گورکھ ہلز اتھارٹی میں کروڑوں روپے کی بدعنوانیوں اور ضابطگیوں کا انکشاف

ہماری ویب  |  Jul 18, 2025

گورکھ ہلز اتھارٹی کے 8 سال کے اکاؤنٹس کا خصوصی آڈٹ کیا گیا ہے جس میں بڑے پیمانے پر خلاف ضابطہ بھرتیوں، ٹھیکوں اور خریداری میں کروڑوں روپے کی بدعنوانیوں کے انکشافات سامنے آئے ہیں۔

گورکھ ہلز ڈیولپمنٹ اتھارٹی ایک خود مختار ادارہ ہے لیکن فنڈز کا سارا انحصار سندھ حکومت کے فنڈز پر ہے، 1995 میں قائم اس ادارےکا مقصد سندھ میں گورکھ ہلز کے تفریحی مقامات میں ٹوارزم کو فروغ دینا ہے۔ 4 ٹھیکیدار ایک ہی فیملی والے نکلے۔

آڈیٹرز جنرل آف پاکستان کے خصوصی آڈٹ رپورٹ برائے سال 2014 سے 2022 میں ایک دلچسپ معاملہ بھی سامنے آیا ہے جس کے مطابق اتھارٹی نے زیادہ تر کاموں کے ٹھیکے جن چار ٹھیکیداروں کو دیے ہیں ان کا تعلق ایک ہی خاندان سے ہے اوران کے رہائشی مکان کا ایڈریس بھی ایک ہی ہے۔

رپورٹ کے مطابق مذکورہ چار کنٹریکٹرز کے نام مہوش شوکت، محمد علی چوہان، ماجد علی چوہان اور راشد علی چوہان ہیں جن کے گھر کا ایڈریس کراچی پی آئی بی کالونی جیل روڈ ہاؤس نمبر 1 دیا گیا ہے، ان چاروں کو 3 کروڑ 85 لاکھ روپے کے ٹھیکے دیے گئے ہیں، یہ معاملہ4 ستمبر 2023 کو اتھارٹی کے سامنے اٹھایا گیا پھر 5 دسمبر 2024 کو بھی اٹھایا گیا اور رواں سال 10 اپریل کو بھی تحریری طور پر جواب مانگا گیا لیکن اتھارٹی کی جانب سے جواب نہیں دیا گیا۔

ٹھیکیداروں سے ٹیکس وصول نہ کرکے فائدہ دیا گیا، گورکھ ہلز اتھارٹی کی جانب سے مختلف کاموں میں ٹھیکیداروں سے اسٹامپ ڈیوٹی کی مد میں ایک کروڑ روپے اور 2 کروڑ 43 لاکھ روپے کا جنرل سیلز ٹیکس نہیں کاٹا گیا جو قانونی طور پر وصول کرنا چاہیے تھا۔

آڈٹ رپورٹ میں نشاندہی کی گئی ہے کہ اتھارٹی کی جانب سے قومی خزانے کو نقصان دے کر ٹھیکیداروں کو فائدہ پہنچایا گیا جب کہ اس کے علاوہ مختلف اشیا کی 2کروڑ 96 لاکھ روپے کی خریداری کی گئی لیکن ان اشیا کا مارکیٹ سروے نہیں کیا گیا جس سے شبہ ہے کہ مہنگے داموں خریداری کرکے ادارے کو نقصان پہنچایا گیا، غیر قانونی بھرتیاں گورکھ ہلز اتھارٹی نے غیر قانونی بھرتیوں کے ذریعے ادارے کو 7 کروڑ 49 لاکھ روپے کا نقصان پہنچایا۔ جس میں سامنے آنے والے ایک معاملہ کے مطابق پی سی ون میں منظور پوسٹوں کی تعداد 75 تھی جس کے بجائے 90 افراد بھرتی کیے گئے۔ اسی طرح ایک اور جگہ 27 ملازمین بھرتی کیے گئے لیکن ان پوسٹوں کی تشہیر کا قانونی تقاضہ پورا نہیں کیا گیا جبکہ ایک اور جگہ کئی پوسٹ پی سی ون کی تھیں یعنی کسی خاص کام کے دوران عارضی بھرتیاں تھیں جن کو ریگولر کرکے انہیں غیر قانونی فائدہ پہنچایا گیا۔

آڈٹ رپورٹ میں نشاندہی کی گئی ہے کہ اسسٹنٹ ایگزیکٹو انجینئر بی پی ایس 17 کی بغیر تشہیر کے تقرری کی گئی۔ اربوں روپے خرچ کرنے کے باوجود سیاحتی فروغ کا مقصد حاصل نہ ہوسکا اس کے علاوہ آڈٹ رپورٹ میں انکشاف ہوا ہے کہ اتھارٹی 3 کروڑ روپے سے زائد کے بجلی کا نادہندہ ہے۔

آڈیٹرز جنرل آف پاکستان کی جانب سے اس ادارے کی 2014 سے 2022 تک کے اکاؤنٹس کا آڈٹ کیا گیا۔ 2014 سے 2022 تک 3 ارب 85 کروڑ 49 لاکھ روپے کے اخراجات کیے گئے لیکن ہل اسٹیشن کو سڑکوں اور انفرااسٹرکچر جیسی بنیادی سہولیات نہ ہونے کی وجہ سے فنکشنل نہیں کیا جاسکا اس کے علاوہ اتھارٹی نے سیاحوں کے لیے کئی فیملی ریزورٹس، گیسٹ ہاؤسز بنائے، ٹک شاپس اور ریسٹورنٹس بنائے گئے لیکن کوئی آمدن شروع نہ ہوسکی۔ انفرا اسٹرکچر اور سیکورٹی انتظامات نہ ہونے کی وجہ سے اس سیاحتی مقام کو فروغ دینے میں اتھارٹی ناکام رہا۔

مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More