پاکستان میں سوشل میڈیا کے عروج نے جہاں کئی لوگوں کی زندگیوں پر مثبت اثر ڈالا ہے وہیں یوٹیوب اور ٹک ٹاک جیسے پلیٹ فارمز پر مشہور انفلوئنسرز اور یوٹیوبرز کی جانب سے آن لائن جوئے اور بیٹنگ ایپس کی تشہیر نے ایک سنگین مسئلے کی صورت اختیار کر لی ہے۔حال ہی میں مشہور یوٹیوبر سعد الرحمٰن جو ڈکی بھائی کے نام سے جانے جاتے ہیں، کو لاہور کے علامہ اقبال انٹرنیشنل ایئرپورٹ سے نیشنل سائبر کرائم انویسٹی گیشن ایجنسی (این سی سی آئی اے) نے گرفتار کیا۔ یہ گرفتاری جوئے کی ایپس کی تشہیر کے الزام میں کی گئی جو پاکستان میں غیرقانونی ہے۔
ڈکی بھائی کی گرفتاری کیسے ہوئی؟
17 اگست 2025 کو لاہور ایئرپورٹ پر اس وقت ایک ڈرامائی منظر دیکھنے میں آیا جب این سی سی آئی اے کے اہلکاروں نے ڈکی بھائی کو گرفتار کر لیا۔ ڈکی بھائی کے یوٹیوب چینل کے 89 لاکھ 10 ہزار سبسکرائبرز ہیں اور مزاحیہ ویڈیوز اور فیملی ولاگنگ کے لیے مشہور ہیں۔ ان پر الزام ہے کہ انہوں نے اپنے پلیٹ فارمز پر غیرقانونی جوئے کی ایپس جیسے ’بائی نومو‘، ’ون ایکس بیٹ‘، ’بیٹ 365‘ اور ’بی 9 گیم‘ کی تشہیر کی ہے۔این سی سی آئی اے کی جانب سے درج ایف آئی آر میں کہا گیا ہے کہ ’ڈکی بھائی نے اپنے ویڈیوز میں ان ایپس کو پروموٹ کیا، جن سے لوگوں کو منافع کی جھوٹی امیدیں دلائی گئیں اور نتیجتاً مالی نقصانات ہوئے۔‘ڈکی بھائی کی گرفتاری کے بعد لاہور کی ایک عدالت نے این سی سی آئی اے کو ان کا دو دن کا جسمانی ریمانڈ دیا تاکہ مزید تفتیش کی جا سکے۔یہ گرفتاری پاکستان میں سائبر کرائم کے خلاف بڑھتے ہوئے اقدامات کا حصہ بھی سمجھی جا رہی ہے۔ ڈکی بھائی کی گرفتاری سے پہلے ان کے چینل پر کم از کم 27 لنکس پائے گئے جو ان ایپس کی طرف اشارہ کرتے تھے۔ این سی سی آئی اے کے مطابق ’یہ ایپس لوگوں کو جوئے میں ملوث کر کے ان کی محنت کی کمائی ضائع کرتی ہیں اور پیسے ملک سے باہر منتقل کرتی ہیں۔‘ڈکی بھائی نے گرفتاری کے بعد اپنے وکلا کے ذریعے کہا کہ ’یہ الزامات بے بنیاد ہیں اور وہ جلد رہا ہو جائیں گے۔‘ڈکی بھائی کی کہانی ایک انفرادی واقعہ نہیں بلکہ ایک وسیع تر رجحان کا حصہ ہے۔ پاکستان میں یوٹیوب اور ٹک ٹاک پر ہزاروں انفلوئنسرز ہیں جو آن لائن بزنس اور جوئے کی ایپس کی تشہیر کرتے ہیں۔ماہرین کے مطابق یہ ایپس اکثر ’آسان پیسہ کمانے‘ کا لالچ دیتی ہیں لیکن حقیقت میں یہ فراڈ اور جوئے کی شکل میں لوگوں کو تباہ کرتی ہیں۔ ایک اندازے کے مطابق پاکستان میں آن لائن جوئے کی مارکیٹ اربوں روپے کی ہے اور انفلوئنسرز اسے پروموٹ کرکے لاکھوں کروڑوں روپے کماتے ہیں۔ڈکی بھائی نے گرفتاری کے بعد اپنے وکلا کے ذریعے کہا کہ ’ان پر لگائے الزامات بے بنیاد ہیں اور وہ جلد رہا ہو جائیں گے۔‘ (فائل فوٹو: سکرین گریب)انفلوئنسرز اور آن لائن جوئے کی تشہیریوٹیوب اور ٹک ٹاک نے پاکستان میں نوجوانوں کو ایک پلیٹ فارم دیا ہے جہاں وہ اپنی تخلیقی صلاحیتوں کا مظاہرہ کر سکتے ہیں۔ تاہم یہ پلیٹ فارمز اب جوئے اور فراڈ کی تشہیر کا ذریعہ بھی بن گئے ہیں۔ بعض مشہور ٹک ٹاکرز اور یوٹیوبرز نے ماضی میں ایسی ایپس کو پروموٹ کیا ہے۔ یہ ایپس آن لائن بزنس کے نام پر جوئے کو فروغ دیتی ہیں، جہاں صارفین پیسے لگاتے ہیں اور اکثر نقصان اٹھاتے ہیں۔پاکستان میں آن لائن جوئے کی تشہیر کا مسئلہ تیزی سے بڑھ رہا ہے۔ ایک رپورٹ کے مطابق ہزاروں نوجوان ان ایپس کی وجہ سے مالی بحران کا شکار ہو رہے ہیں۔ انفلوئنسرز کو یہ تشہیر کرنے پر لاکھوں روپے ملتے ہیں، لیکن وہ اپنے فولوورز کی ذمہ داری نہیں لیتے۔ ٹک ٹاک پر ’بیٹنگ ٹپس‘ اور یوٹیوب پر ’آسان کمائی‘ کی ویڈیوز کی بھرمار ہے، جو نوجوانوں کو گمراہ کرتی ہیں۔ یہ نہ صرف معاشی نقصان کا باعث بنتی ہیں بلکہ معاشرتی مسائل جیسے نشہ اور خودکشی کو بھی فروغ دیتی ہیں۔آن لائن جوئے کی ایپس کی تشہیر سے متاثر ہونے والوں کی انگنت کہانیاں ہیں۔ اردو نیوز نے دو ایسے افراد سے بات کی ہے جو ان ایپس کی وجہ سے فراڈ کا شکار ہوئے۔لاہور کے رہائشی 40 سالہ علی (فرضی نام) ایک نجی کمپنی میں ملازم ہیں۔ انہوں نے ایک مشہور یوٹیوبر کی ویڈیو دیکھی جس میں بائی نومو ایپ کو ’آسان پیسہ کمانے کا طریقہ‘ بتایا گیا تھا۔ یوٹیوبر نے دعویٰ کیا کہ چند دنوں میں ہزاروں روپے کمائے جا سکتے ہیں۔ علی نے اپنی جمع پونجی کے چھ لاکھ روپے اس ایپ میں لگائے۔ شروع میں انہیں تھوڑا بہت منافع ملا، جو ایپ کی حکمت عملی تھی تاکہ صارف کو مزید پیسے لگانے پر مجبور کیا جائے۔ٹک ٹاک پر ’بیٹنگ ٹپس‘ اور یوٹیوب پر ’آسان کمائی‘ کی ویڈیوز کی بھرمار ہے۔ (فائل فوٹو: میڈیم)علی نے جلد ہی اپنے دوستوں سے قرض لے کر مزید دو لاکھ روپے لگائے۔ تاہم ایک دن اچانک ایپ نے ان کا اکاؤنٹ بلاک کر دیا اور پیسے غائب ہو گئے۔ علی کو پتہ چلا کہ یہ ایک سکیم تھی جس کے ذریعے لوگوں کو دھوکہ دیا جاتا ہے۔ انہوں نے پولیس میں رپورٹ درج کروائی، لیکن پیسے واپس نہ مل سکے۔ اب اس نقصان کی وجہ سے علی ڈپریشن کا شکار ہیں۔ اس جیسے ہزاروں کیسز پاکستان میں رپورٹ ہو چکے ہیں، جہاں لوگ جوئے کی لت میں پھنس کر سب کچھ کھو دیتے ہیں۔30 سالہ فاطمہ کا تعلق گوجرانوالہ سے ہے اور وہ گھریلو خاتون ہیں۔ انہوں نے ٹک ٹاک پر ایک مشہور ٹک ٹاکر کی ویڈیو دیکھی جس میں بی 9 گیم ایپ کو ’گھر بیٹھے کمائی‘ کا ذریعہ بتایا گیا تھا۔ ٹک ٹاکر نے کہا کہ ’یہ ایک قانونی آن لائن بزنس ہے۔‘یوں فاطمہ نے اپنے شوہر کی بچت کے ایک لاکھ روپے اس ایپ میں انویسٹ کیے۔ ایپ نے شروع میں منافع دکھایا، لیکن جب واپسی کی کوشش کی تو ایپ نے اضافی فیس کا مطالبہ کیا۔ فاطمہ نے مزید پیسے بھیجے، لیکن سب کچھ ضائع ہو گیا۔ یہ ایک کلاسک ’پونزی سکیم‘ تھی جو نئے صارفین کے پیسوں سے پرانے صارفین کو ادائیگی کرتی ہے۔فاطمہ نے ایف آئی اے سے رابطہ کیا جو آن لائن فراڈ کی تفتیش کرتی ہے، لیکن کیس ابھی تک حل نہیں ہوا۔ اس واقعے نے فاطمہ کے خاندان کو مالی بحران میں ڈال دیا اور وہ اب اپنا نفسیاتی علاج کرا رہی ہیں۔ ایسے کیسز میں فراڈ کرنے والے اکثر پاکستان سے باہر بیٹھے ہوتے ہیں جو تفتیش کو مشکل بناتا ہے۔این سی سی آئی اے اور ایف آئی اے آن لائن فراڈ کیسز کی تفتیش کرتی ہیں۔ (فائل فوٹو)قانون کیا کہتا ہے؟پاکستان میں جوئے کو اسلام کے اصولوں اور قانون کے تحت غیرقانونی قرار دیا گیا ہے۔ پریوینشن آف گیمبلنگ ایکٹ 1977 جوئے کو منع کرتا ہے اور آن لائن جوئے کو پاکستان پینل کوڈ کی سیکشن 294-اے کے تحت سزا دی جا سکتی ہے، جس میں جرمانہ یا قید شامل ہے۔ مزید برآں پریوینشن آف الیکٹرانک کرائمز ایکٹ (پیکا) 2016 کی سیکشن 13، 14 اور 37 کے تحت آن لائن فراڈ اور جوئے کی تشہیر کو سائبر کرائم قرار دیا گیا ہے۔این سی سی آئی اے اور ایف آئی اے ایسے کیسز کی تفتیش کرتی ہیں۔ اگر کوئی انفلوئنسر جوئے کی ایپس پروموٹ کرتا ہے تو اسے پانچ برس تک کی قید اور جرمانہ ہو سکتا ہے۔ حال ہی میں حکومت نے انفلوئنسرز کو وارننگ دی ہے کہ وہ غیرقانونی ایپس کی تشہیر سے باز رہیں۔ماہرین اس مسئلے پر تشویش کا اظہار کر رہے ہیں۔ سائبر سکیورٹی ایکسپرٹ ڈاکٹر حفیظ الرحمٰن کا کہنا ہے کہ ’انفلوئنسرز کی تشہیر نوجوانوں کو جوئے کی لت میں مبتلا کر رہی ہے، جو معاشرتی تباہی کا باعث ہے۔ حکومت کو سخت قوانین نافذ کرنے چاہییں۔‘معاشیات کے پروفیسر احمد علی کے مطابق ’یہ ایپس ملک سے اربوں روپے باہر لے جا رہی ہیں جو معیشت کو نقصان پہنچا رہی ہیں۔ انفلوئنسرز کو اخلاقی ذمہ داری قبول کرنی چاہیے۔ یہ خود تو بغیر جوئے کے پیسے کماتے ہیں لیکن سادہ لوح لوگ جواریوں کے چنگل میں پھنس جاتے ہیں۔‘