے کا فرد ضروریات پوری کرنے کے بعد اتنا بچا سکتا ہے کہ وہ گھر خریدے یا تعمیر کرے۔‘

انھوں نے کہا کہ ’پاکستان میں ایک چھوٹے سے چھوٹے گھر کی لاگت بھی پچاس لاکھ روپے سے کم نہیں۔‘

اُنھوں نے کہا ٹیکس میں کمی اور ایکسائز کے خاتمے سے چند لاکھ روپے کہ کمی ہو گی جو ایک کروڑ کے ایک چھوٹے سے گھر پر بچ سکتے ہیں تاہم متوسط طبقے کے پاس کیا یہ ایک کروڑ ہے کہ وہ کسی گھر کی خریداری کے لیے یہ چند لاکھ بچا پائے؟‘

ان کا کہنا ہے کہ ’جب لوگوں میں مالی سکت ہو گی تو تب ہی وہ گھر خرید پائیں گے جبکہ اس وقت لوگ مشکلات کا شکار ہیں۔‘

انھوں نے کہا کہ ’ٹیکس میں ریلیف ہو یا قرض لے کر گھر تعمیر کرنے کے لیے ٹیکس کریڈٹ، یہ سب متوسط طبقے کی قوت خرید سے منسلک ہے۔‘

ان کا مزید کہنا تھا کہ ’قوت خرید سب سے بڑا مسئلہ ہے کیونکہ لاگت کے بڑھنے سے قیمتیں بھی بڑھی ہیں جو عام افراد کی پہنچ سے باہر ہو گئی ہیں۔‘

مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More