سپریم کورٹ نے مخصوص نشستوں سے متعلق کیس کا فیصلہ سناتے ہوئے عملاً حکمران جماعتوں بشمول اپوزیشن جماعت جے یو آئی کو اضافی نشستیں دینے کی منظوری دے دی ہے۔عدالتِ عظمیٰ کے فیصلے کے نتیجے میں قومی اسمبلی میں مسلم لیگ (ن) کے ارکان کی تعداد 124 جبکہ پیپلز پارٹی کے ارکان کی تعداد 75 ہو جائے گی۔جمعے کو سپریم کورٹ کے پانچ ججز کے مقابلے میں سات ججز کی اکثریت نے نظرثانی کی درخواستوں کو منظور کرتے ہوئے 12 جولائی 2024 کے فیصلے کو کالعدم قرار دے دیا۔
اس فیصلے کے تحت مسلم لیگ (ن)، پیپلز پارٹی، جے یو آئی (ف) اور دیگر جماعتوں کو مخصوص نشستیں واپس مل جائیں گی۔ اس فیصلے کے بعد قومی اسمبلی میں مسلم لیگ (ن) کے ارکان کی تعداد 124 ہو جائے گی، پیپلز پارٹی کے ارکان 75 ہوں گے جبکہ جے یو آئی (ف) کے ارکان کی تعداد 11 ہو گی۔فیصلے کے مطابق قومی و صوبائی اسمبلی کی 77 مخصوص نشستیں بحال کر دی گئی ہیں۔ قومی اسمبلی میں پنجاب سے خواتین کی 11 مخصوص نشستیں، خیبر پختونخوا سے خواتین کی 8 نشستیں اور اقلیتوں کی 3 مخصوص نشستیں بحال ہو گئی ہیں۔ان نشستوں پر مسلم لیگ (ن) کو 14، پیپلز پارٹی کو 5 جبکہ جے یو آئی (ف) کو 3 مخصوص نشستیں ملیں گی۔خیبر پختونخوا اسمبلی میں خواتین کی 21 اور اقلیتوں کی 4 مخصوص نشستیں بحال ہوئی ہیں، جس کے بعد جے یو آئی (ف) کو 10، مسلم لیگ (ن) کو 7، پیپلز پارٹی کو 7 اور اے این پی کو 1 مخصوص نشست ملے گی۔ پنجاب اسمبلی میں خواتین کی 24 مخصوص نشستیں اور اقلیتوں کی 3 نشستیں بحال ہوگئیں، ان میں مسلم لیگ (ن) کو 23، پیپلز پارٹی کو 2 جبکہ پاکستان مسلم لیگ کو 1 نشست ملے گی۔ سندھ اسمبلی میں خواتین کی 2 اور اقلیتوں کی 1 نشست بحال ہوئی ہے، جس میں پیپلز پارٹی کو 2 اور ایم کیو ایم کو 1 مخصوص نشست ملے گی۔سپریم کورٹ کا یہ فیصلہ پاکستان تحریک انصاف کو مخصوص نشستیں دینے کے خلاف نظرثانی درخواستوں کے بعد آیا ہے۔ پی ٹی آئی کے آزاد حیثیت میں منتخب ہونے والے ارکان نے سنی اتحاد کونسل کے پلیٹ فارم پر مخصوص نشستوں کے لیے درخواست دی تھی، تاہم الیکشن کمیشن نے اسے مسترد کرتے ہوئے کہا کہ سنی اتحاد کونسل کوئی پارلیمانی جماعت نہیں اور اسے مخصوص نشستوں کا حق حاصل نہیں۔پشاور ہائی کورٹ نے بھی اس فیصلے کو برقرار رکھا، تاہم 12 جولائی 2024 کو سپریم کورٹ کے 13 رکنی بینچ کے آٹھ ججز نے پی ٹی آئی کو مخصوص نشستیں دینے کا حکم دیا تھا، جس پر مسلم لیگ (ن)، پیپلز پارٹی اور الیکشن کمیشن نے نظرثانی کی درخواستیں دائر کی تھیں۔