Getty Images
پچھلے برس جب چیئرمین پی سی بی محسن نقوی نے پاکستان کرکٹ ٹیم میں ’میجر سرجری‘ کا عندیہ دیا تھا تو شاید اُن کا گمان تھا کہ جیسے وہ چھ ماہ کے قلیل عرصے میں پورا سٹیڈیم ڈھا کر اس کی جگہ نئی عمارت کھڑی کر سکتے ہیں، ویسے ہی چھ ماہ میں نئی ٹیم بھی بن جائے گی۔
پچھلے ٹی ٹونٹی ورلڈ کپ سے حالیہ ایشیا کپ کے دوران ایک سال سے زیادہ وقت میسر تھا مگر فیصلہ ساز چھ ماہ گومگو میں الجھے رہے اور جب تک ٹیم کو معلوم پڑتا کہ اس کا کُل وقتی کوچ اور مستقل کپتان کون ہے، ایونٹ میں صرف چھ ہی ماہ بچے تھے۔
اب یہاں یہ تعین کرنا ضروری ہے کہ جس ڈگر پر پاکستان کرکٹ نے آگے بڑھنے کا سوچا تھا، کیا وہ اس پر دو قدم بڑھا کر جمود توڑ پائی ہے یا انحطاط جُوں کا تُوں ہے؟
ٹی ٹونٹی ورلڈ کپ 2024 میں پاکستان نے گروپ سٹیج کے جو چار میچز کھیلے، وہاں ٹیم کی بیٹنگ اوسط 20.41 رنز تھی۔ یعنی ہر وکٹ کے بدلے پاکستانی بیٹنگ 20 رنز حاصل کرنے کے قابل تھی۔ (امریکہ کے خلاف سپر اوور کا ڈیٹا ان اعدادوشمار کا حصہ نہیں ہے۔)
اُن چار میچز میں بولنگ استعداد کی پیمائش کی جائے تو بولنگ اوسط 16.89 رہی۔ یعنی ایک وکٹ حاصل کرنے کے لیے پاکستانی بولنگ لگ بھگ 17 رنز دے رہی تھی۔
ان اعدادوشمار نے نہ صرف پاکستان کو ایونٹ کے پہلے ہی راؤنڈ سے بے دخلی کا پروانہ تھمایا تھا بلکہ پاکستان میں پنپتی سالہا سال کی وہ بحث بھی انجام کو پہنچی تھی کہ ہمیں رضوان و بابر جیسے بلے بازوں سے آگے سوچنے کی ضرورت ہے۔
اس دوران ایک نئی ٹی ٹونٹی اپروچ اپنانے کا فیصلہ کیا گیا اور پرانی ٹیم کو یکسر ڈھا کر اس کی جگہ ایک نئی عمارت کھڑی کرنے کی کوشش کی گئی جہاں بیٹنگ اوسط کی بجائے سٹرائیک ریٹ زیادہ اہم ٹھہرے۔ اب اس اپروچ کے ثمرات کا جائزہ بھی لازم ہے۔
Getty Imagesفائنل میں کئی نشیب و فراز آئے لیکن اخیر میں پاکستانی فینز کی مایوسی ظاہر تھی
ایشیا کپ 2025 میں پاکستان نے فائنل سے پہلے جو چھ میچز کھیلے، اس کی ٹیم بیٹنگ اوسط 20.39رنز رہی جو کہ ورلڈ کپ 2024 کے مقابلے میں 0.02 رنز کم نکلی۔
جبکہ بولنگ میں موازنہ کیا جائے تو پاکستانی بولرز نے ایک وکٹ کمانے کے لیے 16.68 رنز دیے جو ورلڈ کپ کے مقابلے میں 0.21 رنز زیادہ رہی۔
اگرچہ ورلڈ کپ کی پلیئنگ کنڈیشنز اور ایشیا کپ کی پلیئنگ کنڈیشنز مزاجاً متضاد تھیں کیونکہ امریکی پچز پر پیس کو برتری حاصل تھی جبکہ امارات میں حسبِ روایت سپنرز کو غلبہ حاصل تھا لیکن مجموعی طور پہ دیکھا جائے تو ان دونوں ایونٹس میں بولنگ نسبتاً آسان اور بیٹنگ نسبتاً مشکل تھی۔
دونوں ایونٹس کے اعدادوشمار کا تقابل ہمیں بتلاتا ہے کہ پاکستان کرکٹ پچھلے سوا سال میں ایک قدم بھی آگے نہیں بڑھ پائی۔ گو سٹارڈم اور تجربے کے موازنے میں حالیہ ٹیم کی کارکردگی بہرحال قابلِ رشک ہے مگر بنیادی مسائل اب بھی وہیں کے وہیں ہیں۔
’پاکستان نے ہی پاکستان کو روک دیا‘انڈین ٹیم کی بغیر ٹرافی روانگی، ’کھیل کے میدان میں آپریشن سندور‘ کے تذکرے پر محسن نقوی کا جواب: ایشیا کپ کے فائنل کے بعد کیا ہوا؟انڈیا بمقابلہ پاکستان: کیا ’یکطرفہ کرکٹ میچوں‘ کی وجہ سے روایتی حریفوں کے درمیان مقابلوں کا رنگ پھیکا پڑ گیا ہے؟ابھیشیک شرما: جارح مزاج انڈین اوپنر جنھوں نے بچپن میں ہونے والی پیشن گوئی کو حقیقت میں بدل دیا
سٹرائیک روٹیشن کا مسئلہ سلمان آغا کی ٹیم میں بھی ویسا ہی ہے جیسا اُن سے پہلے بابر اعظم کی ٹیم میں تھا اور کبھی ان سے پہلے شاہد آفریدی کی ٹیم میں تھا اور ان سے بھی پہلے مصباح اور حفیظ کی ٹیموں میں بھی تھا۔
واحد نکھار جو پاکستان اپنے کھیل میں لا پایا، وہ یہ ہے کہ بابر و رضوان کے ہوتے جو ٹیم چوکوں پر انحصار کرتی تھی اب صائم و صاحبزادہ کے ہوتے ہوئے چھکوں پر انحصار کرتی ہے۔ اچھی بولنگ کے خلاف سٹرائیک روٹیشن پاکستان کے لیے آج بھی ویسا ہی معمہ ہے جیسا آج سے دو دہائیاں پہلے تھا۔
سوال یہ ہے کہ انڈیا کے خلاف فائنل گنوانے کے بعد کیا پھر سے اس ٹیم کو آپریشن تھیٹر منتقل کر دینا چاہیے اور ضمنی سرجری کر کے کچھ پرانے پرزے ویسے ہی واپس لگا دینے چاہییں جیسے پچھلے ورلڈ کپ سے عین پہلے لگائے گئے تھے؟
Getty Imagesبابر اعظم اور محمد رضوان کی واپسی ممکن نظر آتی ہے کیا؟
اگلا ٹی ٹونٹی ورلڈ کپ اب صرف چار ماہ کی دوری پر ہے۔
ایشیا کپ کا حالیہ تجربہ پاکستان کو بتا چکا ہے کہ سپن دوست پچز پر اِس کا موجودہ مڈل آرڈر کارگر نہیں ہو سکتا۔ جو اینکرنگ کردار سلمان آغا کو نبھانا تھا، وہ کہیں دکھائی تک نہیں دیا۔ محض بطور کپتان اُن کے لیے ٹیم میں اپنی جگہ برقرار رکھنا مشکل ہو گا مگر فی الوقت آدھی تعمیر شدہ عمارت کو ڈھا کر چار ماہ میں نئی عمارت بنانے کی کاوش بھی حماقت سے کم نہ ہو گی۔
سری لنکن پچز پر اچھی کرکٹ کھیلنے کے لیے، پاکستان کو نہ صرف اپنے مڈل آرڈر میں کسی مستند بلے باز کی ضرورت ہو گی بلکہ تزویراتی لحاظ سے ہیڈ کوچ مائیک ہیسن کو بھی سپن پچز کے رویے سمجھنا ہوں گے۔ ہیسن کا بیشتر کوچنگ کریئر فاسٹ پچز پر ٹیمیں تیار کرتے گزرا ہے۔
ایشیا کپ سے سلمان آغا اور مائیک ہیسن کے لیے سبق ہے کہ سپن پچز پر سٹریٹیجی بناتے وقت لازم ملحوظ رکھیے کہ بھلا پہلے دس اوورز میں گیند کا مزاج کیا رہتا ہے اور آخری دس اوورز میں کیا۔
ساتھ ہی یہ جاننا بھی ضروری ہے کہ اگر مجموعے کے دفاع میں بولنگ کرنا ہو تو ڈیتھ اوورز میں ریورس سوئنگ تبھی میسر آ پائے گی جب کنڈیشنز اوس زدہ نہ ہوں ورنہ سپنرز ہی کارگر رہتے ہیں۔
کیا اس ٹیم کو مزید سرجری کی ضرورت ہے؟ شاید نہیں۔ مگر سری لنکن کنڈیشنز کے لیے بہرحال اسے اپنی مڈل آرڈر بیٹنگ میں ایک دو تجربہ کار ہاتھوں کا ساتھ ناگزیر ہے جو نہ صرف سپن سے نمٹنا جانتے ہوں بلکہ پریشر میچز میں نو آموز بلے بازوں کو راہ بھی دکھلا سکتے ہوں۔
’یہی ناٹ فیورٹ پاکستان کی خوبی بھی بن سکتا ہے‘شاہین آفریدی کا پہلے سے زیادہ ’خطرناک ورژن‘ اور بنگلہ دیش کے خلاف ’معجزاتی‘ جیتانڈیا بمقابلہ پاکستان: کیا ’یکطرفہ کرکٹ میچوں‘ کی وجہ سے روایتی حریفوں کے درمیان مقابلوں کا رنگ پھیکا پڑ گیا ہے؟ابرار احمد اور ہسرنگا کی ’سپورٹس مین سپرٹ‘ کا چرچا: ’یہ وہ چیز ہے جو انڈین کرکٹ ٹیم کبھی نہیں سیکھ سکتی‘’سوال اب ہاتھ ملانے کا نہیں، پنجہ آزمانے کا ہے‘