امریکہ کے سپرسٹار ریسلر ہلک ہوگن دل کا دورہ پڑنے پر 71 برس کی عمر میں چل بسے۔ان کے مینیجر کرس وولو نے این بی سی لاس اینجلس سے بات کرتے ہوئے تصدیق کی کہ ہلک ہوگن کا انتقال کلیئرواٹر فلوریڈا میں واقع ان کی رہائش گاہ میں ہوا۔ان کا کہنا ہے کہ اس موقعے پر ہوگن کے اہل خانہ بھی وہاں موجود تھے۔
ورلڈ ریسلنگ انٹرٹینمنٹ (ڈبلیو ڈبلیو ای) نے بھی ایک بیان میں ہلک ہوگن کے انتقال کی تصدیق کی ہے۔ڈبلیو ڈبلیو ای نے بیان میں کہا ہے کہ ’یہ سن کر بہت افسوس ہوا کہ ڈبلیو ڈبلیو ای ہال آف فیمر ہلک ہوگن اب اس دنیا میں نہیں رہے۔ ہم اُن کے اہل خانہ، دوستوں اور مداحوں سے تعزیت کا اظہار کرتے ہیں۔‘’پاپ کلچر کی سب سے زیادہ جانی پہچانی شخصیات میں سے ایک ہلک ہوگن نے 1980 کی دہائی میں ڈبلیو ڈبلیو ای کو شناخت حاصل کرنے میں مدد کی۔‘ہلک ہوگن امریکی ریسلز کا ’رِنگ نیم‘ تھا جبکہ اُن کا اصل نام ٹیری جین بولیا تھا، انہوں نے 1980 اور 1990 کی دہائی میں ریسلنگ کے میدان میں زبردست شہرت حاصل کی اور انہیں ڈبلیو ڈبلیو ای کی تاریخ کا سب سے بڑا سٹار سمجھا جاتا ہے۔ہلک ہوگن نے چھ مرتبہ ورلڈ ریسلنگ انٹرٹینمنٹ کا چیمپیئن شپ ٹائٹل جیتا اور سنہ 2005 میں انہیں ’ہال آف فیم‘ میں شامل کیا گیا تھا۔امریکہ کے معروف ریسلر کی شہرت صرف ریسلنگ کے میدان تک محدود نہیں تھی بلکہ انہوں نے فلموں اور ٹیلی ویژن شوز میں بھی اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوایا۔ انہوں نے متعدد فلموں میں کام کیا، جن میں فلم ’راکی تھری‘ بھی شامل ہے جس میں انہوں نے مرکزی کردار ’راکی‘ کے ساتھ مقابلہ کیا جو ہالی وڈ کے مشہور اداکار سلویسٹر سٹالون نے ادا کیا تھا۔
ہوگن نے فلم ’راکی تھری‘ میں بھی کام کیا جس میں مشہور اداکار سلویسٹر سٹالون مرکزی کردار میں تھے (فائل فوٹو: آئی ایم ڈی بی)
اس کے علاوہ انہوں نے 2000 کی دہائی کی ابتدا میں ایک ریئلٹی شو ’ہوگن نوز بیسٹ‘ میں بھی شرکت کی جو اُن کی ذاتی زندگی پر مبنی تھا۔ہلک ہوگن کی ذاتی زندگی ہمیشہ خبروں کی زینت رہی لیکن بعض اوقات اس توجہ کو انہوں نے ناپسند بھی کیا۔ ایک مرتبہ میڈیا کے ایک ادارے نے ان کی ایک نجی ویڈیو شائع کی تھی جس میں وہ اپنے سابق دوست کی اہلیہ کے ساتھ موجود تھے۔ ہلک ہوگن نے اس ادارے پر کیس کر دیا جس پر سنہ 2016 میں فلوریڈا کی ایک جیوری نے اُن کے حق میں فیصلہ سنایا اور انہیں 11 کروڑ 50 لاکھ ڈالر ہرجانے کے طور پر ادا کرنے کا حکم دیا۔ ہلک ہوگن کا موقف تھا کہ 2012 میں کی میڈیا ہاؤس کی جانب سے جاری کی گئی وہ ویڈیو اُُن کی نجی زندگی میں مداخلت تھی۔ اس مقدمے کے نتیجے میں مذکورہ ویب سائٹ بند کر دی گئی اور یہ کیس آزادی اظہار اور میڈیا قوانین کے ماہرین کی خصوصی توجہ کا مرکز بنا رہا۔