’پیپلز پارٹی پر انحصار کم اور آئینی ترامیم میں آسانی‘: مخصوص نشستوں کے فیصلے کے بعد شہباز شریف حکومت کے ہاتھ کتنے مضبوط ہوئے ہیں؟

بی بی سی اردو  |  Jun 30, 2025

Getty Images

گذشتہ برس ہونے والے عام انتخابات میں تحریک انصاف بغیر بلے کے میدان میں اتری تو بڑی تعداد میں نشستیں حاصل کرنے میں کامیاب ہوئی۔۔۔ مگر اس بلے کے بغیر جو معاملہ لٹک گیا وہ تھا مخصوص نشستوں کے حصول کا۔

پی ٹی آئی کے علاوہ اب دیگر جماعتوں نے بھی مخصوص نشستوں پر مخصوص نظریں جما لیں۔

الیکشن کمیشن، پشاور ہائیکورٹ، سپریم کورٹ اور بالآخر آئینی بینچ نے فیصلہ سنایا ہے۔ کبھی تحریک انصاف کے خلاف تو کبھی عمران خان کے حق میں۔۔۔

مگر گذشتہ ہفتے حتمی نتیجہ یہ نکلا کہ قومی اسمبلی سمیت ملک کی تین صوبائی اسمبلیوں کی 77 مخصوص نشتسیں تحریک انصاف کی بجائے دیگر جماعتوں کو دی جائیں گی۔

یوں تحریک انصاف کو مخصوص نشستوں سے محرومی نے حکمراں اتحاد کے ہاتھ مزید مضبوط کر دیے ہیں۔

اس 12 رکنی بینچ نے اپنے مختصر فیصلے میں کہا ہے کہ مخصوص نشستیں نہ پاکستان تحریک انصاف کو مل سکتی ہیں اور نہ ہی سنی اتحاد کونسل کو۔

جمعے کو جسٹس امین الدین کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے 12 رکنی بینچ نے سات پانچ کی اکثریت سے مخصوص نشستوں سے متعلق فیصلے کے خلاف نظرثانی کی اپیلوں کو منظور کرتے ہوئے سپریم کورٹ کے 12 جولائی 2024 کے اس اکثریتی فیصلے کو کالعدم قرار دے دیا جس میں کہا گیا تھا کہ فروری 2024 میں ہونے والے انتخابات کے نتیجے میں مخصوص نشستیں پاکستان تحریک انصاف کو دی جائیں۔

Getty Imagesفیصلے کے بعد اسمبلیوں میں پارٹی پوزیشن کیا ہے؟

اس فیصلے سے اب قومی اسمبلی کی 22 اور بلوچستان کے علاوہ باقی تین صوبائیوں اسمبلیوں کی 55 مخصوص نشستیں حکمران اتحاد کو مل گئی ہیں۔

قومی اسمبلی کی 22 نشستوں میں سے 14 حکمران جماعت مسلم لیگ ن کے حصے میں آئی ہیں۔ اب پارلیمان کے ایوان زیریں میں ن لیگ کی 110 نشستوں سے تعداد بڑھ کر 124 ہو گئی ہے۔

پاکستان پیپلز پارٹی کے حصے میں پانچ نشستیں آئی ہیں اور اس جماعت کی مجموعی نشستیں 70 سے بڑھ کر 75 ہو گئی ہیں۔ مولانا فضل الرحمان کی جے یو آئی کی نشستیں آٹھ سے بڑھ کر 11 ہو گئی ہیں۔

دو تہائی اکثریت کے لیے 224 نشستیں درکار ہوتی ہیں جبکہ اس فیصلے کے بعد 214 نشتوں والے حکمران اتحاد کے پاس دو تہائی اکثریت ملی جائے گی۔

خیبرپختونخوا اسمبلی میں خواتین کی 21 اور اقلیتوں کی چار مخصوص نشستیں بحال ہوئی ہیں، جس کے بعد جے یو آئی کو دس، ن لیگ کو سات، پیپلز پارٹی کو سات اور اے این پی کو ایک مخصوص نشست ملے گی۔

پنجاب اسمبلی میں خواتین کی 24 مخصوص نشستیں اور اقلیتوں کی تین نشستیں بحال ہو گئیں۔ ان میں ن لیگ کو 23، پیپلز پارٹی کو دو جبکہ پاکستان مسلم لیگ کو ایک نشست ملے گی۔

سندھ اسمبلی میں خواتین کی دو اور اقلیتوں کی ایک نشست بحال ہوئی ہے، جس میں پیپلز پارٹی کو دو اور ایم کیو ایم کو ایک مخصوص نشست ملے گی۔

سپریم کورٹ کا یہ فیصلہ پاکستان تحریک انصاف کو مخصوص نشستیں دینے کے خلاف نظرثانی درخواستوں کے بعد آیا ہے۔

Getty Images

پی ٹی آئی کے آزاد حیثیت میں منتخب ہونے والے ارکان نے سنی اتحاد کونسل کے پلیٹ فارم پر مخصوص نشستوں کے لیے درخواست دی تھی، تاہم الیکشن کمیشن نے اسے مسترد کرتے ہوئے کہا کہ سنی اتحاد کونسل کوئی پارلیمانی جماعت نہیں اور اسے مخصوص نشستوں کا حق حاصل نہیں۔

پشاور ہائی کورٹ نے بھی اس فیصلے کو برقرار رکھا تاہم 12 جولائی 2024 کو سپریم کورٹ کے 13 رکنی بینچ کے آٹھ ججز نے پی ٹی آئی کو مخصوص نشستیں دینے کا حکم دیا تھا، جس پر مسلم لیگ ن، پیپلز پارٹی اور الیکشن کمیشن نے نظرثانی کی درخواستیں دائر کی تھیں۔

قومی اسمبلی کی کل 336 نشستوں میں سے 266 پر براہ راست انتخاب ہوتا ہے جبکہ 60 خواتین اور 10 غیرمسلم پاکستانیوں کو مخصوص نشستوں پر منتخب کیا جاتا ہے۔ اسی طرح صوبوں میں سے پنجاب اسمبلی کے ارکان کی کل تعداد 371 ہے جب میں سے 297 پر براہ راست انتخاب ہوتا ہے۔

سندھ اسمبلی کی تعداد 168 ہے جن میں سے 130 جنرل نشستیں ہیں۔ خیبرپختونخوا کی صوبائی اسمبلی کل نشستیں 145 ہیں جن میں 115 جنرل نشستیں ہیں۔

بلوچستان اسمبلی میں 65 نشتیں ہیں جن میں سے 51 پر براہ راست انتخاب ہوتا ہے۔

پنجاب اسمبلی میں خواتین کے لیے 66 جبکہ غیرمسلم پاکستانیوں کے لیے آٹھ، سندھ میں خواتین کے لیے 29 جبکہ غیر مسلم پاکستانیوں کے لیے نو، خیبرپختونخوا میں خواتین کے لیے 26 جبکہ غیرمسلموں کے لیے چار اور بلوچستان میں خواتین کے لیے 11 جبکہ غیرمسلموں کے لیے تین نشستیں مخصوص کی گئی ہیں۔

فوج کو برائے مہربانی سیاست میں ملوث نہ کیا جائے: ڈی جی آئی ایس پی آر پاکستان کی سپریم کورٹ نے فوجی عدالتوں میں شہریوں پر مقدمے چلانے کا عمل درست قرار دے دیاآرمی چیف سے ملاقات پر امریکی وفد سے گِلے شکوے: ’آپ نے تو عمران خان کی رہائی کا وعدہ کیا تھا‘آرمی چیف کا پاکستان کو ’ہارڈ سٹیٹ‘ بنانے کا بیان: ’طاقت کے زور پر مسائل حل کرنے کی پالیسی اختیار کر لی گئی ہے‘Getty Images

الیکشن ایکٹ کے تحت خواتین اور اقلیتوں کی مخصوص نشستوں کے لیے ہر سیاسی جماعت اپنے امیدواروں کی ترجیحی فہرست الیکشن کمیشن آف پاکستان کے پاس جمع کراتی ہے۔

ترجیحی فہرست میں شامل تمام خواتین اور غیرمسلم امیدواران اپنے کاغذات نامزدگی بھی جمع کرواتے ہیں۔

الیکشن کمیشن آف پاکستان انتخابی نتائج کی روشنی میں سیاسی جماعتوں کی جیتنے والی نشستوں کے تناسب سے ہر سیاسی جماعت کو مخصوص نشستوں پر کامیاب خواتین ارکان کا نوٹیفکیشن بھی جاری کر دیتا ہے۔

تاہم خواتین کی مخصوص نشستوں کی تقسیم صوبوں میں مخصوص کی گئی نشستوں کی تعداد کے حساب سے ہی ہو گی یعنی بلوچستان سے صرف چار خواتین مخصوص نشستوں پر قومی اسمبلی پہنچ سکتی ہیں جبکہ خیبرپختونخوا سے دس، پنجاب سے 32 اور سندھ سے 14 خواتین قومی اسمبلی کی رکن بن سکتی ہیں۔

’پیپلز پارٹی پر انحصار کم، آئینی ترمیم میں آسانی، گنڈاپور کے خلاف تحریک عدم اعتماد کا امکان بڑھ جائے گا‘

حکومتی اتحاد اب قومی اسمبلی میں دو تہائی اکثریت حاصل کرنے کے بعد وہ کون سے فیصلے کر پائے گا جو اس سے پہلے وہ نہیں کر پایا تھا، یہ سوال جب ہم حکومتی رہنماؤں اور اتحادیوں سے پوچھا تو انھوں نے فی الحال اس بارے میں تبصرہ کرنے سے انکار کیا۔

انتخابی امور کے ماہر احمد بلال محبوب نے بی بی سی کو بتایا کہ مخصوص نشستوں کے فیصلے کے بعد حکومت نے متعدد فوائد سمیٹے ہیں جبکہ پی ٹی آئی کے علاوہ پیپلز پارٹی اور جے یو آئی کی اہمیت میں کسی حد کمی واقع ہو گی۔

ان کے مطابق ’ن لیگ کی قیادت میں حکمران اتحاد کو زیادہ نشستیں ملنے سے جہاں قومی اسمبلی میں جہاں دو تہائی اکثریت مل جائے گی وہیں ن لیگ سادہ اکثریت بھی حاصل کر لے گی۔‘

ان کے مطابق آئینی ترمیم کے لیے قومی اسمبلی میں اب جے یو آئی کی مدد کی ضرورت نہیں ہو گی۔

احمد بلال کے مطابق ’سینیٹ میں جب خیبر پختونخوا سے باقی 12 نشستوں کے انتخابات ہو جائیں گے تو پھر اس بات کا بھی امکان ہے کہ حکمران اتحاد کو ایوان بالا میں بھی دو تہائی اکثریت مل جائے اور پھر یوں آئینی ترمیم میں بہت آسانی ہو گی۔

ان کے مطابق اب ن لیگ کا حکمران اتحاد پیپلز پارٹی کے علاوہ بھی مستحکم حکومت بنانے میں کامیاب ہو جائے گا۔ احمد بلال محبوب کے مطابق ’پی پی پی جو بہت مطالبات کرتی ہے تو پھر اب شاید وہ سلسلہ اب کم ہو جائے۔‘

ان کے مطابق ’خیبر پختونخوا میں حکمران جماعت اور اپوزیشن میں فرق کم ہو جائے گا، جس کا مطلب یہ ہے کہ تحریک عدم اعتماد آنے کا امکانات بھی ہو سکتے ہیں۔‘

Getty Images

سینیئر صحافی اور تجزیہ کار فیاض راجہ اس رائے سے متفق ہیں کہ اس فیصلے سے اب حکومت وقت کے لیے قانون سازی کا عمل آسان ہو گیا ہے اور آنے والے دنوں میں شاید 27ویں ترمیم بھی دیکھنے کو ملے۔

ان کی رائے میں اس نئی ترمیم میں ممکنہ طور پر بلوچستان اور اندرون سندھ کی قومی اسمبلی میں نشستوں کا شیئر بڑھایا جائے گا۔ ان کے مطابق نئی مردم شماری میں بلوچستان اور اندرون سندھ کی آبادی ملک کے دیگر صوبوں کے مقابلے میں زیادہ سامنے آئی ہے۔

فیاض راجہ کے مطابق اس وقت براہ راست 266 نشستوں پر انتخابات ہوتے ہیں مگر جب بلوچستان صوبے کی نشستیں زیادہ ہوں گی تو پھر یہ تعداد بھی بدل جائے گی۔ فیاض راجہ کے مطابق خیبر پختونخوا میں سینیٹ کے انتخابات میں بھی حکومت اور اس کے اتحادیوں کو نشستیں مل جائیں گی۔

انتخابی امور کی ماہر اور فری اینڈ فیئر الیکشن نیٹ ورک (فافن) کی سابق چیئرپرسن مسرت قدیم نے بی بی سی کو بتایا کہ ’اس فیصلے میں کافی ابہام پائے جاتے ہیں۔‘ ان کی رائے میں ’کچھ عرصے سے سمجھوتے کا انصاف اور سمجھوتے کی سیاست دیکھنے میں آ رہی ہے۔‘

مسرت قدیم کی رائے میں ’یہ جمہوری عمل کے لیے بہت بڑا دھچکا ہے۔ اس کے اثرات بہت منفی ہوں گے اور عوام کے اداروں پر اعتماد میں کمی واقعہو گی۔ ان کی رائے میں لوگ ہر روز ایک نئے فیصلے سے مایوس ہوتے جا رہے ہیں۔

مسرت قدیم کے مطابق ’ووٹرز اس فیصلے سے اس وجہ سے بھی مایوس ہوں گے کیونکہ وہ یہ سوچنے پر مجبور ہوں گے کہ انھوں نے ووٹ کسی کو دیا اور سیٹ کسی کو ملی۔‘

اس فیصلے کے اثرات سے متعلق بات کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ اس نکتہ نظر سے حکومت کے پاس جب طاقت آ جاتی ہے تو وہ قانون سازی کی جاتی ہے جس کا سوچا بھی نہیں جا سکتا۔ ان کے مطابق ’گذشتہ چند عرصے میں جس طرح قانون سازی ہوئی ہے اس پر بہت سوالات ہیں۔‘

فوج کو برائے مہربانی سیاست میں ملوث نہ کیا جائے: ڈی جی آئی ایس پی آر سپریم کورٹ میں نظر ثانی اپیلیں منظور، پی ٹی آئی کو مخصوص نشستیں دینے کا فیصلہ کالعدمپی ٹی آئی قومی اسمبلی میں مخصوص نشستوں کی اہل: کیا عمران خان کی جماعت سب سے بڑی پارلیمانی قوت بن سکتی ہے؟بینچ کی تشکیل کا تنازع اور سپریم کورٹ میں تقسیم: ’یہ اختلاف رائے نہیں، اختیارات کی جنگ ہے‘پی ٹی آئی میں اندرونی اختلافات: کیا واقعی معاملات ’مائنس عمران خان‘ تک پہنچ چکے ہیں؟پاکستان کی سپریم کورٹ نے فوجی عدالتوں میں شہریوں پر مقدمے چلانے کا عمل درست قرار دے دیا
مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More