کراچی کے ایک نجی ریسٹورنٹ میں پیش آیا واقعہ اس وقت عوامی توجہ کا مرکز بن گیا جب قومی لباس شلوار قمیض پہنے ایک شہری کو صرف لباس کی بنیاد پر ریسٹورنٹ سے باہر نکال دیا گیا۔ وکیل عبداللطیف، جو خود درخواست گزار ہیں، نے اس معاملے کو معمولی نہ سمجھتے ہوئے کنزیومر کورٹ سے رجوع کرلیا ہے، اور ریسٹورنٹ انتظامیہ کے رویے کو بنیادی انسانی حقوق اور ثقافتی توہین قرار دیا ہے۔
واقعے کی تفصیل کے مطابق عبداللطیف 18 مئی کو کھانے کے لیے اس نجی ریسٹورنٹ پہنچے، جہاں ایک ویٹر نے انہیں دروازے پر ہی روک دیا اور کہا کہ "ہم اس لباس میں کھانا فراہم نہیں کرتے"۔ جب انہوں نے اس رویے پر اعتراض کیا تو منیجر نے سامنے آ کر ان کی شلوار قمیض کو ’چیپ ڈریسنگ‘ کہہ کر مزاق اُڑایا اور مزید کہا کہ "یہاں تماشا نہ لگائیں، ورنہ زبردستی نکال دیں گے۔"
عبداللطیف ایڈووکیٹ نے یہ رویہ نہ صرف تضحیک آمیز بلکہ قومی لباس کی توہین قرار دیا اور فوری طور پر قانونی چارہ جوئی کا فیصلہ کیا۔ ان کے مطابق انہوں نے ریسٹورنٹ کو ایک قانونی نوٹس بھی بھیجا، لیکن انتظامیہ نے نہ تو نوٹس کا کوئی جواب دیا اور نہ ہی کسی معذرت کا عندیہ دیا۔ یہ خاموشی خود اس بات کا ثبوت ہے کہ وہ اس عمل کو درست سمجھتے ہیں۔
یہ معاملہ صرف ایک فرد کی تذلیل نہیں بلکہ ایک پورے قومی کلچر کی بے توقیری کے مترادف ہے۔ ایک ایسے شہر میں جہاں شلوار قمیض عام لباس ہے، کسی شہری کو صرف لباس کی بنیاد پر رد کر دینا ایک خطرناک رجحان کی عکاسی کرتا ہے۔ سوال یہ بھی ہے کہ کیا ہم اپنی تہذیب، اقدار اور شناخت سے اس حد تک دور ہو چکے ہیں کہ اب ریسٹورنٹس میں داخلے کے لیے بھی مغربی انداز اپنانا لازمی ہو گیا ہے؟