Getty Imagesانڈیا میں ماہواری ایک ممنوعہ موضوع رہا ہے
انڈیا میں ایک سکول کی پرنسپل سمیت دو افراد کو ان الزامات کے بعد گرفتار کر لیا گیا ہے کہ انھوں نے ٹوائلٹ کی دیوار پر خون کے دھبے دیکھنے کے بعد مبینہ طور پر طالبات کو یہ چیک کرنے کے لیے برہنہ کر دیا کہ آیا انھیں پیریڈز تو نہیں۔
پولیس کی جانب سے یہ کارروائی اس وقت کی گئی جب اس ہتک کا نشانہ بننے والی ’10 سے 15 لڑکیوں‘ میں سے ایک کی والدہ نے شکایت درج کروائی۔
یہ واقعہ منگل کے روز ایک ایسے گاؤں میں پیش آیا، جو ممبئی شہر سے زیادہ دور نہیں۔ بدھ کے روز والدین نے سکول کے بعد احتجاج بھی کیا اور سکول حکام کے خلاف سخت سزا کا مطالبہ کیا۔
ایک ویڈیو میں دیکھا جا سکتا ہے کہ سکول پرنسپل والدین کے ساتھ بحث کر رہی ہیں اور اس الزام کو مسترد کر رہی ہیں کہ ایسا کوئی واقعہ پیش آیا یا انھوں نے ایسا کوئی حکم جاری کیا۔
پولیس آفیسر میلند شیندے نے جمعرات کے روز بی بی سی کو بتایا کہ وہ ان الزامات کی تحقیقات کر رہے ہیں۔ انھوں نے بتایا کہ دونوں گرفتار خواتین کو آج عدالت میں پیش کیا جائے گا۔
پولیس میں درج شکایت میں مغربی ریاست مہاراشٹر کے تھانے گاؤں میں آل گرلز سکول کے چار دیگر اساتذہ اور دو ٹرسٹیز کے نام بھی شامل ہیں۔ بی بی سی نے اس حوالے سے سکول حکام سے رابطہ کیا ہے۔
والدین نے الزام عائد کیا ہے کہ پانچویں سے دوسویں کلاس کی تمام طالبات جن کی عمریں 10 سے 16 برس کے درمیان ہوں گی، کو منگل کے روز سکول پرنسپل نے ہال میں بلایا۔
اس دوران پروجیکٹر پر ہاتھ کے نشانات سمیت ٹوائلٹ کی تصاویر دکھائی گئیں اور ان طالبات کو ہاتھ کھڑا کرنے کا کہا گیا جن کو پیریڈز تھے۔ پھر ایک ٹیچر نے ان تمام طالبات کے ہاتھوں کے پرنٹس لیے۔
10 سے 15 ایسی لڑکیاں جنھوں نے یہ کہا کہ انھیں پیریڈز نہیں ہیں، انھیں مبینہ طور پر ٹوائلٹ میں لے جایا گیا اور زبردستی برہنہ کر کے ان کی جانچ کی گئی۔
جس طالبہ کی والدہ نے پولیس میں شکایت درج کروائی، انھوں نے الزام عائد کیا کہ ان کی بیٹی کو پیریڈز نہیں تھے تاہم سکول انتظامیہ نے اسے ڈانٹا اور پوچھا کہ اس نے سینیٹری پیڈ کیوں نہیں پہن رکھا۔ اس بچی کے ہاتھ کے پرنٹس بھی لیے گئے تھے۔
والدہ کے مطابق اس سب کی وجہ سے ان کی بیٹی نے ’بہت زیادہ شرم محسوس کی۔‘
پھول یا سینیٹری پیڈ؟ چینی ٹرین سٹیشن کا انوکھا ڈیزائن جس نے بحث چھیڑ رکھی ہے’پہلی بار پیریڈز ہوئے تو سمجھی بلڈ کینسر ہو گیا‘سکول طالبہ کی سینیٹری پیڈز کی درخواست پر خاتون افسر کا متنازعہ بیان اور معافی’رمضان میں پیریڈز چھپانے کے لیے بہت محنت کرنی پڑتی ہے‘
کچھ والدین نے بی بی سی کو بتایا کہ ان کی بیٹیاں صدمے کی حالت میں ہیں۔
والدین میں سے ایک نے کہا کہ ’یہ واقعہ ہمارے بچوں کی حفاظت سے متعلق سنجیدہ سوالوں کو جنم دیتا ہے۔ ہماری لڑکیاں خوفزدہ ہیں۔ حکومت کو سکول کے خلاف سخت ایکشن لینا چاہیے۔‘
ایک طالبہ کی ماں نے بی بی سی مراٹھی کو بتایا کہ جب انھوں نے پرنسپل سے سوال کیا تو انھوں نے ہر چیز کو مسترد کر دیا ’لیکن جب ہم نے یہ پوچھا کہ کیا اتنی لڑکیاں جھوٹ بول رہی ہیں تو ان کے پاس اس بات کا کوئی جواب نہیں تھا۔‘
انڈیا میں ماہواری ایک ممنوعہ موضوع رہا ہے۔ چند دیہی اور قبائلی علاقوں میں تو اب تک ماہواری کے دوران خواتین کو اکیلے رہنے اور کھانے پینے کے لیے الگ برتن استعمال کرنے پر مجبور کیا جاتا ہے لیکن وقت کے ساتھ ساتھ ایسے رسم و رواج کم ہو رہے ہیں۔
ماضی میں بھی اس قسم کے واقعات سامنے آتے رہے ہیں۔ سنہ 2017 میں اتر پردیش کے ایک سکول میں 70 طالبات کو اس وقت برہنہ کیا گیا جب باتھ روم کے دروازے پر خون ملا۔
سنہ 2020 میں گجرات کے ایک ہاسٹل میں68 لڑکیوں کو بھی برہنہ کرنے کا واقعہ سامنے آیا تھا۔ تفصیلات کے مطابق لڑکیوں نے اپنے پیریڈز سے متعلق اطلاع ہاسٹل انتظامیہ کو دینا بند کر دی تاکہ وہ مندر اور کچن میں جانے کی پابندیوں سے بچ سکیں۔ کھانے کے وقت ان لڑکیوں کو دوسروں سے الگ بٹھایا جاتا تھا جبکہ کلاس روم میں بھی انھیں آخری بینچ پر بیٹھنے کا حکم دیا جاتا تھا۔
ماہواری کی چھٹی: ’مجھے مرد ساتھیوں نے تنقید کا نشانہ بنایا، معاشرہ سمجھتا ہے کہ ہمیں درد برداشت کرنا چاہیے‘’ماہواری نارمل ہے بس تم نے کسی کو بتانا نہیں‘کیا مردوں کو بھی ماہواری ہوتی ہے؟ ’اریٹیبل مین سنڈروم‘ کیا ہے اور اِس کا سیکس لائف سے کیا تعلق ہے’ماہواری کا درد اتنا شدید ہوتا کہ صوفے سے اٹھا نہیں جاتا تھا‘: باڈی سوٹ جو آپ کو درد کی اذیت سے بچا سکتا ہےسکول طالبہ کی سینیٹری پیڈز کی درخواست پر خاتون افسر کا متنازعہ بیان اور معافی’پہلی بار پیریڈز ہوئے تو سمجھی بلڈ کینسر ہو گیا‘