Getty Images
تاجکستان میں قومی سلامتی کمیٹی نے ’افغان شہریوں کی ایک مخصوص تعداد‘ کی ملک بدری کی منظوری دی ہے۔
سرکاری خبر رساں ادارے خاور ویب سائٹ نے تاجک سرحدی محافظوں کے پریس سینٹر کا حوالہ دیتے ہوئے لکھا ہے کہ کچھ غیر ملکی شہریوں پر تاجکستان میں رہائش سے متعلق ضوابط کی خلاف ورزی اور غیر قانونی طور پر ملک میں داخل ہونے کا الزام لگایا گیا ہے۔
تاجک بارڈر گارڈ ایک فوجی ڈھانچہ ہے جو ریاستی کمیٹی برائے قومی سلامتی کی نگرانی میں ہے۔
نیوز رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ’منشیات کی سمگلنگ، انتہا پسندانہ خیالات کی حوصلہ افزائی، سیاسی پناہ کے حصول کے لیے غلط دستاویزات پیش کرنے، امیگریشن کے ضوابط کی خلاف ورزی، تیسرے ملک کی شہریت رکھنے اور تاجکستان کی سرزمین کو ٹرانزٹ ملک کے طور پر استعمال کرنے‘ جیسے جرائم میں کچھ غیر ملکی شہریوں کے ملوث ہونے کی تصدیق کی گئی ہے۔
تاجکستان کی ریاستی کمیٹی برائے قومی سلامتی نے کہا کہ اس نے ملک کے قوانین کے مطابق ایسے افراد کو ملک بدر کرنے کے لیے اقدامات کیے ہیں۔
ایجنسی نے ملک بدری کا ذمہ دار افغان شہریوں کی ’مخصوص تعداد‘ کو قرار دیا، لیکن تارکین وطن کی صحیح تعداد فراہم نہیں کی۔
Getty Imagesتاجکستان میں قومی سلامتی کمیٹی نے ’افغان شہریوں کی ایک مخصوص تعداد‘ کی ملک بدری کی منظوری دی ہے
دریں اثنا، تاجک حکام نے تشویش کا اظہار کیا ہے کہ ’خطے اور دنیا کی پیچیدہ سیاسی اور اقتصادی صورت حال کی وجہ سے اس ملک میں غیر ملکی شہریوں کی امیگریشن میں اضافہ ہوا ہے۔‘
دو ہفتے قبل سوشل میڈیا اور افغان میڈیا پر تاجک حکام کی جانب سے افغان پناہ گزینوں کو ملک چھوڑنے کے لیے 15 دن کی مہلت دینے کے حوالے سے خبریں اور رپورٹس شائع ہوئی تھیں تاہم اس وقت حکام نے اس خبر کی تصدیق نہیں کی تھی۔
ایک ہفتہ قبل سوشل میڈیا پر ایسی تصاویر اور تصاویر شائع ہوئی تھیں جن میں دارالحکومت دوشنبہ سے 15 کلومیٹر کے فاصلے پر واقع شہر سے کچھ پنادہ گزینوں کو بے دخل کرتے ہوئے دکھایا گیا تھا۔
تاجکستان میں افغان پناہ گزینوں کے امور کی کمیٹی کے عہدیداروں نے بتایا کہ پناہ کے متلاشی کچھ ایسے افراد کو ملک بدر کرنے کا عمل ایک ہفتہ قبل شروع ہوا جنہوں نے ’رہائشی ضوابط کی خلاف ورزی‘ کی تھی۔
لیکن یہ معلوم نہیں ہے کہ اس دوران کتنے لوگ تاجکستان چھوڑنے پر مجبور ہوئے یا رضاکارانہ طور پر واپس آئے۔
ایک افغان پناہ گزین نے، اپنی شناخت ظاہر نہ کرنے کی شرط پر، بی بی سی کو ٹیلی فون پر انٹرویو میں بتایا کہ وہ کئی دنوں سے اپنی بڑی بہن کے ساتھ کرائے کے ایک مکان میں بیٹھے ہیں اور ’گرفتاری اور ملک بدری کے خوف سے گھر سے باہر نہیں نکلے۔‘
ان کے مطابق، اگر انھیں دکان یا بازار سے کسی چیز کی ضرورت ہوتی تو وہ اپنے تاجک پڑوسیوں سے مدد لیتے۔ یہ افغان پناہ گزین پچھلی افغان حکومت کے خاتمے سے تین ماہ قبل ویزے پر تاجکستان میں داخل ہوئے تھے اور ان کا کہنا ہے کہ اس سے پہلے ان کے بڑے بھائی اور ان کے خاندان اور بڑی بہن نے تاجکستان میں پناہ لی تھی۔
یہ افغان شہری، جنھیں تاجکستان میں پناہ گزین کے طور پر تسلیم کیا گیا ہے، اپنا کیس مکمل کرنے اور ’سپانسرشپ‘ پروگراموں کے ذریعے کینیڈا منتقل ہونے کا انتظار کر رہے ہیں۔
لاکھوں افغان پناہ گزینوں کو پاکستان بدر کرنے کی چار ممکنہ وجوہات کیا ہیں’ہم نے جس ملک سے پناہ مانگی تھی، وہاں ہمارے لیے کوئی لچک نہیں‘: کیا پاکستان میں افغان پناہ گزینوں کے کوئی حقوق ہیں؟ایران میں گرفتار کیے جانے والے افغان پناہ گزین جن پر اسرائیل کے لیے ’جاسوسی‘ کا الزام ہےافغانستان پر طالبان کے قبضے کے بعد اب افغان پناہ گزین کہاں جائیں گے؟
ان کی طرح درجنوں پناہ کے متلاشی تاجکستان میں بین الاقوامی تنظیم برائے پناہ گزین کے مقدمات کی کارروائی کے منتظر ہیں۔ تاجکستان سے ایسے لوگوں کی بے دخلی نے درجنوں ایسے لوگوں کو مایوس کیا ہے جو تاجکستان چھوڑ کر کسی تیسرے ملک جانا چاہتے تھے۔
متعدد افغان پناہ گزینوں نے نجی گفتگو میں کہا کہ کچھ خاندان تاجکستان سے رضاکارانہ طور پر افغانستان واپس جا رہے ہیں۔
مجھ سے بات چیت کرنے والوں کے مطابق، ان خاندانوں کے مردوں کو پولیس اور سکیورٹی اہلکار افغانستان واپس بھیج رہے ہیں، اور وہ ’رضاکارانہ طور پر‘ اپنے وطن واپس جانے کو ترجیح دیتے ہیں۔
تاجکستان میں سابق افغان سفیر محمد ظاہر اغبر نے تاجکستان سے کچھ افغان پناہ گزینوں کو نکالے جانے کی تصدیق کی، لیکن کہا کہ ’تاجکستان سے افغان پناہ گزینوں کی بڑے پیمانے پر بے دخلی‘ حقیقت پسندانہ نہیں ہے۔
BBC
ظاہر اغبر نے بی بی سی کو بتایا کہ انھوں نے چند روز قبل تاجکستان میں اپنے ملک کے پناہ گزینوں کی مرکزی بستی وحدت شہر میں کچھ پناہ گزینوں سے ملاقات کی تھی۔
انھوں نے کچھ افغان پناہ گزینوں کی رضاکارانہ واپسی کی وجہ یہ بتائی کہ کینیڈا اور امریکہ جیسے ممالک نے ان کے مقدمات پر کارروائی روک دی تھی۔
سابق افغان سفیر نے تاجکستان سے افغان پناہ گزینوں کی بڑے پیمانے پر بے دخلی کو بے بنیاد قرار دیا اور کہا کہ 600-700 طلباء اور افغان سکول ’سمانیان‘ کے تقریباً 50 ملازمین ابھی تک تاجکستان میں تعلیم حاصل کر رہے ہیں اور کام کر رہے ہیں۔
محمد ظاہر اغبر نے کہا کہ وہ تارکین وطن کی قانونی حیثیت کو حل کرنے کے لیے تاجکستان کی وزارت خارجہ کے ساتھ مل کر کام کر رہے ہیں۔
سرکاری اعداد و شمار کے مطابق تاجکستان میں اب 9000 سے زائد افغان پناہ گزین موجود ہیں۔ ان میں سے زیادہ تر پناہ گزینوں کا کہنا ہے کہ وہ طالبان کے خوف سے تاجکستان فرار ہو گئے تھے۔
یہ معلوم نہیں کہ گزشتہ دو ہفتوں میں ان میں سے کتنے رضاکارانہ یا زبردستی افغانستان واپس آئے ہیں۔
دریں اثنا، بعض ماہرین تاجکستان سے افغان مہاجرین کو نکالنے کے عمل کو روس کی جانب سے طالبان کی حکومت کو تسلیم کرنے سے جوڑتے ہیں۔ روس اور تاجکستان ایک دوسرے کو سٹریٹجک پارٹنر سمجھتے ہیں۔
ایران، پاکستان اور کچھ مغربی ممالک سے بھی افغان پناہ گزینوں کی ملک بدری میں بھی اضافہ ہو رہا ہے۔
افغانستان کے بارے میں بعض ماہرین کا خیال ہے کہ خطے کے بعض ممالک سے افغان پناہ گزینوں کو نکالنے کا عمل طالبان کی حکومت اور ان ممالک کے حکام کے درمیان ہونے والے معاہدے پر مبنی ہو سکتا ہے۔
ماہرین کے مطابق طالبان کو بیرون ملک مقیم ہر افغان شہری میں مزاحمتی قوت نظر آتی ہے۔ بیرون ملک سے مزید افغانوں کی افغانستان واپسی کا مطلب بیرون ملک طالبان مخالف مزاحمتی قوت کو کمزور کرنا ہے۔
تاجکستان، وسطی ایشیا کے دیگر دو ممالک، ازبکستان اور ترکمانستان کے برعکس، افغانستان کے ساتھ طویل ترین سرحد رکھتا ہے۔ تاجکستان-افغانستان سرحد کی لمبائی تقریباً 1400 کلومیٹر ہے۔
افغان پناہ گزینوں کی پاکستان سے بے دخلی: ’پاکستان میں ہمیں افغان، افغانستان میں پاکستانی سمجھا جاتا ہے‘لاکھوں افغان پناہ گزینوں کو پاکستان بدر کرنے کی چار ممکنہ وجوہات کیا ہیںافغانستان پر طالبان کے قبضے کے بعد اب افغان پناہ گزین کہاں جائیں گے؟’ہم نے جس ملک سے پناہ مانگی تھی، وہاں ہمارے لیے کوئی لچک نہیں‘: کیا پاکستان میں افغان پناہ گزینوں کے کوئی حقوق ہیں؟خیالی ملک کے فرضی سفیر کا جعلی سفارتخانہ: ’ملزم اپنا تعارف نام نہاد ملک کے سفیر کے طور پر کرواتا تھا‘افغان ڈرائیورز کا گاڑیوں میں ایئر کولرز نصب کرنے کا انوکھا عمل: ’دن میں دو مرتبہ پانی بھرنا پڑتا ہے۔۔۔ لیکن پوری گاڑی ٹھنڈی ہو جاتی ہے‘