’وہاں پر سیکس اور بیویوں سے متعلق لطیفے سنائے جا رہے تھے۔ سعودی عرب جیسے ملک میں اس نوعیت کی کامیڈی دیکھنا بہت غیر معمولی ہے۔‘
یہ کہنا ہے سعودی عرب میں مقیم ایک خاتون کا جنھوں نے سعودی عرب میں اپنی نوعیت کے پہلے ریاض کامیڈی فیسٹیول میں شرکت کی۔
اُن کا کہنا تھا کہ ’وہاں لوگوں کا جوش و خروش دیکھنے کے لائق تھا۔ میں نے ایسا ماحول یہاں کبھی نہیں دیکھا تھا۔‘
سارہ (فرضی نام) نے امریکی کامیڈی سٹارز ڈیو شپیل اور بل بر کی پرفارمنسز دیکھی۔
اُن کا کہنا تھا کہ ان کامیڈیئنز نے سعودی عرب میں انسانی حقوق کی صورتحال سے متعلق کوئی بات نہیں کی۔ لیکن اُن کے بقول اس سے اُنھیں کوئی مسئلہ نہیں تھا۔ کیونکہ اگر وہ ’یہاں ایسی باتیں کرتے تو آج اُنھیں پرفارم کرنے کی اجازت نہ ملی ہوتی۔‘
جمی کار، جیک وائٹ ہال، کیون ہارٹ، رسل پیٹرز اور امید جلیلی جیسے مشہور مزاحنگاروں کو ساتھی فنکاروں کی جانب سے فیسٹیول میں پرفارم کرنے پر شدید تنقید کا سامنا ہے۔
جمعے کو خاتون مزاح نگار جیسیکا کرسن نے فیسٹیول میں شرکت کرنے پر معذرت کرتے ہوئے اپنی فیس انسانی حقوق کی تنظیم کو عطیہ کرنے کا اعلان بھی کیا ہے۔
انسانی حقوق کی عالمی تنظیموں کو سعودی عرب میں انسانی حقوق کی صورتحال پر تشویش رہتی ہے۔ لیکن سعودی عرب نے حالیہ برسوں میں اس تاثر کو تبدیل کرنے کی کوشش کی ہے۔
یہ فیسٹیول زور و شور کے ساتھ جاری ہے۔ اسی سلسلے میں ہم نے حاضرین اور مزاح نگاروں سے یہ جاننے کی کوشش کی ہے کہ اصل میں ہو کیا رہا ہے اور لوگوں کا اس پر کیا ردعمل ہے؟
فیسٹیول کے دوران کیا کہا گیا؟
ریاض کامیڈی فیسٹیول کا آغاز گذشتہ ہفتےکے آخر میں ایک آل سٹار اور بنیادی طور پر مرد لائن اپ کے ساتھ ہوا۔
سب سے پہلے ہال میں داخل ہونے والوں میں زین (فرضی نام) بھی تھے۔
اُنھوں نے اپنے دوستوں کے ہمراہ امید جلیلی اور بل بر کے سیشنز میں شرکت کی اور اگلے ہفتے اُنھوں نے جمی کار کی پرفارمنس دیکھنے کی بھی ٹکٹ کروا رکھی ہے۔
زین بتاتے ہیں کہ کامیڈین کی پرفارمنس کے دوران ہم جنس پرستوں اور ٹرانس جینڈرز کے بارے میں لطفیے سنائے گئے جن میں بہت سا ’بیہودہ مواد‘ بھی شامل تھا۔
اُن کے بقول بل بر کے افتتاحی سیشن میں دس منٹ کا پروگرام مکمل طور پر سیکس کے بارے میں تھا۔
ریاض میں مقیم زین کا کہنا تھا کہ وہ اس طرح کے لطیفے سن کر حیران رہ گئے تھے۔ ایک ایسے ملک میں جہاں کا معاشرہ قدامت پسند ہے اور جہاں ہم جنس پرستی غیر قانونی ہے، وہاں یہ سب دیکھنا بہت عجیب تھا۔
واضح رہے کہ سعودی قوانین کے مطابق ہم جنس پرستی کی سزا موت ہے۔
زین کا مزید کہنا تھا کہ ’میں یقین نہیں کر سکتا کہ لوگ سعودی عرب میں یہ باتیں کہہ رہے ہیں۔ یہاں بہت سے لوگوں نے کبھی سٹینڈ اپ کامیڈی نہیں دیکھی تھی، اس طرح کے مواد کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔‘
Getty Imagesحاضرین نے بتایا کہ کامیڈین امید جلیلی نے خطے سے متعلق اپنا ہوم ورک پہلے سے ہی کر رکھا تھا
زین کا کہنا تھا کہ ’ان لطیفوں کو بھی خوب پذیرائی مل رہی تھی۔ میرے سامنے مقامی سعودی خواتین کا ایک گروپ تھا جو ان باتوں پر ہنس رہی تھیں۔‘
سارہ کہتی ہیں کہ چیپل کا پروگرام بھی متنازع تھا اور اُنھوں نے بھی ٹرانس جینڈرز سے متعلق لطیفے سنائے۔
اُن کے بقول ’خلیجی ریاست میں اس طرح کے لطیفے سننا واقعی غیر معمولی ہے اور عربی میں اس کے لیے حرام کا لفظ استعمال کیا جاتا ہے۔‘
زین کہتے ہیں کہ جلیلی نے سعودی ثقافت کا مذاق اُڑایا جبکہ حجاب اور خواتین کی ڈرائیونگ سے متعلق بھی جملے کسے۔
اُن کے بقول ’جلیلی نے ایک خاکہ بھی پیش کیا جس میں یہ مذاق اُڑایا گیا کہ کیسے ریاض والے یہ سمجھتے ہیں کہ وہ زمین پر خدا کا تحفہ ہیں۔‘
زین کہتے ہیں کہ بر بہت زیادہ گھبرائے ہوئے نظر آئے۔ وہ اپنی بیوی اوربچوں سے متعلق بار بار سنائے جانے والے لطیفوں میں پھنس کر رہ گئے۔
فیسٹیول میں مقامی سعودی شہریوں کے ساتھ ساتھ یہاں روزگار اور سیاحت کے لیے آئے دیگر ممالک کے شہریوں کی بھی بڑی تعداد موجود تھی۔
سعودی حکومت پر تنقید سے اجتناب
فیسٹیول میں بہت سی باتوں سے گریز بھی کیا جا رہا تھا۔
بہت سے حاضرین کا کہنا تھا کہ ان شوز کے دوران سعودی حکومت کی کسی بھی پالیسی کے ذکر سے اجتناب برتا گیا۔
فیسٹیول سے قبل ہیومن رائٹس واچ نے کہا تھا کہ یہ میلہ سعودی حکومت کی جانب سے اپنی ساکھ بہترین کرنے کی ایک کوشش ہے۔
گروپ نے متنبہ کیا کہ سعودی مخالفین، صحافیوں اور انسانی حقوق کے کارکنوں کو بلاجواز حراست میں لیا جا رہا ہے۔ اس نے ریاض میں پرفارم کرنے والے ہر فرد پر زور دیا کہ وہ انسانی حقوق اور آزادی اظہار جیسے موضوعات پر بات کرنے کا موقع استعمال کریں۔
ہیومن رائٹس واچ کی سعودی عرب کی محقق جوئی شیا نے بی بی سی نیوز کو بتایا کہ ’اب تک میں نے کسی بھی مزاح نگار کو نہ صرف سٹیج پر بلکہ سوشل میڈیا یا کہیں بھی یہ مسائل اٹھاتے ہوئے نہیں دیکھا۔ یہ بہت مایوس کن ہے۔‘
کامیڈین اتسوکو اوکاٹسوکا نے اپنی ’ایکس‘ پوسٹ میں کہا کہ اُنھوں نے یہاں پرفارم کرنے کی پیشکش کو ٹھکرا دیا تھا۔
اُنھوں نے فنکاروں کو پرفارمنس سے قبل دیے گئے ایک معاہدے کو بھی شیئر کیا جس میں کہا گیا کہ اس فیسٹیول کے دوران سعودی شاہی خاندان یا مذہب سے متعلق کسی بھی غیر مناسب بات پر مکمل پابندی ہو گی۔
بی بی سی نیوز آزادانہ طور پر اس طرح کے معاہدے کی موجودگی کی تصدیق نہیں کر سکا۔
لیکن برطانوی کامیڈین روزی ہولٹ کا کہنا ہے کہ مزاح نگاروں کو اس طرح کے ہدایت نامے ملنے کی مثال کم ہی ملتی ہے۔
اُن کے بقول ’میں نے صرف یہ سنا ہے کہ کبھی کبھی یونیورسٹیوں میں محفلوں میں ایسا ہوتا ہے، جیسے ہم جنس پرست یا نسل پرستی پر جملوں سے گریز کرنے جیسی ہدایات، لیکن اس نوعیت کی پابندیاں غیر معمولی ہیں۔‘
شہزادوں کو قید اور ’والد کو رشتہ داروں سے دور‘ کرنے والے 40 سالہ محمد بن سلمان نے سعودی سلطنت پر اپنی گرفت کیسے مضبوط کی؟تیل، طاقت اور 45 کروڑ ڈالر کی تصویر: سعودی ولی عہد ’ایم بی ایس‘ کی گمنامی سے عروج کی کہانیریاض سیزن: سعودی فیشن شو میں ’شیشے کا کیوب‘ اور کعبہ سے مماثلت کا تنازع سعودی عرب نے جارحانہ حکمت عملی ترک کر کے ’بین الاقوامی ثالث‘ کا کردار کیوں اپنایا اور بطور ثالث یہ قطر سے کیسے مختلف ہے؟’یہ اخلاقی طور پر ناگوار ہے‘
ناقدین فیسٹویل کے انعقاد کی تاریخوں پر اعتراض اُٹھا رہے ہیں۔ یہ 26 ستمبر سے نو اکتوبر تک ان تاریخوں کے دوران ہو رہا ہے جب دو اکتوبر کو سعودی صحافی جمال خاشقجی کی برسی بھی ہے۔
سعودی شاہی خاندان کے ناقد جمال خاشقجی دو اکتوبر سنہ 2018کو استنبول میں سعودی قونصل خانے میں گئے تھے جس کے بعد اُن کی لاش ملی تھی جس کے ٹکڑے کر دیے گئے تھے۔
امریکی انٹیلی جنس رپورٹ کے مطابق سعودی ولی عہد محمد بن سلمان نے ان کے قتل کی منظوری دی تھی۔ سعودی عرب نے اس رپورٹ کو مسترد کر دیا تھا۔
سعودی ولی عہد محمد بن سلمان نے بھی اس قتل میں کسی بھی قسم کے کردار سے انکار کیا تھا۔
فیسٹیول کے ناقد امریکی مزاح نگار مارک مارون نے ایک سٹینڈ اپ کلپ میں بلواسطہ محمد بن سلمان کو نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ ’وہی لڑکا جو [مزاحیہ اداکاروں کو] ادائیگی کرنے والا ہے وہی آدمی ہے جس نے جمال خاشقجی کو ہڈیوں میں تبدیل کرنے اور انھیں سوٹ کیس میں ڈالنے کا کہا۔
روزی ہولٹ کا کہنا تھا کہ ’اگر کامیڈینز ریاض جا رہے ہیں اور وہاں جا کر جمال خاشقجی پر بات کریں تو میں اسے منصفانہ سمجھوں گی، لیکن مجھے یہ بھی معلوم ہے کہ وہ ایسا نہیں کریں گے۔‘
اُنھوں نے کہا کہ ’یہ ایک پرانی کہاوت ہے کہ مزاح نگار طاقت کے سامنے سچ بولتے ہیں‘، ان میں سے بہت سے مزاح نگار آزادی اظہار کے بڑے علمبردار رہے ہیں۔ لیکن سعودی عرب جا کر پرفارم کرنا، جہاں اظہار رائے کی آزادی پر پابندی ہے۔ یہ اخلاقی طور پر ناگوار ہے۔‘
لاس اینجلس سے تعلق رکھنے والے مزاحیہ اداکار اور ٹک ٹاکر یلکس فالکون تسلیم کرتے ہیں کہ گو کہ امریکہ میں بھی بولنے کی آزادی پر قدغنیں لگ رہی ہیں۔ لیکن یہ فیسٹیول تو مکمل طور پر سعودی حکومت کی ایما پر ہو رہا ہے جس پر مجھے اعتراض ہے۔
اُن کا کہنا تھا کہ کسی ملک میں پرفارم کرنا اور کسی ملک کے لیے پرفارم کرنے میں فرق ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ اگر مجھے یہ کہنے کے پیسے دیے جائیں کہ ’ٹرمپ بہت عظیم ہیں‘ تو میں ایسے کسی ایونٹ میں پرفارم نہیں کروں گا۔
سعودی عرب کی جنرل انٹرٹینمنٹ اتھارٹی، جس نے تہوار کا اعلان کیا، فوری طور پر تبصرہ کی درخواست کا جواب نہیں دیا۔ لندن میں سعودی سفارت خانے سے تبصرے کے لیے رابطہ کیا گیا ہے۔
چیپل، جلیلی، بر اور وائٹ ہال اور کار نے بی بی سی کی جانب سے پوچھے گئے سوالات پر تاحال کوئی جواب نہیں دیا۔
Getty Imagesامریکی سپر سٹار کیون ہارٹ نے اس ہفتے کے شروع میں پرفارم کیا تھا۔لاکھوں ڈالرز کی پیشکش
فیسٹیول میں شرکت کرنے والوں کو دی جانے والی رقم کا معاملہ بھی موضوع بحث ہے۔
امریکی مزاح نگار ٹم ڈلن نے ایک پوڈ کاسٹ میں کہا کہ اُنھوں نے مجھے بھاری رقم کی پیشکش کی۔
اس پوڈ کاسٹ کے بعد ٹم ڈلن کو پرفارمرز کی فہرست سے نکال دیا گیا تھا۔ ٹم کا دعوی ہے کہ اُنھیں ایک سیگمنٹ کے لیے پونے چار لاکھ ڈالرز تک کی پیشکش کی گئی۔
امریکی اسٹار شین گیلس نے اپنے پوڈ کاسٹ پر کہا کہ اُنھوں نے تقریب میں پرفارم کرنے کی ایک ’اہم‘ پیشکش کو مسترد کر دیا ہے۔ انھوں نے کہا کہ میں نے اصولی موقف اختیار کیا۔
فالکون کہتے ہیں کہ جن لوگوں کو مدعو کیا گیا، وہ پہلے ہی بہت کامیاب ہیں۔ اگر کیون ہارٹ کی بات کریں تو اُن کے لیے یہ کوئی مشکل سال نہیں رہا۔
یہ صرف مزاح نگار ہی نہیں جنھوں نے حالیہ برسوں میں سعودی حکومت سے بڑی رقم لی ہے۔
ایک ایسی قوم کے طور پر جو تیل پر بہت زیادہ انحصار کرتی رہی ہے، سعودی عرب معاشی، سماجی اور ثقافتی طور پر خود کو متنوع بنانے کے لیے کام کر رہا ہے۔
اس کا ویژن 2030 منصوبہ، جس کی سربراہی ولی عہد شہزادہ کر رہے ہیں، میں سیاحت، تفریح اور کھیل جیسے شعبوں کو فروغ دینا ہے۔
حالیہ برسوں میں، سعودی عرب نے 2034 مردوں کے فٹ بال ورلڈ کپ سمیت کئی بڑے بین الاقوامی مقابلوں کی میزبانی کے حقوق حاصل کیے ہیں۔
زین تسلیم کرتے ہیں کہ ریاض میں مزاح نگار ریاست یا اس کے رہنماؤں کے بارے میں مذاق نہیں کریں گے، جیسا کہ وہ کہیں اور کر سکتے ہیں۔
تیل، طاقت اور 45 کروڑ ڈالر کی تصویر: سعودی ولی عہد ’ایم بی ایس‘ کی گمنامی سے عروج کی کہانیسعودی عرب میں غیرملکیوں کو جائیداد خریدنے کی اجازت دینے کا فیصلہ سعودی معیشت پر کیا اثر ڈال سکتا ہے؟ایران، امریکی اڈے اور ’بھٹو کا عہد‘: اسلامی ممالک کا متحد ہونا اتنا مشکل کیوں ہے؟