پاکستان کی وفاقی حکومت نے ایک جانب بجلی کے بلوں میں شامل پی ٹی وی کی ماہانہ 35 روپے فیس ختم کرنے کا اعلان کیا ہے تو دوسری جانب گیس کے بلوں پر فکسڈ چارجز میں 1000 روپے تک اضافہ کر دیا گیا ہے۔یعنی اگر آپ نے ماہانہ گیس استعمال کی ہو یا نہ کی ہو، تب بھی آپ کا بل 3900 سے 4000 روپے تک آ سکتا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اب زیادہ سے زیادہ فکسڈ چارجز کی حد 3000 روپے مقرر کر دی گئی ہے۔آئل اینڈ گیس ریگولیٹری اتھارٹی (اوگرا) کی جانب سے جاری کردہ نوٹیفکیشن کے مطابق حکومت نے یکم جولائی 2025 سے گیس کے بلوں میں فکسڈ چارجز میں اضافہ کر دیا ہے جو نئے مالی سال کے لیے لاگو ہوگا۔اس فیصلے کے تحت پروٹیکٹڈ گھریلو صارفین کے لیے فکسڈ چارجز 400 روپے سے بڑھا کر 600 روپے کر دیے گئے ہیں یعنی ان پر 50 فیصد اضافہ ہوا ہے۔ اسی طرح نان پروٹیکٹڈ گھریلو صارفین جو ماہانہ ڈیڑھ ایم ایم سی ایف ٹی (hm³) تک گیس استعمال کرتے ہیں، اُن کے فکسڈ چارجز 1000 روپے سے بڑھا کر 1500 روپے کر دیے گئے ہیں۔ جبکہ ایسے صارفین جو ماہانہ ڈیڑھ ایم ایم سی ایف ٹی سے زیادہ گیس استعمال کرتے ہیں، اُن کے لیے فکسڈ چارجز 2000 روپے سے بڑھا کر 3000 روپے مقرر کر دیے گئے ہیں۔اس کے علاوہ صنعتی، پاور سیکٹر اور بلک صارفین کے ٹیرف میں بھی 10 سے 17 فیصد تک اضافہ کیا گیا ہے۔ تاہم گھریلو صارفین کے فی یونٹ گیس نرخوں میں کوئی تبدیلی نہیں کی گئی۔حکومت کا مؤقف ہے کہ اس اضافے کا مقصد گیس کمپنیوں کے انفراسٹرکچر اور نیٹ ورک کی مرمت اور بہتری کے اخراجات پورے کرنا ہے۔توانائی کے ماہرین حکومت کی جانب سے گیس کے بلوں پر فکسڈ چارجز عائد کرنے کے اقدام کو انتہائی غیر منصفانہ قرار دے رہے ہیں۔ان کا کہنا ہے کہ اس فیصلے کا مطلب یہ ہے کہ چاہے کوئی صارف گیس استعمال کرے یا نہ کرے، اسے گیس کمپنیوں کے اخراجات پورے کرنے کے لیے پیسے ادا کرنا ہوں گے۔اردو نیوز نے گیس کے بلوں پر فکسڈ چارجز عائد کرنے کے معاملے پر اوگرا کے ترجمان عمران غزنوی سے بھی رابطہ کیا۔اپنے جواب میں انہوں نے وضاحت کی کہ اوگرا کا کام صرف گیس کمپنیوں کے لیے اوسط قیمت (ایوریج پرائس) کا تعین کرنا ہوتا ہے، جبکہ قیمتوں سے متعلق باقی فیصلے وزارت توانائی یا متعلقہ گیس کمپنیاں کرتی ہیں۔ انہوں نے مزید بتایا کہ اقتصادی رابطہ کمیٹی (ای سی سی) کے سامنے گیس کی قیمتوں کے حوالے سے حتمی سمری بھی وزارت توانائی ہی پیش کرتی ہے۔جب ان سے یہ سوال کیا گیا کہ کیا اوگرا فکسڈ چارجز ختم کرنے کے لیے کوئی اقدام کر سکتی ہے تو عمران غزنوی کا کہنا تھا کہ اگر آپ کوئی دکان چلا رہے ہیں تو اسے نقصان میں نہیں چلا سکتے۔ اوگرا کو سوئی گیس کمپنیوں کی مالی بقا (وائبلٹی) کو بھی مدنظر رکھنا ہوتا ہے۔پاکستان میں تیل و گیس کے شعبے کے ماہر اور اوگرا کے سابق رکن محمد عارف نے گیس کے بلوں پر فکسڈ چارجز عائد کرنے کے حکومتی اقدام پر اردو نیوز سے گفتگو میں اسے انتہائی غلط اور ناجائز قرار دیا ہے۔اگر کسی صارف نے پورے ماہ گیس استعمال نہیں بھی کی تب بھی فکسڈ چارجز دینے کا پابند ہوگا۔ فائل فوٹو: فری پکسان کا کہنا تھا کہ ’اگر کوئی صارف پورے مہینے گیس استعمال ہی نہ کرے تو وہ کمپنیوں کے اخراجات برداشت کرنے کے لیے مقرر کردہ رقم کیوں ادا کرے؟ یہ سراسر ناانصافی ہے۔‘انہوں نے وضاحت کی کہ اوگرا کی جانب سے گیس کمپنیوں کے لیے جو سالانہ قیمت کا تعین (پرائس ڈیٹرمنیشن) کیا جاتا ہے یا جو مجوزہ قیمت (پریسکرائبڈ پرائس) مقرر ہوتی ہے، اُس میں فکسڈ چارجز کو شامل نہیں کیا جاتا۔ گیس کمپنیوں کی سالانہ مالی ضروریات فکسڈ چارجز کے بغیر ہی پوری کی جاتی ہیں۔ ایسی صورت میں فکسڈ چارجز عائد کرنا نہ صرف غیر قانونی ہے بلکہ یہ صارفین سے بھتہ وصولی کے مترادف ہے۔محمد عارف نے حیرانگی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ اگر کوئی شخص اپنا گھر بند کر کے سال بھر کے لیے کہیں چلا جاتا ہے تو وہ اس کے باوجود ہر مہینے تین یا چار ہزار روپے فکسڈ چارجز کی مد میں بل ادا کرنے کا پابند ہوگا، جو کہ بالکل غیرمنطقی اور ناقابلِ قبول ہے۔توانائی امور پر گہری نظر رکھنے والے ماہر خلیق کیانی کا کہنا ہے کہ حکومت کی جانب سے عائد کیے گئے فکسڈ چارجز کے بعد اب چاہے آپ گیس استعمال کریں یا نہ کریں، آپ کو 3900 سے 3950 روپے تک بل ادا کرنا پڑ سکتا ہے۔خلیق کیانی کے مطابق گیس کے بلوں پر فکسڈ چارجز پہلی بار انٹرم حکومت کے وزیر محمد علی کے دور میں عائد کیے گئے تھے، جس سلسلے کو موجودہ حکومت نے مزید آگے بڑھا دیا ہے۔اُن کا کہنا تھا کہ حکومت کا مؤقف ہے کہ یہ فکسڈ چارجز گیس کمپنیوں کے انفراسٹرکچر اور پائپ لائنوں کی دیکھ بھال کے اخراجات پورے کرنے کے لیے لگائے گئے ہیں، لیکن حقیقت یہ ہے کہ سوئی گیس کمپنیوں نے جو پائپ لائنیں اور انفراسٹرکچر بچھایا ہے، وہ پہلے ہی صارفین سے رقم لے کر بنایا گیا تھا۔