Getty Imagesپاور سیکٹر میں اڈانی کی کمپنیاں تھرمل پاور اور قابل تجدید توانائی کے شعبوں میں کام کرتی ہیں
تقریباً ایک ہزار ایکڑ زمین اور سالانہ کرایہ صرف ایک روپیہ!
انڈیا کی ریاست بہار کی حکومت نے یہ زمین تھرمل پاور پلانٹ لگانے کے لیے ملک کے سب سے بڑے صنعت کار گوتم اڈانی کی کمپنی ’اڈانی پاور لمیٹڈ‘ کو 25 سال کے لیے لیز پر دی ہے۔
لیکن اب اس زمین کو لے کر ایک تنازع کھڑا ہو گیا ہے۔
سیاسی جماعتوں بشمول کانگریس، آر جے ڈی اور سی پی آئی (ایم ایل) نے بہار حکومت اور بی جے پی کو نشانہ بناتے ہوئے اڈانی کو فائدہ پہنچانے کا الزام عائد کیا ہے۔
دوسری جانب بی جے پی نے ان الزامات کی تردید کی ہے جبکہ بہار حکومت کا کہنا ہے کہ اڈانی کی کمپنی نے باقاعدہ طریقہ کار پر عمل کر کے یہ منصوبہ اور اس کے لیے جگہ حاصل کی ہے۔
اڈانی کو یہ بڑا منصوبہ دینے کے علاوہ مجوزہ ایک ہزار ایکٹر زمین پر بڑی تعداد میں درختوں کی کٹائی پر بھی سوال اٹھ رہے ہیں۔
بی بی سی نے ان الزامات کا جواب جاننے کے لیے اڈانی گروپ سے کئی بار رابطہ کیا، لیکن کوئی جواب نہیں ملا۔
ایک روپے میں ایک ہزار ایکٹر زمین کی لیز
پٹنہ سے تقریباً 250 کلومیٹر دور ضلع بھاگلپور کے راستے میں زندگی اور جدوجہد کی کئی تصویریں ایک ساتھ گزرنے لگتی ہیں۔
بھاگلپور ڈسٹرکٹ ہیڈکوارٹر سے آگے بڑھتے ہوئے ہم کہلگاؤں پہنچتے ہیں جہاں این ٹی پی سی تھرمل پاور پلانٹ کی اونچی چمنیاں آسمان کو چھوتی محسوس ہوتی ہیں۔
لیکن جیسے ہی گاڑی پیرپینتی کی طرف مڑتی ہے یہ مناظر یکسر بدل جاتے ہیں۔ دور ہی سے آم کے ہزاروں سرسبز درخت نظر آتے ہیں جو اس علاقے کو ایک سرسبز و شاداب باغ کی شکل دیتے ہیں۔
فروری 2025 میں بہار حکومت نے اس مقام پر 2400 میگاواٹ کا تھرمل پاور پلانٹ لگانے کے ایک نئے منصوبے کی تجویز پیش کی تھی۔
ریاستی حکومت نے فیصلہ کیا تھا کہ یہ تھرمل پلانٹ ٹیرف پر مبنی مسابقتی بولی کے ذریعے قائم کیا جائے گا۔
اڈانی پاور لمیٹڈ نے 16 جولائی 2025 کو آن لائن نیلامی میں بجلی فروخت کرنے کے لیے فی کلو واٹ فی گھنٹہ 6.075 روپے کی سب سے کم قیمت لگا کر یہ منصوبہ جیت لیا تھا۔
ٹیرف پر مبنی مسابقتی بولی میں ٹورینٹ پاور لمیٹڈ نے 6.145 روپے، للت پور پاور جنریشن کمپنی لمیٹڈ نے 6.165 روپے اور جے ایس ڈبلیو انرجی لمیٹڈ نے 6.205 روپے فی کلو واٹ کے حساب سے بجلی فراہم کرنے کی پیشکش کی تھی۔
اڈانی پاور لمیٹڈ کی جانب سے یہ بولی جیتنے کے تقریباً 20 دن بعد، یعنی 5 اگست 2025 کو بہار ریاستی کابینہ کی میٹنگ ہوئی۔
اس میٹنگ میں تقریباً ایک ہزار ایکڑ زمین سب سے کم بولی دینے والی کمپنی (اڈانی پاور لمیٹڈ) کو صرف ایک روپیہ سالانہ کے کرائے پر دینے کا فیصلہ کیا گیا۔
یہ زمین اڈانی پاور کمپنی کو 25 سال کے لیے لیز پر دی گئی ہے۔
بہار کے وزیر صنعت نتیش مشرا نے بی بی سی کو بتایا کہ ’زمین کی ملکیت مکمل طور پر ریاست بہار کے محکمہ توانائی کے پاس رہے گی۔‘
Getty Imagesپاور سیکٹر میں اڈانی کی کمپنیاں تھرمل پاور اور قابل تجدید توانائی کے شعبوں میں کام کرتی ہیںسیاسی الزامات اور جوابی الزامات
کانگریس لیڈر پون کھیرا نے بی جے پی پر اڈانی کو فائدہ پہنچانے کے لیے اختیارات کے غلط استعمال کا الزام لگایا ہے۔
انھوں نے دعویٰ کیا کہ ’1050 ایکڑ زمین بشمول 10 لاکھ آم، لیچی اور ساگون کے درختوں کے گوتم اڈانی کو ایک روپے سالانہ کے حساب سے دے دی گئی ہے۔‘
کانگریس کے الزامات کا جواب دیتے ہوئے بی جے پی کے جنرل سکریٹری ڈاکٹر نکھل آنند نے بی بی سی کو بتایا کہ ’کانگریس پارٹی میں ایک خوف سا پیدا ہو گیا ہے اور وہ بہار کے انتخابات کے اعلان سے پہلے ہی مایوس نظر آ رہی ہے۔‘
انھوں نے کہا کہ ’وزیر اعظم نریندر مودی اور بہار کے وزیر اعلیٰ نتیش کمار کی قیادت میں، ترقی کی نئی جہتیں پیدا ہو رہی ہیں۔ بہار میں ہونے والے تمام ترقیاتی کاموں کے لیے ٹینڈر دینے کا عمل مکمل طور پر شفاف ہے اور میرٹ کے بغیر کسی کو ٹینڈر الاٹ نہیں کیا جا سکتا۔‘
نکھل آنند نے کہا کہ ’کانگریس مسلسل اڈانی کو نشانہ بنا کر سیاست کر رہی ہے، جبکہ دوسری طرف صورتحال یہ ہے کہ کانگریس کی حکومت والی ریاستوں میں بھی اڈانی کی کمپنیوں کو بڑے ٹھیکے دیے جا رہے ہیں۔ کانگریس کو سیاسی وجوہات کی بنا پر اپنے دوہرے معیار کو ظاہر کرنے سے گریز کرنا چاہیے۔‘
تاہم بہار کے وزیر صنعت نتیش مشرا نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’ملک کی تمام ریاستیں ایسا کرتی ہیں۔ بڑی سرمایہ کاری کے لیے سستے داموں زمین دی جاتی ہے۔ پیرپینتی میں زمین کے حصول کا عمل 2010-11 میں ہی شروع ہو گیا تھا۔‘
انھوں نے کہا کہ ’بولی شفاف طریقے سے کی گئی تھی۔ اس میں ملک کی چار بڑی کمپنیوں نے حصہ لیا تھا۔ اڈانی گروپ نے ریاستی حکومت کو سستے داموں بجلی فراہم کرنے کے لیے بولی لگائی، جس کے بعد انھیں یہ پروجیکٹ ملا۔‘
گوتم اڈانی پر امریکہ میں ’رشوت‘ کا الزام جو انڈیا کے لیے بھی ایک کڑا امتحان ہےایرانی تیل، پابندیاں اور گوتم اڈانی: ’مودی سے قریبی تعلقات رکھنے والے‘ انڈین ارب پتی تاجر کے خلاف امریکہ میں تحقیقات کیوں ہو رہی ہیں؟انڈیا کے امیر ترین افراد میں شامل گوتم اڈانی کا وزیراعظم مودی سے کیا تعلق ہے؟دنیا کی پانچ امیر شخصیات میں شامل گوتم اڈانی، جو مصیبت اور موت کو چکمہ دینے کا ہنر بھی جانتے ہیں
دوسری جانب سی پی آئی (ایم ایل) نے 21 ستمبر کو ایک تحقیقاتی رپورٹ پیش کی، جس میں یہ دعویٰ کیا گیا ہے کہ اس پلانٹ سے بہار حکومت کو سالانہ 5000 کروڑ روپے کا نقصان ہو گا اور اس سے علاقے میں پانی کا بحران بھی پیدا ہو گا۔
پارٹی نے 22 ستمبر کو ریاست بھر میں احتجاج بھی کیا۔
بہار کی اہم اپوزیشن پارٹی راشٹریہ جنتا دل (آر جے ڈی) نے بھی اس پلانٹ پر سوالات اٹھائے ہیں اور بی جے پی کو نشانہ بنایا ہے۔
آر جے ڈی کے ترجمان چترنجن گگن نے کہا کہ ’حکومت اڈانی کو ہر طرح سے فائدہ پہنچا رہی ہے۔ دوسری ریاستوں سے آنے کے بعد اب یہ لوگ کسانوں کے حقوق غصب کرنے بہار پہنچ گئے ہیں۔ ہماری پارٹی اس کی مخالفت کرتی ہے۔‘
الزامات کا جواب دیتے ہوئے بہار کے وزیر صنعت نتیش مشرا نے کہا کہ ’یہ پروجیکٹ سب سے کم بولی کی بنیاد پر اڈانی پاور لمیٹڈ کو دیا گیا تھا۔‘
BBCبہار حکومت نے اس منصوبے کے لیے مقامی کسانوں سے تقریباً 1000 ایکڑ زمین حاصل کی ہےزمین کیسے حاصل کی گئی؟
بہار حکومت نے سنہ 2010 اور سنہ 2012 کے درمیان پیرپینتی کے پانچ دیہات میں یہ زمین حاصل کی۔ تقریباً 900 کسانوں سے کل 988.33 ایکڑ زمین حاصل کی گئی جس کے عوض انھیں ادائیگیاں کی گئیں۔
بھاگلپور کے ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ نوال کشور چودھری نے بی بی سی کو بتایا کہ ’بہار میں بجلی کی ضرورت کو تسلیم کرتے ہوئے حکومت نے کئی مقامات پر تھرمل پاور پلانٹس بنانے کا فیصلہ کیا تھا۔ اس کے تحت پیرپینتی میں زمین حاصل کی گئی تھی۔‘
وہ بتاتے ہیں کہ ’ہم نے 97 فیصد سے زیادہ لوگوں کو ادائیگی کر دی ہے۔ ان میں سے زیادہ تر ادائیگیاں بہار حکومت نے سنہ 2015 سے پہلے کی تھیں۔ بہار انڈسٹریل ایریا ڈیولپمنٹ اتھارٹی کے نام پر کسانوں سے زمین لی گئی تھی، جسے اتھارٹی نے پھر بجلی محکمہ کے حوالے کر دیا تھا۔‘
انھوں نے کہا کہ ’وہ کسان جن کے کیسز لینڈ ایکوزیشن، ری ہیبلیٹیشن اینڈ ری سیٹلمنٹ اتھارٹی بورڈ (لارہ کورٹ) یا سول کورٹ میں زیر التوا نہیں ہیں اور جن کا معاوضہ زیر التوا ہے، وہ ادائیگی کے لیے درخواست دے کر فوری رقم حاصل کر سکتے ہیں۔‘
کسان کیا دعویٰ کرتے ہیں؟
حکومتی دعوؤں کے برعکس ہمیں پیرپینتی میں بہت سے ایسے کسان ملے جن کا دعویٰ ہے کہ انھیں ابھی تک اپنی زمین کا پورا اور مناسب معاوضہ نہیں ملا ہے۔
ان کسانوں میں شیخ حامد بھی شامل ہیں جن کی ساڑھے تین ایکڑ اراضی اس پراجیکٹ میں آئی۔ اس زمین کے بدلے انھیں حکومت سے تقریباً دو کروڑ روپے کا معاوضہ دینے کا اعلان کیا گیا۔
وہ کہتے ہیں کہ ’ہمیں نصف رقم سنہ 2014 میں موصول ہوئی تھی لیکن ابھی تک تقریباً 50 فیصد رقم موصول نہیں ہوئی ہے۔‘
دوسرے کسانوں کی طرح شیخ حامد کے صاحبزادے اعجاز احمد یہ سوال پوچھتے ہیں کہ ’کسانوں سے زمین حاصل کرتے وقت شفافیت کے تقاضوں کو پورا نہیں کیا گیا۔‘
’ہمارے پاس ایک ہی جگہ آم کے چار باغات ہیں لیکن ایک باغ کی زمین کا معاوضہ 62 لاکھ روپے فی ایکڑ کے حساب سے دیا گیا جبکہ دوسرے کے لیے 82 لاکھ روپے فی ایکڑ کے حساب لگایا گیا۔‘
پیرپینتی کے رہائشی محمد عظمت کہتے ہیں کہ ’میرے پاس تقریباً ڈھائی ایکڑ زمین ہے جو سنہ 2012 میں حکومت نے چھین لی تھی۔ مجھے معاوضے کی رقم دو سال بعد ملی۔ تاہم حکومت کی جانب سے 20 فیصد رقم ابھی بھی نہیں دی گئی۔‘
ان سوالوں کا جواب دیتے ہوئے ضلع مجسٹریٹ نوال کشور چودھری کہتے ہیں کہ ’سروے کے وقت، غیر منقولہ جائیداد یعنی مکانات اور درختوں کو بھی مدنظر رکھا جاتا ہے جو حاصل کی جانی تھی۔‘
’معاوضہ کا تخمینہ اسی حساب سے لگایا گیا ہے۔ حکومت یہ کام پہلے ہی کر چکی ہے اور اب یہ سوال ہی پیدا نہیں ہوتا کہ کیا دیا گیا اور کیا نہیں۔‘
مختلف معاوضوں کے سوال پر ان کا کہنا تھا کہ ’پیرپینتی میں زمین کا حصول دو حصوں میں ہوا، سنہ 2010 میں پرانے ایکٹ کے مطابق معاوضہ دیا گیا، جب کہ سنہ 2013 میں نئے ایکٹ کے مطابق معاوضہ دیا گیا ہر کسی کی اپنی قسمت ہے کہ انھیں کتنا ملتا ہے کیونکہ انتظامیہ نے ایکٹ کے مطابق کام کیا ہے۔‘
ایک آر ٹی آئی کے جواب میں بھاگلپور لینڈ ایکوزیشن آفیسر راکیش کمار نے کہا کہ ’بہار لینڈ ایکوزیشن ری سیٹلمنٹ اینڈ ری ہیبلیٹیشن پالیسی سنہ 2007 کے تحت زرعی اراضی کے لیے 19 لاکھ روپے فی ایکڑ کی شرح سے معاوضہ دیا گیا تھا۔‘
بنجر زمین کا ریٹ 8 لاکھ 40 ہزار روپے فی ایکڑ مقرر کیا گیا۔
راکیش کمار کا کہنا ہے کہ ’معاوضہ دیتے وقت زرعی زمین پر موجود درختوں کا معاوضہ بھی الگ سے دیا گیا ہے۔‘
کتنے درخت کاٹنے پڑیں گے؟
بہار حکومت سے لیز پر لی گئی تقریباً ایک ہزار ایکڑ زمین پر پلانٹ لگانے کے لیے بڑی تعداد میں درختوں کو کاٹنا پڑے گا۔
پیرپینتی کی اس سرزمین میں آم کے گھنے باغات کئی کلومیٹر تک پھیلے ہوئے ہیں۔ آم کے سرسبز درخت جہاں تک آنکھ دیکھ سکے وہاں تک پھیلے ہوئے ہیں۔ اس علاقے کا آم کافی معروف ہے اور بیرون ملک برآمد بھی کیا جاتا ہے۔
اپوزیشن جماعتوں کا دعویٰ ہے کہ تھرمل پاور پلانٹس لگانے کے لیے 10 لاکھ درخت کاٹے جائیں گے جس کے خلاف کئی شہروں میں احتجاجی مظاہرے بھی ہوئے ہیں۔
مگر کیا پلانٹ کے لیے 10 لاکھ درخت کاٹے جائیں گے؟ اس سوال کا جواب دیتے ہوئے بھاگلپور کے ضلع مجسٹریٹ نوال کشور کہتے ہیں کہ ’ایک ہزار ایکڑ میں اتنے درخت نہیں ہو سکتے جتنا دعویٰ کیا جا رہا ہے۔ جب زمین کا حصول ہوتا ہے تو زمین پر موجود ہر گھر اور ہر درخت کی گنتی کی جاتی ہے۔‘
نیول کشور نے کہا کہ ’ہمارے اعداد و شمار کے مطابق وہاں پر 10,500 کے قریب درخت ہیں۔ یہ گنتی سنہ 2013 سے پہلے کی گئی تھی، یہ سنہ 2025 ہے اگر اس دوران کسی نے خود درخت لگائے ہیں تو اس کے بارے میں کچھ نہیں کہا جا سکتا۔‘
ریاستی صنعت کے وزیر نتیش مشرا کہتے ہیں کہ ’زمین کے حصول کے وقت وہاں تقریباً 10,000 درخت تھے۔ ان سب کو نہیں کاٹا جائے گا۔ پاور پلانٹ کے علاقے (300 ایکڑ) اور کول ہینڈلنگ ایریا میں صرف چند درخت کاٹے جائیں گے۔‘
انھوں نے کہا کہ ’اس کے بدلے میں شجرکاری کے تحت 100 ایکڑ پر گرین بیلٹ تیار کی جائے گی۔‘
درختوں کی اصل تعداد متنازع ہے۔ بی بی سی نے تھرمل پاور پراجیکٹ کی بولی سے متعلق ایک سرکاری دستاویز حاصل کی ہے جس میں بتایا گیا ہے کہ حاصل کی گئی تقریباً 400 ایکڑ اراضی پر تقریباً 300,000 درخت ہیں۔
جب ہم آم کے باغات میں پہنچے تو دیکھا کہ درختوں کی گنتی جاری ہے۔ تنوں کو چھیل کر نمبر لگائے جا رہے ہیں۔ یہ کام ابھی مکمل نہیں ہوا تھا۔
ماحولیاتی مسئلہ
درختوں کے لیے ماحولیاتی منظوری حاصل کرنے کے سوال پر بھاگلپور کے ضلع مجسٹریٹ نے کہا کہ ’ابھی اس معاملے میں کام جاری ہے۔‘
ان درختوں کی کٹائی کے امکان نے ماحولیاتی کارکنوں کو پریشان کر دیا ہے۔ ’کسان چیتنا ایوام اتھان سمیتی‘ نامی تنظیمکے صدر شراون کمار اس معاملے کو نیشنل گرین ٹریبونل (کولکتہ) میں لے گئے ہیں۔
انھوں نے ٹریبونل سے شکایت کی ہے کہ تھرمل پاور پلانٹ پر پابندی لگائی جائے کیونکہ پلانٹ لگانے سے تقریباً 10 لاکھ درخت کاٹے جائیں گے جو ماحولیاتی نقطہ نظر سے بہت خطرناک ہے۔
بی بی سی سے بات کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ ’اس علاقے کے 20 کلومیٹر کے دائرے میں پہلے سے ہی دو تھرمل پلانٹ کام کر رہے ہیں، ایسے میں نئے تھرمل پاور پلانٹ سے آلودگی میں مزید اضافہ ہو گا۔‘
بی بی سی نے کئی بار بہار سٹیٹ پاور جنریشن کمپنی لمیٹڈ اور اڈانی پاور لمیٹڈ سے درختوں کی کٹائی پر جواب جاننے کی کوشش کی لیکن ناکامی ہوئی۔
ادھر بھاگلپور فاریسٹ ڈویژن کی افسر شویتا کماری کا کہنا ہے کہ’فی الحال انھیں درختوں کی کٹائی کے حوالے سے کوئی درخواست موصول نہیں ہوئی ہے۔‘
یاد رہے کہ وزیر اعظم نریندر مودی نے رواں ماہ 15 ستمبر کو اڈانی گروپ کے اس تھرمل پاور پلانٹ کا سنگ بنیاد رکھا ہے۔
اس سے مقامی کسانوں کی پریشانی میں مزید اضافہ ہو گیا ہے۔ اپنے باغ میں آم کے درخت دکھاتے ہوئے شیخ حامد کہتے ہیں کہ ’ہماری زمین پر آم کے 125 درخت، 45 ساگون کے درخت، 10-15 جامن کے درخت اور 10 بیجو آم کے درخت ہیں۔‘
محمد عظمت نے تقریباً ڈھائی ایکڑ اراضی پر آم کے درخت لگا رکھے ہیں۔
وہ کہتے ہیں کہ ’حکومت اپنی آمدنی کے لیے یہاں کام کرنا چاہتی ہے مگر یہاں تو پہلے سے ہی ہماری روزی لگی ہوئی ہے۔ ان درختوں سے ہم سالانہ پانچ لاکھ روپے کما رہے ہیں اور اگر درخت نہیں ہوں گے تو مجھے کہیں مزدوری کرنی پڑے گی۔‘
’نہ صرف درخت بلکہ مکانات بھی گرا دیے جائیں گے‘
تھرمل پاور پلانٹ کے لیے نہ صرف درخت کاٹنا پڑیں گے بلکہ بہت سے مکانات کو بھی گرانا پڑے گا کیونکہ یہ بھی منصوبے کی راہ میں حائل ہیں۔
پیرپینتی کے گاؤں کمال پور میں تقریباً 300 گھرانے ہیں۔ یہاں کے تقریباً 50 گھرانوں کو 15 دنوں کے اندر اندر گھر خالی کرنے کے نوٹس موصول ہوئے ہیں۔
انل یادو کی آنکھوں میں ان کے گھر سے نکالے جانے کا خوف واضح ہے۔ چھ بھائیوں اور 50 ارکان پر مشتمل اس خاندان کو 15 دن کے اندر اپنا گھر چھوڑنا ہو گا۔
وہ کہتے ہیں کہ ’معاوضے کی جو رقم ملی ہے وہ اتنی نہیں ہے کہ اس سے ہم کسی دوسرے علاقے میں نیا گھر بنا سکیں۔‘
رینا کماری بھی ایسی ہی کشمکش کا شکار ہیں۔ حکومت ان کے خاندان کو زمین اور مکان کے معاوضے کی صورت میں تقریباً 10 لاکھ روپے دینے کا وعدہ کیا ہے مگر یہ خاندان اسے قبول کرنے کو تیار نہیں۔
رینا کہتی ہیں کہ ’حکومت جتنا معاوضہ دے رہی ہے وہ اتنا ہے کہ آپ کو کہیں اور آپ کو پلاٹ بھی نہیں ملے گی۔ اتنی مہنگائی میں ہم اپنے بچوں کے ساتھ کہاں جائیں گے؟‘
ان کے لیے ان کے سروں پر سے چھت کھونے کا خطرہ ہر روز بڑھتا جا رہا ہے۔ ان لوگوں کا کہنا ہے ’کہ یہ کیسی ترقی ہے، یہ ہمارے ساتھ ناانصافی ہے، ہمیں اپنے ہی گھروں سے نکالا جا رہا ہے، وزیر افتتاح کرنے آئے، فیتہ کاٹ کر چلے گئے، جن کو بے گھر کیا جا رہا ہے، ان سے کوئی بات کرنے نہیں آیا۔‘
رینا کہتی ہیں کہ ’ہم کسی بھی حالت میں اپنے گھر نہیں چھوڑیں گے۔ حکومت کو پہلے ہماری بحالی کرنی چاہیے، جس کے بارے میں کوئی بات نہیں کر رہا ہے۔‘
ہم نے رینا کا یہ سوال بھاگلپور کے ضلع مجسٹریٹ کے سامنے رکھا۔
اس کے جواب میں انھوں نے کہا کہ ’اگر کسی کا گھر گرانا ہے تو اسے معاوضہ دیا گیا ہے۔ ہمیں لوگوں سے ہمدردی ہے وہ کہیں اور گھر بنائیں ہم دیکھیں گے کہ کس سرکاری سکیم کے تحت انھیں فائدہ پہنچایا جا سکتا ہے۔‘
دنیا کی پانچ امیر شخصیات میں شامل گوتم اڈانی، جو مصیبت اور موت کو چکمہ دینے کا ہنر بھی جانتے ہیںگوتم اڈانی نے اسرائیلی بندرگاہ کا سودا اتنے مہنگے داموں کیوں کیا؟’کارپوریٹ تاریخ کے سب سے بڑے دھوکے‘ کا الزام: انڈین ارب پتی کی دولت سے دو دن میں 20 ارب ڈالر کا صفایاایرانی تیل، پابندیاں اور گوتم اڈانی: ’مودی سے قریبی تعلقات رکھنے والے‘ انڈین ارب پتی تاجر کے خلاف امریکہ میں تحقیقات کیوں ہو رہی ہیں؟گوتم اڈانی پر امریکہ میں ’رشوت‘ کا الزام جو انڈیا کے لیے بھی ایک کڑا امتحان ہےانڈیا کے امیر ترین افراد میں شامل گوتم اڈانی کا وزیراعظم مودی سے کیا تعلق ہے؟