ژوب میں پنجاب سے تعلق رکھنے والے نو مسافر قتل: ’بسوں سے اتار کر قریبی نالے میں لے جایا گیا اور گولیاں مار دی گئیں‘

بی بی سی اردو  |  Jul 11, 2025

Getty Images

بلوچستان کے ضلع ژوب میں نامعلوم مسلح افراد نے پنجاب سے تعلق رکھنے والے نو مسافروں کو بسوں سے اتار کر قتل کر دیا ہے۔

حکام کے مطابق ان مسافروں کو بلوچستان سے پنجاب جانے والی دو مسافر بسوں سے اتارا گیا اور یہ واقعہ جمعرات کی شام سرہ ڈاکئی نامی علاقے میں کوئٹہ کو ڈیرہ غازی خان سے ملانے والی قومی شاہراہ پر پیش آیا جہاں مسلح افراد نے ناکہ بندی کر رکھی تھی۔

اسسٹنٹ کمشنر ژوب نوید عالم نے بی بی سی اردو کے محمد کاظم سے بات کرتے ہوئے نو مسافروں کی ہلاکت کی تصدیق کی اور بتایا کہ ہلاک شدگان کی لاشوں کو پنجاب کے حکام کے حوالے کردیا گیا ہے اور انھیں ان کے آبائی علاقوں میں بھیجا جا رہا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ مسلح افراد نے ایک بس سے دو جبکہ دوسری سے سات مسافروں کو اتارا اور ایک قریبی نالے میں لے جا کر گولیاں مار دیں۔

نوید عالم نے سوشل میڈیا پر وائرل ان ویڈیوز کی بھی تصدیق کی جن میں مذکورہ بسوں میں سے ایک کا مسافر یہ بتا رہا ہے کہ مسلح افراد نے بس میں سوار افراد کے شناختی کارڈ دیکھے۔

اس شخص کا کہنا تھا کہ وہ بس کی آگے والی نشست پر بیٹھا تھا اور مسلح افراد نے اس کا شناختی کارڈ دیکھ کر اسے چھوڑ دیا۔

اسسٹنٹ کمشنر ژوب کے مطابق ہلاک شدگان میں دو سگے بھائی عثمان نذیر اور جابر نذیر بھی شامل ہیں۔ ہلاک شدگان کے تیسرے بھائی صابر نذیر کی سوشل میڈیا پر وائرل ہونے والے ایک ویڈیو کے مطابق یہ دونوں اپنے والد کے جنازے میں شرکت کے لیے دنیا پور آ رہے تھے کہ راستے میں ہلاک کر دیے گئے۔

صحافی احتشام شامی کے مطابق ہلاک شدگان میں شامل صابر نامی شخص کا تعلق کامونکی کے نواحی گاؤں سے ہے۔ ان کے بھائی امجد نے بتایا کہ صابر گذشتہ 15 سال سے کوئٹہ میں باورچی کا کام کرتا تھا اور اپنے خاندان کا واحد کفیل تھا۔

ان کا کہنا تھا کہ ’صابر اپنے چار بچوں اور اہلیہ سے ملنے کے لیے آ رہا تھا کہ شدت پسندوں کا نشانہ بنا۔‘ امجد کے مطابق وہ اتنے وسائل نہیں رکھتے کہ بلوچستان جا کر بھائی کی لاش لا سکیں اور انھوں نے حکام سے اپیل کی ہے کہ وہ ’میت کی واپسی کا انتظام کریں۔‘

خوف کے سائے میں پنجاب سے بلوچستان کا سفر: ’اگر میری بس کو بھی اسی طرح روک لیا گیا تو کیا ہو گا‘’بچہ کہتا رہا میرے پاپا نہیں آئے‘: بلوچستان میں شدت پسندوں کے حملوں میں بچ جانے والے عینی شاہدین نے کیا دیکھابی ایل اے نے بارکھان میں سات افراد کے قتل کی ذمہ داری قبول کر لی: ’والدہ کا غم بانٹنے آنے والے رشتہ داروں کے بھی جنازے اٹھانا پڑے‘ بلوچستان میں شدت پسندی اور حکومتی حکمتِ عملی پر سوال: ’شورش سے دہشت گردی کے انداز میں نمٹنا بیک فائر کر جاتا ہے‘

وزیراعلیٰ بلوچستان میر سرفراز بگٹی نے نو مسافروں کو بسوں سے اُتار کر قتل کرنے کے واقعے کی مذمت کرتے ہوئے کہا ہے کہ ’شناخت پر معصوموں کا قتل ناقابل معافی جرم ہے۔‘

اُن کا مزید کہنا تھا کہ ’دہشتگردوں نے انسان نہیں، بزدل درندے ہونے کا ثبوت دیا ہے۔ بلوچستان کی مٹی میں بے گناہوں کا خون رائیگاں نہیں جائے گا۔ ریاست ان قاتلوں کو زمین کے اندر بھی چھپنے نہیں دے گی۔‘

وزیرِ داخلہ محسن نقوی نے اسے ’انڈیا کے حمایت یافتہ دہشت گردوں‘ کی کارروائی قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ ’دہشتگردوں نے بےگناہ لوگوں کو نشانہ بنا کر بدترین بربریت کا مظاہرہ کیا ہے۔‘

اُن کا مزید کہنا تھا کہ ’معصوم مسافروں کو نشانہ بنانے والے والوں کا ہر جگہ پیچھا کر کے ان کا خاتمہ کیا جائے گا اور آلہ کاروں کی ہر سازش قوم کی حمایت سے ناکام بنا دی جائے گی۔‘

خیال رہے کہ جمعرات کو منعقد ہونے والی کور کمانڈرز کانفرنس میں بھی یہ کہا گیا تھا کہ ’انڈین حمایت یافتہ اور سپانسرڈ پراکسیز کے خلاف ہر سطح پر فیصلہ کن اور جامع کارروائیاں جاری رکھنا ناگزیر ہے۔‘

BBCاگست 2024 کے دوران بلوچستان کے علاقے موسیٰ خیل میں مسلح افراد نے کئی بسوں کو روکا، شناختی کارڈ دیکھ کر پنجاب سے تعلق رکھنے والے مسافروں کو الگ کر کے نیچے اتارا اور انھیں گولیاں مار کر ہلاک کر دیا تھاپنجاب سے تعلق رکھنے والے افراد نشانہ

بلوچستان میں ماضی میں بھی مسافروں کو گاڑیوں سے اتار کر ہلاک کرنے کے متعدد واقعات پیش آئے ہیں اور ایسے واقعات میں مسافر بسوں سے جن لوگوں کو اُتار کر ہلاک کیا گیا ان میں سے زیادہ تر کا تعلق پنجاب سے تھا۔

رواں برس فروری میں ضلع بارکھان کے علاقے ڑڑکن میں مسلح افراد نے ایسے ہی سات افراد کو شناخت کرنے کے بعد ہلاک کیا تھا۔ اس حملے کی ذمہ داری کالعدم شدت پسند تنظیم بی ایل اے نے قبول کی تھی۔

یہ تازہ ترین واقعہ جس مقام پر پیش آیا ہے اس کے قریب ضلع موسیٰ خیل کے علاقے میں گذشتہ برس اگست میں شدت پسندوں نے 22 لوگوں کو شناخت کرنے کے بعد انھیں بس اور ٹرکوں سے اُتار کر ہلاک کر دیا تھا۔ مقامی انتظامیہ کے مطابق ان افراد میں سے 17 کا تعلق صوبہ پنجاب کے مختلف اضلاع سے تھا۔

اس سے قبل اپریل 2024 میں ایسا ہی ایک واقعہ ضلع نوشکی میں پیش آیا تھا جب ایک مسافر بس سے پنجاب کے شہر منڈی بہاؤالدین اور گوجرانوالہ سے تعلق رکھنے والے نو افراد کو اتارا گیا اور فائرنگ کر کے ہلاک کر دیا گیا۔

’بلوچستان میں شدت پسندوں کے حملوں میں 39 ہلاکتیں، جوابی کارروائیوں میں 21 شدت پسند اور 14 سکیورٹی اہلکار ہلاک‘نوشکی بس حملے میں نو افراد ہلاک: ’سب اپنے شناختی کارڈ نکالو اور جو پنجابی ہے وہ باہر آ جائے‘ بلوچستان میں شدت پسندی اور حکومتی حکمتِ عملی پر سوال: ’شورش سے دہشت گردی کے انداز میں نمٹنا بیک فائر کر جاتا ہے‘’بچہ کہتا رہا میرے پاپا نہیں آئے‘: بلوچستان میں شدت پسندوں کے حملوں میں بچ جانے والے عینی شاہدین نے کیا دیکھاخوف کے سائے میں پنجاب سے بلوچستان کا سفر: ’اگر میری بس کو بھی اسی طرح روک لیا گیا تو کیا ہو گا‘آپریشن مرگ بر سرمچار: پاکستان کو فوری ردعمل دینے پر کس بات نے مجبور کیا اور یہ معاملہ کہاں جا کر رُکے گا؟
مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More