BBCایشیتا بتاتی ہیں کہ 8 جولائی کو یاد کر کے وہ آج بھی سہم جاتی ہیںBBCحادثے میں ہاتھ گنوانا نہ ایشیتا کے لیے اور نہ ان کے والدین کے لیے قابل قبول ہے
’ہم دونوں ایک دو دن سے ایک دوسرے سے ناراض تھے، مجھے اس دن سکول نہیں جانا تھا لیکن میں صرف اپنے دوست کو منانے سکول گئی تھی لیکن مجھے نہیں معلوم تھا کہ وہ ہماری آخری ملاقات ہوگی۔‘
’سکول میں لگا ایک بڑا درخت اچانک ہم پر آ گر گیا، میرا بازو شل ہو گیا اور میری دوست کا سر خون میں نہا گیا۔‘
یہ الفاظ 18 سالہ ایشیتا شرما کے ہیں جو انھوں نے اپنے ساتھ پیش آنے والے اس خوفناک حادثے کو یاد کرتے ہوئے کہے جس میں ان کا ایک بازو چلا گیا اور ان کی دوست کی زندگی۔
آج سے تین سال قبل ایشیتا کی عمر 15 سال تھی جب ان کے سکول میں کھڑا پیپل کا درخت اچانک ان پر آن گرا تھا۔ اس حادثے میں ایشیتا کا بایاں بازو شدید زخمی ہوگیا اور پھر سرجری کے بعد بازو کاٹنا پڑا۔
حادثے میں بازو کھونے کا درد ایشیتا اور ان کے والدین کے لیے ناقابل برداشت ہے۔
لیکن گذشتہ 29 ستمبر کو پنجاب-ہریانہ ہائی کورٹ کے فیصلے سے خاندان کو کچھ راحت ملی ہے۔
مرنے والی اور زخمی طالب علم کے اہل خانہ کی طرف سے دائر کیے گئے ایک مقدمے کی سماعت کرتے ہوئے پنجاب-ہریانہ ہائی کورٹ نے چندی گڑھ انتظامیہ کو حکم دیا ہے کہ وہ مرنے والی طالبہ کے خاندان کو ایک کروڑ روپے اور زخمی ایشیتا شرما کے خاندان کو 50 لاکھ روپے کا معاوضہ ادا کرے۔
عرضی داخل کرنے کے وقت زخمی ایشیتا شرما نابالغ تھی۔ اس وجہ سے عدالتی احکامات کی وجہ سے ان کا نام ظاہر نہیں کیا گیا۔ اب اس کیس میں فیصلے کے وقت ایشیتا شرما کی عمر 18 سال سے زیادہ ہے اس لیے انھوں نے بی بی سی پنجابی سے بات چیت کے دوران اپنے ساتھ پیش آنے والے حادثے کی معلومات دی ہیں۔
BBCایشیتا شرما کے والدین نے بتایا کہ سکول والوں نے کلاس رومز میں کھانے سے منع کر رکھا تھاحادثہ کیسے ہوا؟
وہ بتاتی ہیں کہ آٹھ جولائی سنہ 2022 کو، چندی گڑھ کے سیکٹر 9 میں کارمل کانوینٹ سکول کی حدود میں سکول کی دیوار کے ساتھ کھڑے 250 سال پرانے پیپل کے درخت کے نیچے بہت سے طلباء اپنا دوپہر کا کھانا کھا رہے تھے۔ تقریباً 11:30 بجے یہ تاریخی درخت اچانک طلباء پر گر گیا۔
اس واقعے کے دوران 15 سالہ ہیراکشی کی موت ہوگئی جبکہ 15 سالہ ایشیتا شرما کا بازو ناکارہ ہو گيا جسے کاٹنا پڑا۔ اس کے علاوہ ایک خاتون بس اٹینڈنٹ سمیت 15 سے زائد افراد زخمی ہوگئے۔
اس واقعے کے بعد متاثرہ کے اہل خانہ نے سکول کو ذمہ دار ٹھہرایا۔ ایشیتا شرما کے والدین کا کہنا ہے کہ سکول نے طلبہ کو کلاس روم کے اندر کھانے کی اجازت نہیں دی، جس کی وجہ سے طلبہ ایک درخت کے نیچے بیٹھ کر کھانا کھانے پر مجبور ہوئے۔
ان کا استدلال یہ بھی تھا کہ 250 سال پرانے درخت کی دیکھ بھال کی ذمہ داری صرف چندی گڑھ انتظامیہ پر ہے تو پھر درخت کے کھوکھلا ہو جانے پر اس کی طرف کیوں کوئی توجہ نہیں دی گئی۔
دوسری جانب چندی گڑھ کی انتظامیہ نے اپنے دفاع میں واقعے کو ’بھگوان کی کرنی‘ قرار دیا۔
ہیراکشی کے اہل خانہ نے کیا کہا؟
ہلاک ہونے والی طالب علم کے والد پنکج کمار نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ وہ ہائی کورٹ کے فیصلے کا احترام کرتے ہیں۔
انھوں نے کہا: ’یہ حادثہ انتظامیہ کی لاپرواہی کی وجہ سے پیش آیا، جس کی وجہ سے ہم مسلسل انصاف کا مطالبہ کر رہے تھے۔ میری بیٹی کبھی واپس نہیں آئے گی، لیکن معاوضے کی رقم سے ایشیتا کا اچھا علاج ہو گا، اور ہم اس سے مطمئن ہیں۔‘
ایشیتا اس دن سکول نہیں جانا چاہتی تھی۔
8 جولائی سنہ 2022 کی صبح 15 سالہ ایشیتا شرما اس دن صرف اس لیے سکول گئی تھیں کہ وہ اپنی ناراض بہترین دوست کو منا سکیں۔
دوسرے دوست بھی ان کے ساتھ تھے اور منانے کی کوشش کر رہے تھے۔
پہلے نصف کے بعد تمام دوست تقریباً گیارہ بجے سکول میں موجود 250 سال پرانے تاریخی درخت (پیپل کے درخت) کے نیچے دوپہر کا کھانا کھانے بیٹھ گئے۔
ایشیتا کہتی ہیں: ’کھانا ختم کرنے کے بعد، میں اپنے دوست کا کھانا ختم کرنے کا انتظار کر رہی تھی تاکہ میں اسے منا سکوں۔‘
’لیکن اسی وقت ایک بڑا درخت ہم پر گر پڑا۔ ہر طرف ہنگامہ برپا ہو گیا، کچھ اساتذہ دوڑتے ہوئے آئے اور مجھے گرے ہوئے درخت کے نیچے سے نکالنے کی کوشش کی، لیکن میرا ایک بازو درخت کی بھاری شاخ کے نیچے دب گیا، میں اٹھ نہیں سکی، میں بس درد میں تھی، بہت درد تھا جسے میں بیان نہیں کر سکتی۔‘
انھوں نے مزید کہا: ’تبھی، میں نے ادھر ادھر دیکھا تو ایک اور لڑکی نظر آئی جس کے سر سے بہت زیادہ خون بہہ رہا تھا۔ وہ میری سب سے اچھی دوست تھی، جس سے میں نے دو دن سے بات نہیں کی تھی، اور اب وہ اس دنیا میں نہیں تھی۔‘
’باہر کھاؤ تاکہ کلاس رومز گندے نہ ہوں‘
اپنے ساتھ پیش آنے والے اس ہولناک حادثے کو یاد کرتے ہوئے زخمی ایشیتا شرما نے کہا: ’ہمیں سکول کے کلاس روم کے اندر کھانا نہیں کھانے دیا گیا تاکہ کلاس رومز گندے نہ ہوں۔‘
وہ کہتی ہیں: ’ہم سے چند منٹ پہلے، نرسری کے چھوٹے بچے اسی ہیریٹیج درخت کے نیچے کھانا کھانے گئے تھے، اگر یہ حادثہ ان کے ساتھ پیش آ جاتا تو کیا ہوتا!‘
ایشیتا نے کہا: ’درخت بہت بڑا تھا، گرمیوں کا مہینہ تھا، ہم سایہ کی تلاش میں تھے، تو ہم نے درخت کے نیچے بیٹھ کر کھانا شروع کیا، ایسا پہلی بار نہیں ہوا، ہم یہاں تقریباً ہر روز کھانا کھاتے تھے، ہم نے کبھی نہیں سوچا تھا کہ یہ درخت ہمارے دوست کی جان لے لے گا۔‘
عدالت نے اپنے فیصلے میں یہ بھی کہا کہ چندی گڑھ کا محکمہ تعلیم اس بات کو یقینی بنائے کہ یا تو سکول طلباء کو کلاس رومز میں کھانے کی اجازت دیں یا پھر ایک صاف اور محفوظ جگہ مہیا کریں جہاں وہ بیٹھ کر کھا سکیں۔
BBCہائی کورٹ میں مدعی کے وکیل رام دیپ پرتاپ سنگھہائی کورٹ کی اہم آبزرویشنز
اس معاملے میں، 29 ستمبر سنہ 2025 کو پنجاب اور ہریانہ ہائی کورٹ نے جسٹس کلدیپ تیواری کی صدارت میں درخواست گزاروں کے حق میں 41 صفحات پر مشتمل فیصلہ سنایا، جس میں چندی گڑھ انتظامیہ کے دفاعی دلائل کو مسترد کرتے ہوئے انھیں قصوروار ٹھہرایا گیا۔
ہائی کورٹ نے چندی گڑھ انتظامیہ کو حکم دیا کہ وہ مرنے والی طالب علم کے اہل خانہ کو ایک کروڑ روپے اور بازو کھونے والی متاثرہ ایشیتا شرما کو 50 لاکھ روپے معاوضہ ادا کرے۔
درخواست گزار کے وکیل رام دیپ پرتاپ سنگھ نے بی بی سی کو بتایا کہ ہائی کورٹ نے چندی گڑھ انتظامیہ کی طرف سے مرنے والے کے اہل خانہ کو پہلے دیے گئے 20 لاکھ روپے اور زخمی طالب علم کے اہل خانہ کو 10 لاکھ روپے کے علاوہ ایک کروڑ اور 50 لاکھ روپے معاوضہ ادا کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔
زخمی طالبہ ایشیتا کے والد امن شرما کا کہنا ہے کہ حادثے کے بعد بننے والی تحقیقاتی کمیٹی نے سفارش کی تھی کہ متاثرہ خاندان کو معاوضہ دیا جائے، لیکن انتظامیہ ہماری بات نہیں سن رہی تھی۔
اس کے بعد 2023 میں متوفی طالبہ کے والد اور زخمی ایشیتا کے والد نے مشترکہ طور پر ہائی کورٹ میں رٹ پٹیشن دائر کی اور واقعے کو انتظامیہ کی لاپرواہی قرار دیا۔ جس کے بعد ہائی کورٹ میں اس معاملے کی مسلسل سماعت ہو رہی تھی۔
آٹھویں جماعت کے بچے پر قتل کا الزام: ’اس نے سوچا کہ بچے کو قتل کرنے سے سکول بند ہو جائے گا اور پڑھنا نہیں پڑے گا‘انڈیا میں سائیکل چلاتی طالبہ کو ’چھیڑنے‘ کا واقعہ جو جان لیوا ثابت ہواسیکس کیم انڈسٹری کی ماڈلز: ’ہمیں اس وقت کام پر رکھا گیا جب ہم سکول میں پڑھتی تھیں‘انڈیا کے قبائلی علاقے جہاں جادو ٹونہ کرنے کے شکپر خواتین کو ’چڑیل‘ قرار دے کر قتل کر دیا جاتا ہےچنڈی گڑھ انتظامیہ کا موقف
چنڈی گڑھ انتظامیہ کی جانب سے ہائی کورٹ میں پیش ہونے والے سینیئر وکیل امن باہری نے بی بی سی پنجابی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ہم ہائی کورٹ کے فیصلے کا خیرمقدم کرتے ہیں۔ فی الحال چندی گڑھ انتظامیہ اس فیصلے کا جائزہ لے رہی ہے، اس کے بعد ہی اگلا فیصلہ لیا جائے گا۔
’ہم درختوں سے ڈرتے ہیں‘
آٹھ جولائی 2022 کا دن یاد کر کے نہ صرف ایشیتا خوفزدہ ہو جاتی ہیں بلکہ ان کی ماں بھی رو پڑتی ہیں۔
ان کی والدہ پریتیکا شرما اپنی آنکھوں سے آنسو پونچھتے ہوئے کہتی ہیں: ’میں نے کبھی سوچا بھی نہیں تھا کہ ایک درخت میری بیٹی کو اتنا درد دے گا۔ اب ہم درختوں سے ڈرتے ہیں۔ اب تو ہم اپنی گاڑی بھی درخت کے نیچے پارک نہیں کرتے۔‘
ایشیتا کی والدہ کا کہنا ہے کہ ’مصنوعی بازو پہننے کی وجہ سے ایشیتا کو سینے میں درد بھی ہوتا ہے، ایشیتا کو کئی دیگر بیماریوں کا بھی سامنا کرنا پڑا ہے، اپنی بیٹی کو اس حالت میں دیکھنا بہت مشکل ہے، یہ واقعہ ہمارے ذہنوں میں ہر روز آتا ہے۔ مجھے یاد ہے کہ میں نے کس طرح اپنی بیٹی کو ہسپتال میں خون میں لت پت دیکھا تھا۔‘
ایشیتا کے والد امن شرما کا کہنا ہے کہ ’سکول وہ جگہ ہے جہاں بچے سب سے زیادہ محفوظ ہیں، لیکن ہماری بیٹی کا وہاں حادثہ ہوا، ہمارے بچوں کا کیا قصور تھا؟‘
BBCایشیتا اب پینٹنگ کرنا اور بیڈمنٹن کھیلنا شروع کیا ہےحادثے کی تحقیقات کے لیے بنائی گئی کمیٹی کی کیا سفارشات
اس افسوسناک واقعے کے بعد، چندی گڑھ کی انتظامیہ نے 13 جولائی 2022 کو ریٹائرڈ جسٹس جتیندر چوہان کی سربراہی میں ایک رکنی تحقیقاتی کمیٹی تشکیل دی۔
تحقیقات کے بعد کمیٹی نے 13 دسمبر 2022 کو اپنی رپورٹ پیش کی۔ رپورٹ کے مطابق یہ واقعہ چندی گڑھ کے انجینئرنگ ڈیپارٹمنٹ کی لاپرواہی کی وجہ سے پیش آیا۔
کمیٹی نے مرنے والی طالبہ کے اہل خانہ کو ایک کروڑ روپے اور زخمی ایشیتا کو 50 لاکھ روپے معاوضہ دینے کی سفارش کی۔
اس کے علاوہ کمیٹی نے ہدایت دی کہ چندی گڑھ انتظامیہ زخمی ایشیتا کے علاج اور بازو کی پیوند کاری کا سارا خرچ بھی برداشت کرے گی۔
چندی گڑھ کے انجینئرنگ ڈپارٹمنٹ کو ہدایت کی گئی کہ وہ بس اٹینڈنٹ شیلا کے تمام طبی اخراجات برداشت کرے، جو حادثے میں زخمی ہوئی تھی اور طالب علموں کی قیمتی جانوں کو بچانے کے لیے سنجیدہ کوششیں کرے، اور قیمتی جانوں کو بچانے کے لیے اس کی کوششوں کو دیکھتے ہوئے اسے اس کی قابلیت کے مطابق ملازمت فراہم کرے۔
اس کے علاوہ کمیٹی نے مستقبل میں اس طرح کے افسوسناک واقعے کو روکنے کے لیے مناسب اقدامات کرنے کی سفارش کی۔
اگرچہ چندی گڑھ انتظامیہ نے کمیٹی کی طرف سے دی گئی زیادہ تر سفارشات کو قبول کر لیا، لیکن اس نے خاندانوں کو مکمل معاوضہ ادا نہیں کیا۔
جس کے بعد متوفی اور زخمی ایشیتا کے اہل خانہ نے 2023 میں ایک رٹ پٹیشن دائر کی اور ہائی کورٹ کا دروازہ کھٹکھٹایا۔
ایشیتا اب سول سروسز کی تیاری کر رہی ہیں
ایشیتا شرما کہتی ہیں: ’ایک حادثے نے میری پوری زندگی بدل کر رکھ دی ہے۔ کسی باہر کے شخص کے سامنے جانے سے پہلے ایسے کپڑے پہننے پڑتے ہیں جس سے میرا بایاں بازو چھپ جائے، اپنی پسند کے کپڑے نہیں پہن سکتی۔ لوگ آپ کو عجیب نظروں سے دیکھتے ہیں۔‘
’میرا سرجن بننے کا خواب تھا، لیکن ایک دن مجھے کسی نے کہا کہ آپ اب سرجن نہیں بن پائیں گی کیونکہ ایک سرجن کو دو بازوؤں کی ضرورت ہوتی ہے۔ یہ سن کر مجھے دکھ ہوا، لیکن اب میں آہستہ آہستہ آگے بڑھ رہی ہوں۔ میں نے بیڈمنٹن کھیلنا اور پینٹنگ شروع کر دیا ہے۔ میں یو پی ایس سی کی تیاری کر رہی ہوں اور ایک دن ضرور کامیاب ہو جاؤں گی۔‘
آٹھویں جماعت کے بچے پر قتل کا الزام: ’اس نے سوچا کہ بچے کو قتل کرنے سے سکول بند ہو جائے گا اور پڑھنا نہیں پڑے گا‘ٹوائلٹ میں خون کے دھبے اور طالبات کو برہنہ کر کے جانچ، انڈیا میں سکول پرنسپل سمیت دو افراد گرفتارجالندھر کا سکول جہاں 120 جڑواں بچے پڑھتے ہیں: ’کلاس سے باہر جاتا ایک ہے، ڈانٹ دوسرے کو پڑتی ہے‘طالبات کی نازیبا ویڈیوز بنانے والا سرکاری سکول کا اُستاد گرفتار: ’91 ویڈیوز برآمد ہوئیں جو سکول کے احاطے اور کلاس روم میں بنائی گئیں‘طالبات کو جنسی طور پر ہراساں کرنے کے الزمات میں ہندو مذہبی ادارے سے وابستہ سوامی گرفتاراستاد کو نابالغ طالبہ کے ریپ کے جرم میں 187 برس قید کی سزا: ’وہ پڑھائی میں پیچھے رہ گئی تھی‘