بظاہر پاکستان، امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی طرف سے پیش کردہ مجوزہ غزہ امن منصوبے سے دوری اختیار کرنے کی کوشش کرتا نظر آ رہا ہے اور نائب وزیراعظم اور وزیر خارجہ اسحاق ڈار نے واضح کیا ہے کہ یہ منصوبہ اُن نکات سے مختلف ہے جو آٹھ مسلم ممالک نے تجویز کیے تھے۔
اسحاق ڈار کے مطابق ٹرمپ کے منصوبے میں جنگ بندی، انسانی امداد کی فراہمی اور جبری بے دخلی کے خاتمے جیسے اہم نکات شامل نہیں، اس لیے پاکستان اس کی تائید نہیں کرتا اور کہا: ’یہ ہماری دستاویز نہیں ہے۔‘
یاد رہے کہ وائٹ ہاؤس پر امن منصوبے کے نکات شیئر کرنے اور اس سے قبل اسرائیلی وزیراعظم نتن یاہو اور صدر ٹرمپ کی ملاقات سے گھنٹوں پہلے ہی پاکستان کے وزیراعظم شہباز شریف نے اس امن منصوبے کا خیر مقدم کیا تھا اور کہا تھا کہ ’میں صدر ٹرمپ کے 20 نکاتی منصوبے کا خیر مقدم کرتا ہوں، جس کا مقصد غزہ میں جنگ کے خاتمے کو یقینی بنانا ہے۔۔۔‘
امن منصوبے کے اعلان کے موقع پر صدر ٹرمپ نے بھی دعویٰ کیا تھا کہ وزیراعظم شہباز شریف اور فیلڈ مارشل عاصم منیر اُن کے غزہ منصوبے کے ’100 فیصد‘ حامی ہیں۔
مگر جیسے ہی اس منصوبے کی تفصیلات وائٹ ہاؤس کی ویب سائٹ پر شائع کی گئیں تو بظاہر پاکستانی کی پریشانی میں اضافہ ہوا۔
اور پھر اگلے ہی روز وزیر خارجہ اسحاق ڈار امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے غزہ امن منصوبے سے کچھ فاصلہ اختیار کرتے دکھائی دیے۔
پاکستانی حکومت کے اِس بدلتے موقف کے بعد یہ سوال اٹھتا ہے کہ یہ اچانک تبدیلی کیوں رونما ہوئی؟ کیا پاکستان نے ابتدا میں ٹرمپ کے منصوبے کی حمایت کرنے میں جلدبازی کا مظاہرہ کیا تھا؟ کیا حالیہ موقف کی تبدیلی اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو کے اصرار پر منصوبے میں کی گئی ترامیم کا ردعمل ہے، یا اس کے پیچھے پاکستان کا اندرونی سیاسی دباؤ اصل وجہ ہے؟
خیال رہے ٹرمپ کے غزہ منصوبے اور پاکستان کی جانب سے اس کی حمایت پر پاکستانی سیاستدانوں اور سوشل میڈیا صارفین کی جانب سے وسیعپیمانے پر تنقید کی گئی ہے۔
’ٹائمز آف اسرائیل‘ کی ایک رپورٹ کے مطابق نتن یاہو نے ٹرمپ سے ملاقات کے دوران اس معاہدے میں کچھ تبدیلیاں کروائی ہیں۔
رپورٹ میں بتایا گیا کہ ان ترامیم کے تحت اسرائیلی فوج کی غزہ سے واپسی اب مخصوص شرائط سے مشروط ہے اور ایک حفاظتی زون قائم کرنے کی تجویز بھی بعد میں شامل کی گئی ہے۔ اس سے قبل پیش کردہ منصوبے میں اسرائیل کی ریڈ لائنز کے حوالے سے وضاحت کم تھی۔
’اس میں ہماری تجویز کردہ ترامیم شامل نہیں ہیں‘
منگل کو اسلام آباد میں پریس کانفرنس میں نائب وزیراعظم اور وزیر خارجہ اسحاق ڈار نے کہا کہ امریکی صدر ٹرمپ کے غزہ امن منصوبے میں وہ اہم نکات شامل نہیں جو پاکستان نے سات دیگر مسلم ممالک کے ساتھ مل کر تجویز کیے تھے۔
انھوں نے کہا کہ ’یہ اہداف ہم نے انھیں (ٹرمپ) کو بتائے تھے اور ان سے کہا تھا کہ وہ ان کے حصول میں ہمارے ساتھ کام کریں۔‘ ڈار نے مزید کہا کہ امریکی صدر نے آٹھ ممالک کے وزرائے خارجہ سے ایک ’قابلِ عمل حل‘ دینے کا وعدہ کیا تھا۔
تاہم، اسحاق ڈار کے مطابق اسرائیلی وزیرِ اعظم نتن یاہو کی مداخلت کے بعد امریکی منصوبے میں تبدیلی کی گئی اور اس میں ایسی شرائط شامل کر دی گئیں جن کے تحت اسرائیل کا انخلا حماس کے ہتھیار ڈالنے سے مشروط ہے۔
بعد میں نجی چینل جیو نیوز پر شاہزیب خانزادہ کے پروگرام میں میزبان کے اس سوال کے ’کیا یہ وہی معاہدہ ہے جس پر آپ لوگوں کا اتفاق ہوا تھا؟‘ اسحاق ڈار نے اپنی بات دہراتے ہوئے کہا کہ ’اس میں ہماری تجویز کردہ تمام ترامیم شامل نہیں ہیں‘۔
اسحاق ڈار نے کہا ’جوائنٹ سٹیٹمنٹ میں ہم نے صدر ٹرمپ کے الگ نقطۂ نظر کو تسلیم کیا اور سراہا ہے، اور اس کے بعد ہم نے اپنا ایجنڈا بھی دوبارہ دہرایا کہ ہم کن اہداف کے لیے پرعزم ہیں اور ہم مل کر صدر ٹرمپ اور ان کی ٹیم کے ساتھ یہ حاصل کریں گے۔ اور آٹھ ممالک اس پر پرعزم ہیں۔‘
نائب وزیراعظم اسحاق ڈار نے کہا کہ قطر سمیت دو عرب ممالک نے یقین دہانی کروائی ہے کہ حماس اس معاہدے کو قبول کرے گا۔
اسحاق ڈار نے مزید وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ ’میں واضح کر دوں کہ ہم کسی (ابراہم) ایکارڈ کا حصہ نہیں بننے جا رہے۔ ہماری پالیسی وہی ہے: اسرائیل کو جس حیثیت میں ہے ویسا ہی رہنے دیں، ہم اسرائیل کو تسلیم کرنے کی طرف نہیں جا رہے۔ ہمارا مقصد صرف انسانی مدد، خون ریزی روکنا اور ویسٹ بینک کو بچانا ہے۔ ہم اس کام کے لیے آٹھوں ممالک کے ساتھ پرعزم ہیں اور جب بھی ضرورت ہو گی ہم دستیاب ہوں گے، ہم نے کمٹمنٹ دے دی ہے۔‘
میزبان کے اس سوال کے نتن یاہو کی ضمانت کون دے گا؟ کیا آپ ٹرمپ پر بھروسہ کرتے ہیں کہ وہ اس کی پاسداری کرائیں گے؟ نائب وزیراعظم نے کہا کہ ’گارنٹی کون دے سکتا ہے؟ اسی وجہ سے ہم نے اسرائیل سے براہِ راست رابطہ نہیں کیا، یورپی کوششیں ناکام رہیں۔ اب چوائس یہ ہے کہ مزید فلسطینیوں کی جانیں خطرے میں ڈالیں یا فوری طور پر بچاؤ کریں۔ میں سمجھتا ہوں کہ صدر ٹرمپ کے ذریعے بہتر طریقے سے حاصل کیا جا سکتا ہے۔‘
’بظاہر اسرائیلی فوج کی واپسی نتن یاہو کی خواہش کے مطابق ہو گی‘Getty Images
اٹلانٹک کونسل کے ڈین شاپیرو، اسرائیل میں امریکہ کے سابق سفیر اور سابق نائب سیکرٹری دفاع برائے مشرق وسطیٰ رہ چکے ہیں۔
نتن یاہو کی تجویز کردہ ترامیم کے حوالے سے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے وہ کہتے ہیں کہ بظاہر ایسا لگتا ہے کہ ’سب سے اہم تبدیلی یہ ہے کہ اسرائیلی فوج کی واپسی ٹرمپ کے منصوبے کے مطابق نہیں بلکہ نتن یاہو کی خواہش کے مطابق ہو گی۔ حالانکہ ٹرمپ کے منصوبے میں بھی مرحلہ وار واپسی شامل تھی۔‘
اسرائیلی وزیراعظم کی تجویز کردہ ترامیم کے حوالے سے ڈین شاپیرو کہتے ہیں کہ ’نتن یاہو یہ چاہتے تھے کہ حماس کے ہتھیار ڈالنے کے عمل اور اسرائیلی فوج کی غزہ سے واپسی کے وقت اور دائرہ کار کے درمیان واضح ربط بنایا جائے اور یہی ایک بڑی تبدیلی تھی۔ وہ یہ بھی واضح کرنا چاہتے تھے کہ فلسطینی اتھارٹی کے لیے ایک اصلاحاتی عمل ضروری ہو، جو جنگ کے بعد یا کم از کم اپنے کردار کے آغاز کے دوران عمل میں آئے۔‘
وہ کہتے ہیں کہ پیر کو پریس کانفرنس اور شائع ہونے والے منصوبے میں بتایا گیا کہ واپسی کے مراحل حماس کے ہتھیار ڈالنے کی پیش رفت سے جڑے ہوں گے۔ اس کے علاوہ واپسی کے آخری مرحلے میں بھی آئی ڈی ایف غزہ میں ایک حفاظتی حدود برقرار رکھے گی جب تک کہ سکیورٹی صورتحال بہتر نہ ہو جائے۔
ڈین کے مطابق ’یہ وہ نکات تھے جو پیر کو ٹرمپ نے پیش کیے لیکن ممکن ہے کہ یہ منصوبہ ہفتے کے آغاز میں عرب رہنماؤں یا نیو یارک میں پہلے پیش کیے گئے منصوبے سے مختلف ہو کیونکہ ہم مکمل طور پر نہیں جانتے کہ ٹرمپ نے انھیں (نتن یاہو) کیا منصوبہ پیش کیا تھا۔‘
ٹرمپ کی دوستی اور نتن یاہو کی مشکل: امن معاہدے سے جان چھڑانا اسرائیلی وزیراعظم کو کتنا مہنگا پڑ سکتا ہے؟’عرب عوام عراق کو نہیں بھولے‘: کیا سابق برطانوی وزیرِ اعظم ٹونی بلیئر غزہ کا انتظام سنبھال سکتے ہیں؟حماس کی حق حکمرانی سے دستبرداری، اسرائیلی فوج کی مشروط واپسی اور قیامِ امن بورڈ: غزہ کے لیے نئے 20 نکاتی امن منصوبے میں کیا کہا گیا ہے؟پاکستان کی امریکہ سے قربت اور فیلڈ مارشل عاصم منیر ’ڈرائیونگ سیٹ‘ پر: ’ٹرمپ انھیں پسند کرتے ہیں جو وعدے پورے کریں‘
اس سوال کہ کیا عرب رہنما اور پاکستان جیسے دیگر مسلم ممالک ان تبدیلیوں پر راضی ہوں گے؟ اسرائیل میں امریکہ کے سابق سفیر ڈین شاپیرو کا کہنا تھا کہ ’میرے خیال میں یہ جنگ ختم کرنے، یرغمالیوں کو آزاد کرانے، فلسطینی شہریوں کو انسانی امداد فراہم کرنے، ان کی جانوں کو لاحق خطرے کو ختم کرنے اور غزہ کی تعمیر نو کے ذریعے پرامن مستقبل کی شروعات کا بہترین موقع ہے۔‘
اُن کا کہنا تھا کہ ’وہ ابھی اس بارے میں کچھ نہیں کہہ سکتے کہ عرب اور مسلم ممالک کی پوزیشن کیا ہو گی۔ لیکن اگر وہ چاہتے ہیں کہ جنگ ختم ہو، تو یہی موقع ہے۔ خاص طور پر وہ ممالک جو حماس کے ساتھ تعلق رکھتے ہیں، جیسے قطر اور ترکی، ان پر یہ ذمہ داری ہے کہ حماس سے مثبت جواب لیں، ورنہ جنگ جاری رہے گی۔‘
پاکستان کی پالیسی میں اچانک تبدیلی کیوں؟Getty Images
قائداعظم انٹرنیشنل یونیورسٹی سے وابستہ پروفیسر محمد شعیب کہتے ہیں کہ پاکستان کی محتاط حکمت عملی صرف اس دستاویز یا منصوبے تک محدود نہیں ہے، بلکہ اس کا تعلق ملکی کی اندرونی سیاست سے بھی ہے۔
بی بی سی سے بات کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ ’ایک ایسے ملک میں جہاں یہودی سیاسی رہنماؤں کے ساتھ ہاتھ ملانا آپ کے کیریئر کے لیے مہنگا ثابت ہو سکتا ہے، وہاں نئے اور غیر روایتی حل کو اپنانا مشکل ہے۔‘
پروفیسر شعیب کے مطابق نتن یاہو کی کروائی گئی ترامیم ایک مسئلہ تو ہیں لیکن ’اسرائیلی وزیراعظم چاہتے ہیں کہ صورتحال بہتر ہو گی تو فوج کو نکالیں گے، مگر یہ (اسلامی مالک) چاہتے ہیں کہ آئی ڈی ایف پہلے ہی غزہ سے نکل جائے۔‘
انھوں نے کہا کہ پاکستان اس معاہدے سے مکمل دوری نہیں اختیار کرے گا۔ ’اصل مقصد یہ ہے کہ عرب اور ترک قیادت سنبھالیں اور پاکستان یہ موقف اختیار کر سکےکہ ہم مسلم ممالک کے ساتھ کھڑے ہیں۔ ایسا موقف ملک میں عوامی رائے کو مثبت کرنے میں ایک اہم کردار ادا کرے گا۔‘
’اور وسیع تر نقطہ نظر میں سب سے اہم بات یہ ہے کہ جنگ بندی ہو گی اور امداد جانا شروع ہو گی اور جب تک ٹرمپ کھڑے ہیں، یہ ممکن ہو سکتا ہے۔‘
اسحاق ڈار کے مؤقف میں تبدیلی کے حوالے سے وہ کہتے ہیں کہ ’ٹرمپ کے سامنے کہی گئی بات سے ملک میں سخت گیر مؤقف رکھنے والے طبقے کو مطمئن کرنا مشکل ہے۔اس میں فرق تو لازمی ہو گا اور غزہ جیسے مشکل اور بڑے ایشو کو حل کرنے کے لیے ایسا کرنا لازم ہے۔‘
’ایک لطیفہ چل رہا ہے کہ امریکہ، سودی عرب، حماس، نتن یاہو سب راضی ہو بھی جائیں تو بھی سوشل میڈیا واریئرز اور سخت گیر مذہبی طبقے راضی نہیں ہو رہے، اُن کا خیال ہے کہ حل وہی ہے جو وہ بتا رہے ہیں۔‘
خیال رہے پاکستان میں سوشل میڈیا سے لے کر سیاسی جماعتوں تک سبھی ٹرمپ کے منصوبے پر تنقید کرتے نظر آتے ہیں اور کہا جا رہا ہے کہ اس مجوزہ معاہدے میں دو ریاستی حل کا واضح ذکر نہیں ہے۔
پاکستان تحریک انصاف نے اس منصوبے کو ’اقوام متحدہ کے قراردادوں اور بین الاقوامی قانون کی خلاف ورزی‘ قرار دیتے ہوئے کہا کہ یروشلم کو اسرائیل کا دارالحکومت تسلیم کرنا اور گولان پہاڑیوں پر قبضے کو جائز قرار دینا علاقائی امن کے لیے خطرہ ہے۔
جماعت اسلامی کے سربراہ حافظ نعیم الرحمن نے حکومت کی غزہ کے حوالے سے پالیسی اور ٹرمپ کے منصوبے کی حمایت پر تنقید کرتے ہوئےکہا کہ ٹرمپ کے ’امن منصوبے کی تعریف جو 66 ہزارفلسطینیوں کی لاشوں پر مبنی ہے‘ ظالموں کے ساتھ کھڑا ہونے کے مترادف ہے۔
امن منصوبے میں موجود ابہام اس کی ناکامی کا باعث بن سکتا ہے: جیرمی بوون کا تجزیہ
غزہ میں جنگ کے خاتمے اور تباہ شدہ علاقے کی تعمیر نو وہ عوامل ہیں جس کے لیے امریکہ کے صدر نے معاہدے کا فریم ورک جاری کیا ہے۔
گو اس فریم ورک کی زیادہ تر تفصیل خود امریکی صدر نے ہی فراہم کی ہے۔ عرب اور دیگر اسلامی ممالک جیسے قطر، سعودی عرب، مصر، اردن، ترکیہ، متحدہ عرب امارت، پاکستان اور انڈونیشیا نے بھی معاہدے کے لیے دباڈ ڈالا۔ اسرائیل کے وزیراعظم بنیامین نتن یاہو نے اسے تسلیم کیا حالانکہ وہ آزاد فلسطینی ریاست کے خلاف ہیں۔
اس معاہدے پر تیزی سےآگے بڑھنے کے لیے ٹرمپ نے عسکریت پسند تنظیم حماس کو معاہدے قبول کرنے یا مسترد کرنے کے لیے 'دو سے تین دن' کا وقت دیا تھا۔
اور اگر حماس کا جواب ’نہیں‘ میں ہوا تو پھر جنگ جاری رہے گی۔
یہ مجوزہ منصوبہ کافی حد تک ویسا ہی جس کا اعلان جو بائیڈن نے تقریباً ایک سال پہلے کیا تھا۔ ایک سال کے دوران بڑے پیمانے پر غزہ میں فلسطینیوں کی ہلاکتیں ہوئیں، تباہی ہوئی اور اب خوراک کی قلت ہے جبکہ حماس کے قید میں موجود اسرائیلی قیدیوں نے مزید تکلیف کاٹی ہے۔
اسرائیلی میڈیا کی رپورٹس کے مطابق سابق امریکی صدر بائیڈن کا معاہدہ اس لیے آگے نہیں بڑھ سکا تھا کیونکہ نتن یاہو نے اپنی کابینہ میں موجود افراد کے دباؤ میں آ کر اپنے مطالبات مزید بڑھا دیے تھے۔
یہ فریم ورک ایک اہم موقع ہے اور یہ پہلی مرتبہ ہے کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ جنگ ختم کرنے کے لیے اسرائیل پر دباؤ ڈال رہے ہیں۔
ٹرمپ نے اپنا تاثر کچھ ایسے رہنما کے طور پر بنایا ہے جنھیں انکار کرنا مشکل ہے، کیونکہ کوئی بھی یوکرین صدر ولادیمیر زیلنسکی کی طرح اوول آفس میں بیٹھ کر رسوا نہیں ہونا چاہتا لیکن مختلف ممالک کے رہنماؤں کے وائٹ ہاؤس چھوڑنے کے بعد چیزیں اکثر بدل جاتی ہیں۔
بنیامین نتن یاہو اسرائیل واپس جانے کے لیے واشنگٹن ڈی سی سے روانہ ہوئے تو اُن کے سٹاف نے اپنے وزیراعظم کے مختلف بیانات پر مبنی ویڈیو بنائی۔ ویڈیو کا ایک حصہ اسرائیل کے ساتھ ایک آزاد فلسطین ریاست کے قیام کے بارے دو ریاستی حل پر تھا، برطانیہ اور دیگر مغربی ممالک کوشش کر رہے ہیں کہ فلسطین ریاست کو تسلیم کیا جائے۔
صدر ٹرمپ نے مجوزہ منصوبہ میں بھی آزاد فلسطینی ریاست کے قیام کی حامی بھری ہے۔ پلان میں کہا گیا ہے کہ غزہ کی دوبارہ ترقی اور فلسطینی اتھارٹی کی جانب سے اصلاحاتی پروگرام پر عمل کے ساتھ فلسطینیوں کی خود ارادیت اور ریاست کے لیے حالات سازگار ہو سکیں گے جسے ہم فلسطینی عوام کی خواہش کے طور پر تسلیم کرتے ہیں۔
ایک فلسطینی ریاست کے مبہم امکانات بھی نیتن یاہو کے لیے بہت زیادہ ہیں۔ انھوں نے وائٹ ہاؤس میں ٹرمپ کی بھرپور حمایت کرتے ہوئے انگریزی میں کہا تھا کہ ’میں غزہ میں جنگ کے خاتمے کے لیے آپ کے منصوبے کی حمایت کرتا ہوں، جس ہم ہمارے جنگی مقاصد پورے ہو رہے ہیں۔‘
ویڈیو میں نتن یاہو عبرانی زبان میں اسرائیل واپسی پہنچنے سے پہلے اپنی عوام کو کچھ پیغام دے رہے ہیں، جب انُ سے پوچھا گیا کہ کیا وہ فلسطینی ریاست کے لیے راضی ہیں۔
انھوں نے کہا کہ ’نہیں، بالکل نہیں۔ یہ تو معاہدے میں بھی نہیں لکھا ہے۔ لیکن ہم نے ایک بات کہی ہے۔ کہ ہم فلسطینی ریاست کے قیام پر بھرپور مزاحمت کریں گے۔‘ انھوں نے کہا کہ ٹرمپ نے بھی اس پر اتفاق کیا ہے۔
منصوبے کی طاقت یہی ہے کہ اس کا تسلسل برقرار رہے۔ منصوبے کی کمزوری یہ ہے کہ اس میں زیادہ تفصیلات نہیں ہیں جو ٹرمپ کی سفارتکاری کا ایک اہم جزو ہے۔
ٹرمپ اور نتن یاہو نے جس دستاویز کی توثیق کی ہے اس میں اسرائیل فوج جنگ زدہ علاقے سے انخلا کا بھی روڈ میپ دیا گیا ہے لیکن یقینی طور پر یہ نہیں کہا جا سکتا کہ جنگ کو ختم کرنے کے لیے بنایا گیا یہ سفارتی معاہدہ جاری رہے گا یا ختم ہو جائے گا۔
اگر اس معاہدے نے آگے بڑھنا ہے تو ضروری ہے کہ سخت مذاکرات کیے جائیں، مگر ایسی صورت میں اس کے ختم ہونے کا امکان موجود ہے۔
فی الحال اسرائیل کی تمام بڑی جماعتوں نے اس کی توثیق کی ہے لیکن نتن یاہو کی اتحادی حکومت میں شامل وہ انتہا پسند قومی جماعتیں جو ٹرمپ کی غزہ میں نیا شہر آباد کرنے کے منصوبے پر خوش ہیں، وہ اس مجوزہ منصوبے کی مذمت کر رہی ہیں۔
غزہ میں عوام کو کہیں اور منتقل کرکے اُسے سیاحتی مقام میں تبدیل کرنے کی جو ویڈیو جاری کی گئی تھی جس میں امریکی اور اسرائیلی غزہ کے ساحل پر لطف اندوز ہو رہے تھے۔
اسرائیل کے دائیں بازو کے سخت گیر اس بات پر خوش تھے کہ رویرا کے منصوبے میں غزہ سے 20 لاکھ سے زیادہ فلسطینیوں کو دوسرے مقام پر منتقل کر دیا جائے گا۔ یہودی انتہا پسند چاہتے ہیں کہ اس زمین پر قبضہ کر کے یہاں یہودی آبادیاں بنائی جائیں۔
اس نئے مجوزہ پلان کے تحت کہا گیا ہے کہ فلسطینیوں کو نقل مکانی پر مجبور نہیں کیا جائے گا۔ اسرائیل وزیر خزانہ جو سخت گیر قوم پرست ہیں، ٹرمپ کے معاہدے کا موازنہ سنہ 1938 میں میونخ میں ہونے والے معاہدے سے کر رہے ہیں۔
اس معاہدے میں امریکہ اور فرانس نے چیک سلواکیہ کو مجبور کیا تھا کہ وہ اپنی زمین نازی جرمنی کو دے۔
اگر حماس اس معاہدے کو تسلیم کر لیتی ہے اور نتن یاہو اپنی اتحادی حکومت اور سموٹریچ جیسے دیگر انتہا پسندوں کو راضی کرنے کے طریقے تلاش کرنا چاہتے ہیں تو اُن کے پاس مذاکرات کو ناکام بنانے کے لیے کئی جواز موجود ہوں گے اور ناکامی کا الزام حماس پر عائد ہو گا۔
ٹرمپ کے معاہدے کا فریم ورک اسرائیل کو اُن تمام شرائط کو ویٹو کرنے کے متعدد مواقع فراہم کرتا ہے جنھیں وہ پسند نہیں کرتا ہے۔
ایسی صورتحال میں ایک صدی سے زائد عرصے پر محیط اس گھمبیر تنازعے کو ختم کرنا ممکن نہیں ہے۔ اسرائیل اور امریکہ کے علاوہ برطانیہ سمیت کئی ممالک کے خیال میں طویل مدت میں فلسطین کی آزادی کے بغیر کوئی بھی حل دیرپا امن قائم نہیں کر سکتا ہے۔
عرب اور اسلامی ممالک نے معاہدے کے بعد جو مشترکہ اعلامیہ جاری کیا ہے اُس کے مطابق انھوں نے غزہ کی تعمیر، اسرائیلی افواج کے مکمل انخلا اور امن کے قیام کے بین الاقوامی قوانین کے تحت دو ریاستی حل کی بنیاد پر آزاد فلسطینی ریاست کی تشکیل کی پر اتفاق کیا ہے جس میں غزہ مغربی کنارے کے ساتھ فلسطین ریاست کا حصہ ہو گا۔
اس میں عالمی عدالت برائے انصاف کے اس فیصلے کو بطور قانونی حوالا لیا جا سکتا ہے کہ اسرائیل کا فلسطینی اراضی پر قبضہ غیر قانونی ہے۔
نتن یاہو کا خیال ہے کہ ٹرمپ کے معاہدے سے انھوں عسکری تنظیم حماس پر برتری ملی ہے۔ وہ دریائے اردن اور سمندر کے درمیان کی زمین پر فلسطینیوں کے کسی بھی حق کو تسلیم نہیں کرتے ہیں۔
منصوبہ ایک ہے لیکن سمجھنے کے لیے دو مختلف ورژن ہیں۔ ۔دونوں کی تشریحات کے لیے فریم ورک کافی مبہم ہے جو کہ ایک امید افزا آغاز نہیں ہے۔
ٹرمپ کی دوستی اور نتن یاہو کی مشکل: امن معاہدے سے جان چھڑانا اسرائیلی وزیراعظم کو کتنا مہنگا پڑ سکتا ہے؟حماس کی حق حکمرانی سے دستبرداری، اسرائیلی فوج کی مشروط واپسی اور قیامِ امن بورڈ: غزہ کے لیے نئے 20 نکاتی امن منصوبے میں کیا کہا گیا ہے؟پاکستان کی امریکہ سے قربت اور فیلڈ مارشل عاصم منیر ’ڈرائیونگ سیٹ‘ پر: ’ٹرمپ انھیں پسند کرتے ہیں جو وعدے پورے کریں‘ٹرمپ کا غزہ میں جنگ بندی کا مجوزہ منصوبہ: کیا آزاد فلسطینی ریاست کے قیام کی صورت میں پاکستان اسرائیل کو تسلیم کر سکتا ہے؟