پاکستان کے سپورٹس کلچر میں جہاں ہر گفتگو کرکٹ سے شروع ہو کر اسی پر ختم ہوتی ہو اور کرکٹرز ہی کو سٹارز کا درجہ حاصل ہو، وہاں دوسرے کھیل ثانوی حیثیت اختیار کر جاتے ہیں۔ ہاکی میں اب حسن سردار اور شہباز احمد نہیں رہے جن کے طلسماتی کھیل کی دنیا دیوانی تھی اور سکواش کورٹ سے جہانگیر خان اور جان شیر خان کی فتوحات کی خبریں بھی آنا بند ہو گئیں۔
ماضی کی یادوں کو تازہ کرنے کے لیے ایتھلیٹکس بھی ہیں، جس میں عبدالخالق، محمداقبال، محمد نواز، غلام رازق، مبارک شاہ اور محمد یونس کے کارنامے سن کر دل خوش ہو جایا کرتا تھا لیکن اب پاکستان کی ایتھلیکٹس کو ایک نیا چہرہ مل گیا ہے جس نے ٹریک اینڈ فیلڈ کی دنیا میں پاکستان کو ایک نئے انداز سے متعارف کر ادیا ہے۔
ارشد ندیم آج پاکستان کے ہر گھر میں موضوع گفتگو ہیں۔ ہر گھر میں انہی کے چرچے ہیں۔ صرف پاکستان ہی نہیں بلکہ ان کے چرچے دوسرے ممالک میں بھی ہو رہے ہیں۔
پاکستان کرکٹ ٹیم کے کپتان اور مایہ ناز بلے باز بابر اعظم اس وقت پاکستان میں سب سے زیادہ توجہ پانے والے کھلاڑی ہیں جن کی دنیا مداح ہے لیکن سوچیے کہ ارشد ندیم کا کارنامہ کتنا بڑا ہے کہ بابر اعظم بھی ان کی تعریف کیے بغیر نہ رہ سکے۔
دنیا بھر سے ملنے والے مبارکباد کے پیغامات میں انڈین ایتھلیٹ نیرج چوپڑا بھی پیش پیش ہیں۔ انھوں نے اپنی ٹویٹ میں لکھا کہ ’ارشد بھائی گولڈ میڈل اور 90 میٹر کے ساتھ نیا ریکارڈ قائم کرنے پر مبارکباد، آئندہ مقابلوں کے لیے نیک تمنائیں۔‘
ارشد ندیم کے بارے میں یہ کہنا غلط ہو گا کہ ان کا تذکرہ صرف اس لیے ہو رہا ہے کہ وہ کامن ویلتھ گیمز میں طلائی تمغہ جیتنے میں کامیاب ہوئے ہیں بلکہ وہ پچھلے دو سال سے دنیا کی نظروں میں ہیں اور ان کے اس سفر میں ایک عجیب سی کشش ہے جو سب کو اپنی جانب متوجہ کر لیتی ہے۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آخر ارشد ندیم میں ایسا کیا ہے کہ انھوں نے ہر کسی کو اپنی جانب متوجہ کر رکھا ہے اور ہر کوئی انہی کی بات کر رہا ہے۔
EPAٹوکیو اولمپکس سے نیا سفر
ارشد ندیمپچھلے چھ سال سے بین الاقوامی مقابلوں میں پاکستان کی نمائندگی کر رہے ہیں لیکن سنہ2019 سے پہلے تک وہ شہ سرخیوں میں نہیں آئے تھے۔
سنہ 2016 میں انڈیا کے شہر گوہاٹی میں ہونے والی ساؤتھ ایشین گیمز میں وہ کانسی کا تمغہ جیتے تھے، اگلے سال باکو میں ہونے والی اسلامک گیمز میں بھی ان کی تیسری پوزیشن آئی تھی۔ سنہ 2018 کی ایشین گیمز میں انھوں نے کانسی کا تمغہ جیتا تھا لیکن اسی سال گولڈ کوسٹ کے کامن ویلتھ گیمز میں وہ آٹھویں نمبر پر آئے تھے۔
ارشد ندیم کے کریئر کا اہم موڑ 2019 میں نیپال میں منعقدہ ساؤتھ ایشین گیمز میں آیا جہاں انھوںنے 86 اعشاریہ 29 میٹرز کے فاصلے پر جیولین تھرو کر کے نہ صرف ان کھیلوں کا نیا ریکارڈ قائم کیا بلکہ وہ ٹوکیو اولمپکس کے لیے کوالیفائی کرنے میں بھی کامیاب ہوگئے تھے۔
پاکستان کی ایتھلیٹکس کی تاریخ میں یہ پہلا موقع تھا کہ کسی ایتھلیٹ نے اولمپکس کے لیے براہ راست کوالیفائی کیا کیونکہ اس سے قبل حالیہ برسوں میں پاکستانی ایتھلیٹس وائلڈ کارڈ انٹری کے ذریعے اولمپکس میں شرکت کرتے رہے ہیں۔
اولمپکس سے قبل ارشد ندیم نے ایران کے ایتھلیٹک مقابلے میں 86 اعشاریہ 38 میٹرز کے ساتھ اپنا ہی قومی ریکارڈ بہتر بنایا۔
ٹوکیو اولمپکس میں وہ 84 اعشاریہ 62 میٹرز سے آگے نہ جا سکے اور انھیں پانچویں پوزیشن پر اکتفا کرنا پڑا لیکن وہ اس جانب اشارہ دے چکے تھے کہ آنے والے مقابلوں میں وہ اپنے حریفوں کو چیلنج دینے کی پوزیشن میں ہوں گے۔
کہنی کی تکلیف کتنی خطرناک
ٹوکیو اولمپکس کے بعد کا عرصہ ارشد ندیم کے لیے کسی امتحان سے کم نہیں گزرا، جس کی وجہ ان کی کہنی کی تکلیف ہے۔ ساتھ ہی گھٹنے کی تکلیف نے بھی ان کی پریشانی میں اضافہ کر دیا۔
کہنی کی اس تکلیف کے سبب ارشد ندیم متعدد بڑے ایونٹس میں حصہ نہ لے سکے لیکن انھوں نے عالمی ایتھلیٹکس چیمپئن شپ، ورلڈ چیمپئن شپ اور اسلامک گیمز کے بارے میں سوچ لیا تھا کہ وہ ان تینوں ایونٹس میں حصہ لیں گے۔
کہنی کی تکلیف کے سبب وہ گزشتہ ماہ امریکہ میں منعقدہ ورلڈ ایتھلیٹکس چیمپئن شپ میں پانچویں پوزیشن حاصل کرپائے۔ ان کی سب سے بہترین تھرو 86 اعشاریہ 16 میٹرز رہی تھی۔
ان کے دوست اور روایتی حریف انڈیا کے نیرج چوپڑا اس ایونٹ میں چاندی کا تمغہ جیتنے میں کامیاب ہوئے تھے۔ اس وقت سب سے بڑا سوال یہی تھا کہ وہ کہنی کی تکلیف کے ساتھ کامن ویلتھ گیمز میں کس طرح حصہ لے سکیں گے؟
خود ارشد ندیم نے ایک روز قبل بی بی سی اردو کو دیے گئے انٹرویو میں یہ بات کہی کہ ایک موقع پر انھیں بھی یہی محسوس ہو رہا تھا کہ کہیں انھیں کامن ویلتھ گیمز سے دستبردار نہ ہونا پڑے۔
ماضی میں ہم دیکھ چکے ہیں کہ کئی بڑے بڑے ایتھلیٹس اور کھلاڑیوں کے کریئر فٹنس مسائل اور انجریز کی وجہ سے وقت سے پہلے ختم ہو گئے۔
اس لحاظ سے ارشد ندیم اپنے کریئر کے اہم ترین موڑ پر ہیں جہاں انھیں اپنی کہنی اور گھٹنے کے علاج کے لیے بہترین ڈاکٹرز سے رجوع کرنا ہوگا۔ اس ضمن میں پاکستان ایتھلیٹکس فیڈریشن پاکستان سپورٹس بورڈ اور پاکستان اولمپک ایسوسی ایشن کو بھی اپنی ذمہ داریوں کا احساس کرتے ہوئے ارشد ندیم کے علاج کے لیے بہترین ڈاکٹر اور وسائل کا انتخاب کرنا ہو گا۔
بغیر کوچ کے گولڈ میڈل
ارشد ندیم پاکستان سپورٹس کے اس سسٹم کا حصہ ہیں جہاں ٹریننگ اور کھلاڑیوں کو دی جانے والی سہولتیں ہمیشہ سوالیہ نشان بنتی ہیں۔
ارشد ندیم میاں چنوں کے ایک چھوٹے سے گاؤں سے نکل کر آئے ہیں۔ انھیں کوچ رشید احمد ساقینے جیولین تھرو میں متعارف کرایا اور علاقائی سطح پر ہونے والے مقابلوں میں شرکت کو یقینی بناتے رہے۔
اس کے بعد جب وہ واپڈا میں آئے تو وہاں انھیں کوچ فیاض بخاری ملے جو گزشتہ آٹھ سال سے ان کی ٹریننگ اور کوچنگ کے ذمہ دار ہیں اور کووڈ کی صورتحال اور پاکستان سپر لیگ کے دوران قذافی سٹیڈیم کے اطراف میدان اور راستے بند کیے جانے کے باوجود وہ ارشد ندیم کی ٹریننگ کو دوسری جگہ پر ممکن بناتے رہے تھے۔
یہ بھی پڑھیے
ارشد ندیم: ’چوتھی تھرو کے بعد تکلیف بڑھ گئی تھی لیکن سامنے گولڈ میڈل نظر آ رہا تھا‘
ارشد نے ’پاکستان کو جیولن تھرو کا مطلب سمجھا دیا‘، نیرج کی وجہ سے ’انڈیا میں اجنبی بھی گلے مل رہے ہیں‘
’ٹوٹے جسم‘، بغیر کوچ کے طلائی تمغہ جیتنے والے ارشد ندیم ’جن کی ہمت ہمالیہ سے بلند ہے‘
لیکن ٹوکیو اولمپکس سے واپس آنے کے بعد حیران کن طور پر فیاض بخاری کو ارشد ندیم کی ٹریننگ سے الگ کردیا گیا حالانکہ کامن ویلتھ گیمز کے لیے فیاض بخاری کا ایکریڈیٹیشن عمل بھی مکمل کر لیا گیا تھا۔
ارشد ندیم کو ٹریننگ کے لیے جنوبی افریقہ بھیجا گیا تھا لیکن دو ماہ سے بھی کم وقت میں یہ ٹریننگ کسی بھی بین الاقوامی مقابلے کی تیاری کے لیے ناکافی تھی۔
اس وقت پاکستان اولمپک ایسوسی ایشن، پاکستان ایتھلیٹکس فیڈریشن اور پاکستان سپورٹس بورڈ کی سہ فریقی کھینچا تانی میں ارشد ندیم اور ان جیسے کئی کھلاڑی بے یقینی کا شکار ہیں اور ان کی سمجھ میں نہیں آ رہا کہ وہ کس کی طرف دیکھیں۔
پاکستان اولمپک ایسوسی ایشن نے ایتھلیٹکس فیڈریشن کو معطل کر رکھا ہے جبکہ پاکستان سپورٹس بورڈ کو اس بات پر سخت اعتراض ہے کہ پاکستان اولمپک ایسوسی ایشن بین الاقوامی مقابلوں میں ان کھیلوں کو بھی اپنے دستے میں شامل کر رہی ہے جس میں اچھے نتائج کی توقع نہیں۔
دوسری جانب کھیلوں کے حلقے پاکستان سپورٹس بورڈ کے کردار پر بھی متعرض ہیں کہ وہ کھلاڑیوں کی ٹریننگ کے سلسلے میں اپنی ذمہ داریاں پوری کرنے سے قاصر ہے۔
یاد رہے کہ کامن ویلتھ گیمز سے قبل پاکستان ایتھلیٹک فیڈریشن کے صدر میجر جنرل ( ریٹائرڈ ) اکرم ساہی نے ارشد ندیم کے ساتھ کسی کوچ کو نہ بھیجنے کا ذمہ دار پاکستان اولمپک ایسوسی ایشن کو قرار دیا تھا۔
مستقبل کے ارادے
ارشد ندیم نے کامن ویلتھ گیمز میں 90 اعشاریہ 18میٹرز تھرو کر کے ان کھیلوں کا نیا ریکارڈ قائم کیا ہے لیکن وہ اس سے آگے جانا چاہتے ہیں۔
ارشد ندیم بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ کہنی اور گھٹنے کی تکلیف نہ ہوتی تو وہ کامن ویلتھ گیمز میں 95 میٹرز تک تھرو کر سکتے تھے۔ ان کی کوشش ہے کہ وہ کامن ویلتھ گیمز کے بعد عالمی ریکارڈ بھی اپنے نام کریں۔
یاد رہے کہ جیولین تھرو کا عالمی ریکارڈ چیک ری پبلک کے یان زیلینی کا ہے جنھوں نے سنہ 1996 میں جرمنی میں ہونے والے مقابلوں میں 98 اعشاریہ 48 میٹرزکے فاصلے پر جیولین تھرو کیا تھا۔