’ہمیں سمجھ نہیں آ رہی تھی کہ ہم بیوی بچوں کو لے کر کہاں جائیں؟ وہ لوگ بار بار لاوڈ سپیکر پر اعلان کر رہے تھے کہ آپ لوگ کسی اور جگہ چلے جائیں، ورنہ ہم آپ کے گھروں کو بھی آگ لگا دیں گے۔‘
یہ کہنا ہے پاکستان کے صوبہ پنجاب کے ضلع سیالکوٹ کے ایک گاؤں پیروچک کے رہائشی عمران کا جن کا تعلق احمدی برادری سے ہے۔ ان کی شناخت کے تحفظ کے لیے فرضی نام استعمال کیا جا رہا ہے۔
28 ستمبر کو سیالکوٹ کے تھانہ موترہ میں پولیس کی مدعیت میں ایک سو سے زیادہ افراد کے خلاف انسداد دہشتگردی کی دفعات کے تحت مقدمہ درج کیا گیا ہے جس میں درجنوں افراد پر توہین مذہب، احمدی برادری کی املاک کے جلاؤ گھیراؤ، پولیس پارٹی پر حملے سمیت دیگر الزامات عائد کیے گئے ہیں۔
سیالکوٹ پولیس کے ترجمان خرم شہزاد کے مطابق مقدمے میں نامزد 17 ملزمان کو گرفتار کر لیا گیا ہے۔
یہ کشیدگی 21 ستمبر کو شروع ہوئی تھی جب ایک احمدی خاتون کی مقامی قبرستان میں تدفین کو روکا گیا تھا۔
جماعت احمدیہ پاکستان کے ترجمان عامر محمود کے مطابق پیرو چک ضلع سیالکوٹ کے قدیم قبرستان میں گذشتہ ڈھائی سال سے احمدیوں کو تدفین کی اجازت نہیں دی جا رہی اور انھیں اب دوردراز علاقوں میں جا کر تدفین کرنا پڑتی ہے۔
ادھر ڈپٹی کمشنر سیالکوٹ صبا اصغر علی کا کہنا تھا کہ پیرو چک میں امن و امان سے متعلق ضروری اقدامات کر لیے گئے ہیں اور پولیس اپنی کارروائی عمل میں لا رہی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ قبرستان کے معاملے کو بھی جلد حل کر لیا جائے گا، اس سلسلے میں مشاورت جاری ہے اور قانونی پہلوؤں کو مدنظر رکھا جا رہا ہے۔
’ساری رات سوچتا رہا کہ کس جرم کی سزا مل رہی ہے‘Getty Imagesفائل فوٹو
کاشتکاری سے منسلک عمران کا کہنا ہے کہ ان کے خاندان کی کئی نسلیں اسی گاؤں میں رہتی رہی ہیں مگر کبھی ایسے حالات پیدا نہیں ہوئے۔ جب بھی وہ صبح کام کے لیے نکلتے ہیں تو انھیں ڈر رہتا ہے کہ ’کوئی مجھے گولی مار دے گا یا میری غیرموجودگی میں گھر کو آگ لگا دے گا۔‘
عمران نے بی بی سی کو بتایا کہ 28 ستمبر کی شام گھر واپسی پر انھوں نے ایک جامع مسجد کے باہر کچھ لوگوں کو اکٹھا دیکھا۔ ’میں سمجھ گیا تھا کہ آج پھر حالات گڑبڑ ہیں۔ میں وہاں سے تیزی سے آگے گھر کی طرف نکل گیا اور گھر جاتے ہی بیوی بچوں کو کہا کہ فوراً ضروری سامان سمیٹو۔۔۔ میرا ارادہ یہاں سے 14 کلو میٹر دور ایک گاؤں جانے کا تھا جہاں رشتے دار رہتے ہیں۔‘
پیکنگ کے دوران انھوں نے لاؤڈ سپیکر پر اعلانات سنے جن میں ان کے مطابق احمدی برادری سے تعلق رکھنے والوں کو ’کھلے عام دھمکی دی جار ہی تھی کہ ہمارا علاقہ چھوڑ دو ورنہ ہم آپ کے گھروں کو آگ لگا دیں گے۔‘
ان کے بیٹے نے گلی میں شور سنا اور باہر جھانکا تو معلوم ہوا کہ ’کچھ لوگ ہاتھوں میں ڈنڈے اٹھائے نعرے لگاتے ہوئے آ رہے تھے۔ بیٹے نے جلدی سے اندر سے کنڈی لگا لی۔‘
احمدیوں کو مذہبی اقلیت قرار دینے کے 50 برس: ’آپ سوچیں کیا احساس ہو گا جب بچے کے سامنے باپ گھنٹوں مردہ حالت میں پڑا ہو‘’اپنی جان بچانے آئے تھے مگر یہاں بار بار مر رہے ہیں‘: پاکستان چھوڑ کر نیپال جانے والے احمدی کس حال میں ہیں؟قربانی کرنے کے الزام میں ’احمدیوں کے خلاف کارروائیاں‘: ’پولیس والے ہمارا تین ماہ کا پالتو بکری کا بچہ بھی لے گئے‘’پولیس ہمارے فریج سے قربانی کا گوشت نکال کر لے گئی‘ پاکستان میں احمدیوں کی عید ڈر ڈر کر گزری
عمران کے مطابق ’ہماری ہمسائی نے میری بیوی کو آواز دی کہ بال بچے لے کر ہمارے گھر آجاؤ۔ یوں میری بیوی اور بچے سیڑھیوں کے ذریعے گھر کی چھت پر پہنچے اور چھت کی دیوار پھلانگ کر ہمسائیوں کے گھر چلے گئے۔۔۔ ان کے اس طرز عمل سے لگا کہ انسانیت ابھی دلوں میں باقی ہے۔‘
وہ خود ’اپنے گھر کی چھت سے گلی میں نعرے بازی کا منظر دیکھ رہے تھے۔ (میں) اس جگہ کھڑا تھا جہاں سے میں مظاہرین کو نظر نہ آسکوں ورنہ وہ مجھے دیکھ کر مشتعل ہوسکتے تھے۔‘
وہ یاد کرتے ہیں کہ ’انھوں نے ہمارے گھر کے باہر کھڑے ہو کر کچھ دیر نعرے لگائے اور پھر وہاں سے واپس چلے گئے۔ میری بیوی اور بچے اس رات ہمسائیوں کے گھر سوئے تاکہ کہیں آدھی رات کو پھر سے مظاہرین نہ آجائیں جبکہ میں اپنے گھر کی چھت پر ہی رہا۔‘
28 ستمبر کے واقعے پر درج مقدمے میں پولیس کا کہنا ہے کہ مقامی لوگوں کو احمدی برادری سے منسلک افراد کے خلاف مشتعل کیا گیا اور دکانوں اور ڈیروں پر آتشزنی کی گئی۔ ’تمام مظاہرین آتشیں اسلحہ اور ڈنڈوں سے مسلح تھے۔‘
مقدمے میں تھانیدار نے لکھا کہ جب لوگوں کو منتشر کرنے کے لیے جائے وقوعہ پر پولیس پارٹی پہنچی تو ’مظاہرین پولیس پر چڑھ دوڑے، کانسٹیبل ظہیر سرور اور کانسٹیبل محمد احمد سے سرکاری ایس ایم جی رائفلیں چھین لی گئیں۔ نفری کی کمی کے باعث ان پر فوری قابو پانا ممکن نہ تھا۔ لہذا مزید نفری طلب کرنے کے لیے بذریعہ وائر لیس پولیس کنٹرول روم رابطہ کیا گیا جس کے بعد امدادی پولیس نفری موقع پر پہنچ گئی۔‘
تنازع آخر کیسے شروع ہوا؟Getty Images
ایف آئی آر کے مطابق 21 ستمبر کو گاؤں پیرو چک میں ایک احمدی خاتون کی وفات کے بعد ان کی تدفین میں رکاوٹ ڈالی گئی تھی اور احمدی برادری کے خلاف مذہبی منافرت اور دشمنی کو فروغ دے کر امن و امان کی صورتحال خراب کر دی گئی تھی۔
جماعت احمدیہ پاکستان کے ترجمان 2022 میں سیالکوٹ کی ضلعی امن کمیٹی کی سفارشات کا حوالہ دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ ’اس قبرستان کی الاٹمنٹ قیام پاکستان کے بعد احمدیوں کو ہوئی تھی۔ یہاں پہلے سے آباد دیگر مسالک سے وابستہ مقامی برادری کو دوسرے مسالک کے افراد نے اپنے قبرستان میں دفن نہیں ہونے دیا تو جماعت احمدیہ کے افراد نے انسانی ہمدردی کے تحت انھیں اپنے قبرستان میں تدفین کی اجازت دی جو 2022 تک جاری رہی۔ یوں اس قبرستان میں احمدی برادری کی قبروں کی تعداد 220 ہے جبکہ دیگر مسالک کے 100 کے قریب افراد دفن ہیں۔‘
ان کا کہنا تھا کہ پیروچک میں قبرستان کے مسئلے پر تین سالوں سے کشیدگی چلی آ رہی ہے اور قبرستان میں تدفین پر غیرقانونی پابندی عائد ہے۔ ’ضلعی انتظامیہ معاملے کا کوئی فیصلہ نہیں لے پا رہی۔ تین سال پہلے امن کمیٹی کو اس معاملے کی چھان بین کرنے کی ذمہ داری سونپی گئی تھی جس نے محکمہ ریونیو کا ریکارڈ بھی چیک کیا اور 14 نومبر 2022 کو جاری کردہ اپنی رپورٹ میں یہ تسلیم کیا ہے کہ یہاں پر زیادہ تعداد میں احمدی برادری کی قبریں ہیں۔‘
Getty Imagesفائل فوٹو
دوسری طرف ڈی پی او سیالکوٹ فیصل شہزاد کا کہنا ہے کہ تھانہ موترہ کے علاقے پیرو چک میں کشیدگی کے بعد پولیس کی بروقت کارروائی سے امن و امان بحال ہوا اور اب تک 250 افراد کے خلاف مقدمہ درج کیا جا چکا ہے اور 17 افراد کو گرفتار کیا گیا ہے۔
انھوں نے بتایا کہ پیرو چک میں سابقہ رنجش کے باعث دو گروہوں میں تصادم ہوا ہے جس کے نتیجے میں پانچ افراد زخمی ہوئے ہیں جبکہ بعض نجی املاک کو بھی جزوی طور نقصان پہنچا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ ’پولیس نے واقعے کی اطلاع ملتے ہی فوری کارروائی کرتے ہوئے موقع پر پہنچ کر حالات پر قابو پا کرامن و امان بحال کر دیا۔ جبکہ حملہ آور گروہ کے 31 نامزد اور متعدد نامعلوم افراد کے خلاف انسدادِ دہشت گردی کی دفعات کے تحت مقدمہ درج کر کے اب تک 17 ملزمان کو گرفتار کرلیا ہے۔ دیگر کی گرفتاری کے لیے چھاپے مارے جا رہے ہیں۔‘
ڈی پی او سیالکوٹ فیصل شہزاد نے واضح کیا ہے کہ کسی بھی فرد یا گروہ کو قانون ہاتھ میں لینے اور امن خراب کرنے کی ہرگز اجازت نہیں دی جائے گی۔ انھوں نے کہا کہ قانون کی بالادستی کو ہر صورت یقینی بنایا جائے گا اور انصاف کے تقاضے پورے کیے جائیں گے۔
خیال رہے یہ اپنی نوعیت کا پہلا واقعہ نہیں ہے۔ گذشتہ برس حکومت کے قومی کمیشن برائے انسانی حقوق (این سی آر ایچ) نے اقلیتوں کے حقوق کے بارے میں ایک رپورٹ شائع کی جس کا عنوان تھا ’مانیٹرنگ دی پلائیٹ آف دی احمدیہ کمیونٹی۔‘
رپورٹ کے مطابق سنہ 1984 سے 2024 تک احمدی برادری کے 280 افراد صرف مذہبی عقیدے کی وجہ سے قتل کیے جا چکے ہیں اور 415 دیگر افراد اپنے عقیدے کی وجہ سے حملوں کا نشانہ بنے ہیں۔
احمدی برادری اگر زندہ ہوتے ہوئے محفوظ نہیں تو مرنے کے بعد بھی اُنھیں وہ حفاظت نہیں ملتی جو کہ ریاست کی ذمہ داری ہے۔
اس رپورٹ کے مطابق جنوری 2023 سے ستمبر 2023 تک کے اعداد و شمار (نو ماہ) کا اگر جائزہ لیا جائے تو یہ کافی پریشان کن ہیں۔
رپورٹ کے مطابق 39 معاملات میں تدفین کے بعد احمدی برادری کے افراد کی لاشوں کو قبروں سے نکال لیا گیا، 99 معاملات میں قبروں کی بے حرمتی کی گئی اور 96 کیسز میں احمدی برادری کے افراد کو مشترکہ قبرستان میں تدفین کی اجازت نہیں دی گئی۔
’اپنی جان بچانے آئے تھے مگر یہاں بار بار مر رہے ہیں‘: پاکستان چھوڑ کر نیپال جانے والے احمدی کس حال میں ہیں؟پاکستان کی احمدیہ برادری: ’فتوی آ گیا ہے، اس لڑکی کو قبر سے نکالو کیونکہ ہمارے مُردوں کو عذاب ہوتا ہے‘انڈیا میں احمدی برادری کو غیر مسلم قرار دینے کے معاملے پر کیا تنازع چل رہا ہے؟ احمدیوں کو مذہبی اقلیت قرار دینے کے 50 برس: ’آپ سوچیں کیا احساس ہو گا جب بچے کے سامنے باپ گھنٹوں مردہ حالت میں پڑا ہو‘قربانی کرنے کے الزام میں ’احمدیوں کے خلاف کارروائیاں‘: ’پولیس والے ہمارا تین ماہ کا پالتو بکری کا بچہ بھی لے گئے‘’پولیس ہمارے فریج سے قربانی کا گوشت نکال کر لے گئی‘ پاکستان میں احمدیوں کی عید ڈر ڈر کر گزری