مذاکرات اور جرگے کے انعقاد کے باوجود باجوڑ میں ’ٹارگٹڈ آپریشن‘ کیوں شروع کیا گیا؟

بی بی سی اردو  |  Aug 12, 2025

BBCفائل فوٹو

پاکستان کے صوبہِ خیبر پختونخوا کے ضلع باجوڑ کی تحصیل ماموند میں شدت پسندوں کے خلاف ’ٹارگٹڈ آپریشن‘ جاری ہے اور ماموند میں مکمل کرفیو نافذ کر دیا گیا ہے جبکہ ضلع بھر میں تمام شاہراؤں کے لیے سیکشن 144 نافذ کیا گیا ہے اور مقامی آبادی سے کہا گیا ہے کہ وہ گھروں سے باہر نہ نکلیں۔

اس دوران منگل کی صبح سویرے باجوڑ کے صدیق آباد پھاٹک کے قریب سکیورٹی فورسز کے ایک قافلے پر حملے کی بھی اطلاع موصول ہوئی ہے لیکن اب تک سرکاری سطحپر اس بارے میں کوئی بیان جاری نہیں کیا گیا ہے۔

اس حملے میں مبینہ طور پر دو سکیورٹی اہلکار مارے گئے جبکہ 19 زخمی ہوئے ہیں۔

محکمہ داخلہ کی جانب سے گذشتہ روزایک بیان جاری کیا گیا ہے جس میں کہا گیا ہے کہ 12 اگست 2025 کی رات ایک بجے سے ضلع باجوڑ کے علاقے خار منڈا روڈ، خار ناواگی روڈ اور خار صادق آباد عنا یت کلی روڈ پر آخری مرتبہ 24 گھنٹوں کے لیے سیکشن 144 نافذ کیا گیا ہے۔

بیان میں کہا گیا ہے کہ دہشت گردوں کے خلاف ٹارگٹڈ کارروائی کے دوران عوام کی حفاظت کو مدنظر رکھتے ہوئے کچھ مخصوص علاقوں میں 14 اگست 2025 صبح 11 بجے تک مکمل دفعہ 144 نافذ ہو گی جس میں سڑک پر آنا اور گھروں سے نکلنا ممنوع ہو گا۔

اس آپریشن کے دوران اب تک سرکاری سطح پر کسی جانی نقصان کی اطلاع موصول نہیں ہوئی ہے۔ مقامی لوگوں نے بتایا ہے کہ گذشتہ روز نور اسلام نامی شخص زخمی ہوئے تھے۔

ضلعی پولیس افسر باجوڑ وقاص رفیق نے گذشتہ روز بی بی سی کو بتایا تھا کہ پورے باجوڑ میں 12 گھنٹوں کے لیے کرفیو نافذ کیا گیا ہے جبکہ لوئے ماموند اور وڑا ماموند میں تین دن کے لیے یہ کرفیو نافذ رہے گا۔

اگرچہ یہ ٹارگٹڈ آپریشن تحصیل ماموند کے مختلف دیہاتوں میں شروع کیا گیا ہے لیکن مقامی لوگوں نے بتایا کہ ’اب لگتا ہے کہ آپریشن پورے ضلع میں جاری ہے کیونکہ باجوڑ میں داخلی راستے بند کر دیے گئے ہیں اور شاہراہوں پر مکمل ویرانی ہے اور بیشتر اہم بازار بھی بند ہیں۔‘

’جرگے کو فیصلے کا اختیار ہی نہیں دیا گیا تھا‘

یہ آپریشن مقامی عمائدین اور سیاسی رہنماؤں پر مشتمل ایک جرگے کی مذاکرات کی کوششوں کے بعد شروع کیا گیا ہے۔

اس نمائندہ جرگہ کے رہنما اور ناواگئی کے تحصیل چیئرمین خلیل الرحمان نے بی بی سی کو بتایا کہ ’جرگے کو فیصلے کا اختیار ہی نہیں دیا گیا تھا۔‘

انھوں نے بتایا کہ ’جرگے نے کوششیں کی اور اس کے لیے فریقین سے رابطے بھی کیے لیکن فریقین طاقتور ہیں اور دونوں اپنے اپنے موقف پر بدستور قائم ہیں۔‘

انھوں نے کہا کہ اس کے لیے انھوں نے طالبان سے بھی بات کی اور پھر وزیر اعلی خیبر پختونخوا علی امین گنڈا پور سے تفصیلی جرگہ ہوا لیکن انھیں کامیابی حاصل نہیں ہو سکی۔‘

ان کا کہنا تھا کہ ’جرگہ اس وقت کامیاب ہوتا ہے جبکہ فریقین جرگے کو فیصلہ کرنے کا اختیار دیتے ہیں اور پھر جرگہ فریقین کو سنتا ہے اوراس کے بعد جو درمیانی راستہ ہوتا ہے اس کے مطابق فیصلہ کیا جاتا ہے لیکن یہاں تو فریقین اپنے اپنے موقف پر ڈٹے ہوئے تھے اس لیے جرگہ اس آپریشن کو روک نہیں پایا۔‘

معاہدے کے باوجود باجوڑ میں گھر پر مارٹر گولہ گرنے سے متعدد زخمی: تحصیل ماموند میں ’ٹارگٹڈ کارروائیوں‘ کی ضرورت کیوں پیش آئی؟کوہستان میں لاپتہ شخص کی لاش 28 سال بعد ایک گلیشیئر سے برآمد ہونے کا معمہ: ’جسم صحیح سلامت تھا، کپڑے بھی پھٹے ہوئے نہیں تھے‘کاٹلنگ میں ’شدت پسندوں کے خلاف‘ حملہ اور پاکستان کی ڈرون صلاحیتتیراہ میں سکیورٹی فورسز کے کیمپ کے سامنے فائرنگ کے واقعے میں پانچ افراد کی ہلاکت: صوبائی حکومت متاثرہ خاندانوں کے ساتھ کھڑی ہے، بیرسٹر سیف

اس جرگے میں شامل سابق رکن قومی اسمبلی اور جماعت اسلامی کے رہنما ہارون رشید نے بی بی سی کو بتایا کہ جرگہ اس حد تک کامیاب ہوا ہے کہ فوری طور پر جنگ بندی ہو گئی تھی اور فریقین کو سنا گیا لیکن ایک جگہ ’ڈیڈ لاک‘ آگیا تھا جس وجہ سے یہ مسئلہ حل نہیں ہو سکا۔

جب ان سے پوچھا گیا کہ ڈیڈ لاک کس بات پر ہوا تھا تو ان کا کہنا تھا کہ ’جرگے میں ہونے والی گفتگو کے بارے میں تفصیل فراہم کرنے پر پابندی عائد کی گئی ہے کیونکہ ہو سکتا ہے کہ یہ مذاکرات آئندہ پھر سے شروع ہوں۔‘

ان کا کہنا تھا کہ ’کوئی بھی مسئلہ بندوق سے حل نہیں ہوتا آخر میں مذاکرات کے ذریعے ہی حل تلاش کیا جاتا ہے۔‘

اس جرگے میں مقامی سیاسی اور قبائلی رہنما شامل تھے جن میں سابق رکن قومی اسمبلی ہارون رشید، پاکستان تحریک انصاف کے سابق رکن قومی اسمبلی گل ظفر خان، رکن صوبائی اسمبلی ڈاکٹر حمید،ڈاکٹر خلیل، ملک خالد اور دیگر شامل ہیں۔

جرگہ اراکین نے شدت پسندوں سے لغڑی ماموند کے علاقے میں ملاقاتیں کیں اور ان سے کہا ہے کہ وہ آبادی سے نکل جائیں کیونکہ ان کی آبادی میں موجودگی سے عام شہری بری طرح متاثر ہو رہے ہیں لیکن اس بارے میں کوئی مثبت جواب موصول نہیں ہوا۔

جرگے کے ایک رکن نے بتایا کہ ’اگر وہ آبادی سے نکل کر پہاڑوں پر چلے جاتے اور وہاں جنگ ہوتی تو وہ جنگ پھر آبادی میں ہی آجاتی ہے اور یہی وجہ ہے کہ جرگہ اراکین اس جنگ کے ہی خلاف ہیں۔‘

علاقے میں خوف ہے، سڑکیں، بازار اور مارکیٹیں بند ہیں

باجوڑ میں لوگوں نے بتایا کہ علاقے میں خوف ہے، سڑکیں، شاہراہیں، بازار اور مارکیٹیں بند ہیں، تمام کاروبار ٹھپ ہیں۔ ماموند سے لوگوں نے نقل مکانی کی ہے لیکن ان کی تعداد سرکاری سطح پر نہیں بتائی گئی۔

مقامی انتظامی افسر نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ سات ہزار سے آٹھ ہزار خاندان نقل مکانی کر رہے ہیں اور یہ تعداد تقریباً پچاس ہزار سے ساٹھ ہزار افراد تک ہو سکتی ہے۔

مقامی افسر نے بتایا ہے کہ ان متاثرین کے لیے مقامی سطح پر سکول کالجز اور سپورٹس کمپلیکس میں آئی ڈی پی کیمپ قائم کیے گئے ہیں جبکہ باجوڑ میں محفوظ مقامی پر خیمے بھی نصب کیے گئے ہیں۔

نقل مکانی کا یہ سلسلہ 29 جولائی سے شروع کیا گیا تھا جبکہ پہلی مرتبہ اچانک ماموند میں کرفیو نافذ کرکے ٹارگٹڈ کارروائی شروع کر دی گئی تھی۔ اس کارروائی کے دوران دو افراد ہلاک ہو گئے تھے۔

اگرچہ ان شدت پسندوں کی تعداد کے بارے میں کوئی واضح اعداد و شمار سرکاری سطح پر فراہم نہیں کیے گئے ہیں لیکن ماموند میں سکیورٹی ذرائع کے مطابق 200 سے 300 شدت پسند موجود ہو سکتے ہیں جن کے خلاف ٹارگٹڈ کارروائی شروع کی گئی ہے۔

خیال رہے ماموند کا علاقہ پاک افغان سرحد کے قریب واقع ہے۔

سینیئر صحافی اور تجزیہ کار مشتاق یوسفزئی نے بی بی سی کو بتایا کہ انھیں ملنے والی اطلاعات کے مطابق ’کچھ عرصے کے دوران اس علاقے میں شدت پسندوں کی ایک بڑی تعداد واپس آ گئی تھی۔ ان کی تعداد کے بارے میں متضاد اطلاعات ہیں لیکن ایک اندازے کے مطابق ان کی تعداد ایک ہزار کے لگ بھگ ہو سکتی ہے۔‘

’ان میں ایسے عناصربھی شامل ہیں جو ان علاقوں کے رہائشی تھے اور اس کے علاوہ افغانستان کے شہری بھی شامل ہیں۔ افغانستان کی سرحد کے قریب واقع ہونے کی وجہ سے یہاں شدت پسندوں کی آمدورفت دیکھی گئی ہے اور ان علاقوں میں شدت پسندوں کی موجودگی کی واضح اطلاعات بھی موصول ہو رہی تھیں۔‘

سرکاری ذرائع نے بی بی سی کو بتایا ہے کہ ’بنیادی طور شدت پسند آبادی میں شامل ہو گئے ہیں اور ان کے خلاف کارروائی میں مشکلات کا سامنا ہے۔ اگر ان کے خلاف کارروائی نہیں ہوتی تو آگے چل کر مشکلات بڑھ سکتی ہیں۔‘

انھوں نے مزید بتایا کہ ’ان شدت پسندوں کی تعداد تقریباً دو سو کے لگ بھگ ہے اور یہ عام شہریوں کا سہارا لے کر یہاں رہ رہے ہیں۔‘

مشتاق یوسفزئی نے بتایا کہ ’اس علاقے میں آنے والے شدت پسندوں میں زیادہ تر اسی علاقے کے رہنے والے لوگ ہیں اور وہ اپنے گھروں میں یا قریبی علاقے میں یا کہیں مساجد میں رہتے ہیں۔‘

انھوں نے کہا ’یہ معلوم نہیں ہے کہ ان کے ساتھ کوئی افغان یا دیگر لوگ بھی شامل ہیں یا نہیں۔‘

باجوڑ میں کشیدگی کا آغاز کیسے ہوا؟

پاکستان میں دہشت گردی کے خلاف جنگ کے دوران سال 2007 میں شدت پسند باجوڑ میں بھی پھیل گئے تھے جس سے علاقے میں کشیدگی بڑھ گئی تھی۔ سکیورٹی فورسز نے اگست 2008 میں آپریشن ’شیر دل‘ کے نام سے فوجی آپریشن شروع کیا تھا جو فروری 2009 تک جاری رہا تھا۔ اس دوران شدت پسندوں کو اس علاقے سے نکال دیا گیا تھا۔

مشتاق یوسفزئی نے بتایا کہ ماموند سے نکل کر یہ لوگ مختلف علاقوں میں پھیل گئے تھے اور اور ایک بڑی تعداد افغانستان کی جانب چلی گئی تھی۔

ان کا کہنا تھا کہ ’2022 میں جب پاکستانی حکومت نے طالبان سے مذاکرات شروع کیے تو اس دوران یہ شدت پسند دوبارہ ان علاقوں میں آگئے جس کے بعد ٹارگٹ کلنگ اور تشدد کے واقعات پیش آنا شروع ہو گئے تھے۔ ان کے خلاف بھی سکیورٹی فورسز نے کارروائیاں کی ہیں۔‘

مقامی لوگوں کا کہنا ہے کہ اس وقت عام شہری مشکل صورتحال میں ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ ’مسلح کارروائیوں میں نقصان عام شہریوں کا ہوتا ہے جس وجہ سے کچھ لوگوں نے نقل مکانی بھی شروع کر دی ہے۔‘

خیبر پختونخوا کے مختلف علاقوں میں تشدد کے واقعات اور پھر فوجی کارروائیوں کے بارے میں آرا مختلف ہیں۔

ٹانک اور ضلع خیبر کے علاقے تیراہ میں ایک بچی کی ہلاکت کے بعد مظاہرے اور فائرنگ کے واقعات پر علی امین گنڈا پور نے متاثرہ علاقوں خاص طور پر ضم اضلاع کے قبائلی اور سیاسی قائدین سے جرگے منعقد کرنے کا اعلان کیا تھا۔

اس سلسلے میں مختلف قبائلی علاقوں اور ان کے ساتھ واقع کچھ شہری علاقوں کے عمائدین نے وزیر اعلی سے ملاقاتیں کی تھیں۔ باجوڑ اور مہمند کے رہنماؤں سے جرگے میں مختلف موضوعات پر بات چیت ہوئی بھی ہوئی تھی۔

پاکستان تحریک انصاف صوبے میں فوجی آپریشنز کے خلاف رہی ہے اور ان جرگوں میں بھی کہا گیا تھا کہ بغیر کسی فوجی آپریشن کے ان علاقوں میں امن قائم کیا جائے گا لیکن اب امن کے قیام کے لیے باجوڑ میں ’ٹارگٹڈ آپریشنز‘ یا کارروائیاں شروع کی گئی ہیں لیکن اب تک یہ معلوم نہیں ہے کہ کیا یہ دائرہ کار دیگر علاقوں تک بھی پھیلایا جائے گا؟

معاہدے کے باوجود باجوڑ میں گھر پر مارٹر گولہ گرنے سے متعدد زخمی: تحصیل ماموند میں ’ٹارگٹڈ کارروائیوں‘ کی ضرورت کیوں پیش آئی؟’محرم کے بعد چھٹی پر آؤں گا‘: باجوڑ دھماکے میں ہلاک ہونے والے اسسٹنٹ کمشنر جو دوستوں سے کیا وعدہ پورا نہ کرسکےخیبر پختونخوا کے قبائلی علاقوں میں مبینہ ڈرون حملوں کے بعد خوف: ’اب لوگ گھروں میں بھی محفوظ نہیں‘تیراہ میں سکیورٹی فورسز کے کیمپ کے سامنے فائرنگ کے واقعے میں پانچ افراد کی ہلاکت: صوبائی حکومت متاثرہ خاندانوں کے ساتھ کھڑی ہے، بیرسٹر سیفکوہستان میں گلیشیئر سے ملنے والی 28 برس پرانی لاش جس کی تدفین کے لیے جرگے کی مدد سے ’جنگ بندی‘ کروانا پڑیخیبر پختونخوا میں تشدد اور ’تشویشناک صورتحال‘: متاثرہ علاقوں اور پس پردہ تنظیموں کے بارے میں ہم کیا جانتے ہیں؟
مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More