چلاس کے پُر خطر پہاڑی علاقے تھک نالہ میں اچانک آنے والے شدید سیلابی ریلے نے ایک خوشگوار سیاحت کو ناقابلِ فراموش المیے میں بدل دیا۔ سیلاب نے نہ صرف کئی گاڑیوں کو اپنے ساتھ بہا دیا بلکہ قیمتی انسانی جانیں بھی چھین لیں۔ مقامی ذرائع کے مطابق یہ ریلہ چلاس کی تاریخ کا سب سے تباہ کن سیلاب قرار دیا جا رہا ہے۔
حادثے کا شکار ہونے والوں میں ایک خاندان کا تعلق لودھراں سے ہے، جو اپنی سفید کوسٹر میں 17 افراد کے ساتھ شمالی علاقوں کی سیر کے لیے آیا تھا۔ یہ خاندان پہلے سیالکوٹ میں مقیم تھا اور 2016 میں لودھراں منتقل ہوا تھا۔ حادثے میں اب تک ایک خاتون سمیت کم از کم تین افراد کے جاں بحق ہونے کی اطلاع ہے۔
خاندانی ذرائع کا کہنا ہے کہ لودھراں کے ایک نجی اسپتال کے مالک سعد اسلام اور ان کے بھائی فہد اسلام کا خاندان اس دلخراش واقعے کی زد میں آیا۔ افسوسناک طور پر فہد اسلام اور ڈاکٹر مشعل سعد موقع پر ہی دم توڑ گئے، جبکہ سعد اسلام شدید زخمی ہیں اور انہیں ٹانگ میں فریکچر ہوا ہے۔ ان کا بیٹا اب تک لاپتہ ہے اور ریسکیو ٹیمیں اس کی تلاش میں مصروف ہیں۔
مقامی انتظامیہ کے مطابق امدادی کارروائیاں دشوار گزار راستوں اور مسلسل بارش کے باعث متاثر ہو رہی ہیں، تاہم کوششیں مسلسل جاری ہیں۔ چلاس اور گلگت کے درمیان شاہراہ قراقرم پر بھی متعدد مقامات پر لینڈ سلائیڈنگ کی وجہ سے راستے بند ہو چکے ہیں جس کے باعث ہزاروں مقامی اور غیر ملکی سیاح پھنس کر رہ گئے ہیں۔
لودھراں کی ضلعی انتظامیہ نے متاثرہ خاندان سے مسلسل رابطے میں رہنے کی تصدیق کی ہے۔ ڈپٹی کمشنر ڈاکٹر لبنیٰ نذیر چلاس حکام سے مسلسل رابطے میں ہیں تاکہ متاثرہ افراد کو ہر ممکن مدد فراہم کی جا سکے۔