"لوگ یہ نہیں جانتے کہ ان ڈانسرز کی زندگی کے پیچھے کیا کہانیاں چھپی ہوئی ہیں۔ لڑکیاں ہی نہیں، بہت سے نوجوان لڑکے بھی بیک گراؤنڈ ڈانسر بنتے ہیں۔ یہ سب لوگ انتہائی خراب خاندانی حالات سے آتے ہیں۔ کئی اپنے پورے گھر کا خرچہ اٹھا رہے ہوتے ہیں، کسی کے والدین کینسر کے مریض ہوتے ہیں اور کئی پر اتنے مسائل کا بوجھ ہوتا ہے کہ وہ مجبوری میں یہ سب کچھ کرتے ہیں۔ کوئی خوشی خوشی اس طرح اسٹیج پر نہیں آتا۔”
یہ سنسنی خیز انکشافات کیے ہیں تھیٹر، ٹی وی اور فلم کے معروف اداکار نسیم وکی نے۔ تین دہائیوں سے زیادہ عرصہ اس میدان میں گزارنے والے نسیم وکی کا کہنا ہے کہ پنجابی تھیٹر میں جو کچھ پردے کے سامنے نظر آتا ہے، اس کے پیچھے کہانی کہیں زیادہ کالی اور کڑوی ہے۔
اداکار کے مطابق، "میں فحاشی کا دفاع نہیں کرتا، لیکن یہ سمجھنا ضروری ہے کہ کوئی بھی لڑکی یونہی اسٹیج پر ڈانس نہیں کرتی۔ مجبوری اور بھوک انہیں یہ سب کرنے پر مجبور کر دیتی ہے۔”
نسیم وکی نے مزید بتایا کہ ان کی اپنی اہلیہ بھی اسٹیج آرٹسٹ تھیں، مگر شادی کے بعد انہوں نے صاف کہہ دیا کہ یہ پیشہ چھوڑنا ہوگا۔ "میں جانتا ہوں کہ اس پروفیشن میں خواتین کو کس طرح استعمال کیا جاتا ہے۔ اسی لیے میں نے کبھی کسی خاتون کو اپنے ڈرامے میں پہلا موقع نہیں دیا بلکہ ہمیشہ انہیں کسی اور شعبے میں جانے کی ترغیب دی۔"
ان کے اس انکشاف نے سوشل میڈیا پر ایک نئی بحث چھیڑ دی ہے۔ لوگ سوال کر رہے ہیں کہ آخر یہ مجبوریوں کا کھیل کب تک جاری رہے گا اور تھیٹر کی دنیا سے جُڑی اس تاریک حقیقت کا حل کب نکلے گا؟