“میں نے اسلام خود اپنی مرضی سے قبول کیا، اور یہ لمحہ میرے لیے ایک نئی زندگی کی طرح تھا۔ جب میں نے کلمہ پڑھا، تو ایسا لگا جیسے میری روح آزاد ہوگئی ہو۔”
یہ الفاظ ہیں اطالوی شہری توماسو بورٹولازی کے، جو فلسطینیوں کے لیے امداد لے جانے والی گلوبل صمود فلوٹیلا کے رکن تھے اور اسرائیلی جیل میں قید کے دوران اسلام قبول کرچکے ہیں۔ ترک خبررساں ادارے کے مطابق توماسو فلوٹیلا کی کشتی ماریا کرسٹن کے کپتان تھے، جنہیں اسرائیلی فورسز نے سمندر میں فلوٹیلا پر حملے کے دوران گرفتار کیا۔
رہائی کے بعد جب وہ ترکیے پہنچے تو میڈیا سے بات کرتے ہوئے ان کا لہجہ گہرے احساسات سے بھرا ہوا تھا۔ توماسو نے کہا، “میں فلوٹیلا میں اس لیے شامل ہوا کیونکہ مجھے یقین تھا کہ فلسطینیوں کے لیے یہ سب سے درست قدم ہے جو میں اٹھا سکتا تھا۔” وہ کہتے ہیں کہ جیل میں گزرا ہر لمحہ ان کے ایمان کی سمت بڑھنے کا ایک امتحان ثابت ہوا۔
ان کے بقول اسرائیلی جیل میں حالات نہایت کٹھن تھے، لیکن جو چیز انہیں سب سے زیادہ متاثر کرتی تھی، وہ ان کے ترک مسلمان ساتھیوں کی استقامت تھی۔ “جب وہ نماز کے لیے کھڑے ہوتے، تو اسرائیلی فوجی انہیں روکنے کی کوشش کرتے۔ اسی لمحے مجھے احساس ہوا کہ اگر یہ لوگ تمام مشکلات کے باوجود اپنے رب کے سامنے جھکنے سے نہیں ڈرتے تو میں کیوں ڈر رہا ہوں؟”
اسی جذبے کے تحت توماسو نے جیل کی سلاخوں کے پیچھے کلمہ پڑھا۔ وہ کہتے ہیں، “میں نے یہ فیصلہ کسی دباؤ میں نہیں، بلکہ دل کی پکار پر کیا۔ اسلام قبول کرتے وقت مجھے لگا جیسے میں دوبارہ پیدا ہوا ہوں۔”
ترکی پہنچنے کے بعد جب ان سے پوچھا گیا کہ کیا وہ اپنے فیصلے پر مطمئن ہیں، تو ان کے چہرے پر ایک مطمئن مسکراہٹ پھیل گئی۔ “میں نے سچائی پا لی ہے۔ میری زندگی کا مقصد اب پہلے سے زیادہ واضح ہے۔”
توماسو بورٹولازی کی یہ داستان نہ صرف فلوٹیلا مشن کی قربانیوں کی عکاس ہے بلکہ اس بات کا ثبوت بھی ہے کہ ایمان کا سفر کسی سرحد یا قومیت کا محتاج نہیں۔ اسرائیلی قید میں گزرے وہ دن، جو بظاہر اذیت ناک تھے، دراصل ان کے لیے ایک روحانی انقلاب کا آغاز بن گئے۔