کشمیر میں مظاہرین اور سکیورٹی فورسز میں جھڑپیں جاری، تین پولیس اہلکاروں سمیت 9 ہلاک

اردو نیوز  |  Oct 02, 2025

پاکستان کے زیرانتظام کشمیر میں پیر سے جاری شٹرڈاؤن اور پہیہ جام ہڑتال کے تیسرے روز مختلف شہروں اور دیہی علاقوں میں سکیورٹی فورسز اور مظاہرین میں جھڑپیں ہوئیں جن میں تین پولیس اہلکاروں سمیت نو افراد ہلاک ہو گئے ہیں۔بدھ کو کشمیر کے دارالحکومت مظفرآباد سمیت دھیرکوٹ، ڈڈیال، نیلم، جہلم ویلی اور دیگر کئی مقامات پر پولیس، رینجرز، ایف سی اور مظاہرین کے درمیان تصادم کے نتیجے میں نو افراد ہلاک جبکہ کئی زخمی ہوئے ہیں۔

جھڑپوں اور مظاہروں میں 9 افراد ہلاک، 172 پولیس اہلکار جبکہ 50 شہری زخمیپاکستان کے زیرانتظام کشمیر کے محکمہ اطلاعات نے بدھ کی رات مظاہروں اور جھڑپوں میں ہلاک اور زخمی ہونے والوں کی تفصیل جاری کی۔ کشمیر کے پریس انفارمیشن ڈیپارٹمنٹ کے مطابق ’مجموعی طور پر نو افراد ہلاک، 172 پولیس اہلکار جبکہ 50 شہری زخمی ہوئے ہیں، 12 پولیس اہلکار شدید زخمی ہیں۔‘حکومت نے عوام الناس سے اپیل ہے کہ وہ پُرامن رہیں، سوشل میڈیا پر ایک مخصوص ایجنڈے کے تحت پھیلائی گئی جعلی خبروں پر کان نہ دھریں اور مستند اور مصدقہ خبروں کو ہی شیئر کریں۔

عوامی ایکشن کمیٹی کو کُھلے دل سے مذاکرات کی دعوت دیتا ہوں: انوار الحق

اُدھر پاکستان کے زیرانتظام کشمیر کے وزیراعظم چوہدری انوار الحق نے ایکشن کمیٹی کو بات چیت کی دعوت دیتے ہوئے کہا ہے کہ ’مہذب دنیا میں مطالبات کی منظوری کا بہترین طریقہ ڈائیلاگ ہے۔‘بدھ کو اسلام آباد میں پاکستان کے وزیر پارلیمانی امور ڈاکٹر طارق فضل چودھری کے ہمراہ نیوز کانفرنس کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ’عوامی ایکشن کمیٹی کو کُھلے دل سے مذاکرات کی دعوت دیتا ہوں۔‘’اشتعال دلانا دنیا میں سب سے آسان کام ہے، سویلینز کے ذریعے اشتعال دلانا انارکی، انسانی جانوں کے ضیاع کا باعث ہوتا ہے۔‘چوہدری انوار الحق کا کہنا تھا کہ ’حکومت اور ایکشن کمیٹی میں صرف دو مطالبات پر ڈیڈلاک پیدا ہوا جن کا تعلق آئینی ترمیم سے تھا۔‘

چودھری انوار الحق کا کہنا ہے کہ ’ہم ایکشن کمیٹی کے ساتھ کُھلے دل سے مذاکرات کے لیے تیار ہیں‘ (فوٹو: سکرین گریب)

انہوں نے کہا کہ ’انسانی جانوں کے ضیاع پر مجھے شدید دکھ ہے، پولیس کے تین جوان شہید جبکہ سو کے قریب زخمی ہوئے ہیں۔ عام شہریوں کی ہلاکت کی اطلاعات بھی ہیں۔‘لانگ مارچ کے دوران جھڑپیں اور ہلاکتیں

اس احتجاج کو منظم کرنے والے پلیٹ فارم جموں کشمیر جوائنٹ عوامی ایکشن کمیٹی کے مطابق ’مظفرآباد میں دو افراد کی ہلاکت کی اطلاع ہے۔دھیر کوٹ کے مقامی صحافیوں کے مطابق پولیس اور مظاہرین کے درمیان تصادم کے نتیجے میں مظاہرین کے علاوہ سکیورٹی اہلکار بھی بڑی تعداد میں زخمی ہوئے ہیں جنہیں ہسپتال منتقل کیا گیا ہے۔اس سے قبل احتجاج کے پہلے دن مظفرآباد میں فائرنگ سے ہلاک ہونے والے نوجوان محمد سدھیر سے متعلق بھی سرکاری سطح پر کوئی تصدیق نہیں کی گئی تھی۔تاہم پیر اور منگل کی درمیانی شب محمد سدھیر کے قتل کی ایف آئی آر مسلم کانفرس کے مقامی رہنما ثاقب مجید اور ان کے ساتھیوں کے خلاف درج کر لی گئی تھی۔کشمیر کے تمام شہروں میں احتجاج سے ایک دن قبل 28 ستمبر کی دوپہر سے موبائل فون اور تمام انٹرنیٹ سروسز معطل کردی گئیں جس سے اطلاعات کی رسائی اور شہریوں کے باہمی رابطوں میں مشکلات پیش آرہی ہیں۔

امجد علی خان ایڈووکیٹ کو 12 گھنٹے حراست میں رکھنے کے بعد چھوڑ دیا گیا (فائل فوٹو: سکرین گریب)

بدھ کو کشمیر کے تمام اضلاع سے مظاہرین کے قافلے دارالحکومت مظفرآباد کی جانب بڑھتے رہے۔ مظاہرین راستے میں موجود رکاوٹوں کو ہٹاتے ہوئے سہ پہر میں مظفرآباد پہنچے۔باغ سے آنے والے مظاہرین کا دھیرکوٹ کے نواحی علاقے چمیاٹی میں سکیورٹی فورسز سے تصادم ہوا جبکہ ڈڈیال کے نواح سے بھی ایسی ہی اطلاعات آ رہی ہیں۔امجد علی خان ایڈووکیٹ کی اسلام آباد ایئرپورٹ پر حراست کے کئی گھنٹوں بعد رہائیجموں کشمیر جوائنٹ عوامی ایکشن کمیٹی کے سرکردہ رکن راجہ امجد علی خان ایڈووکیٹ کو بدھ کی صبح آٹھ بجے اسلام آباد ایئرپورٹ اسے اس وقت حراست میں لے لیا گیا تھا جب وہ اپنے اہل خانہ کے ساتھ برطانیہ کے دورے سے واپس پہنچے تھے۔اس کے بعد ان کے بارے میں ان کے ساتھیوں اور خاندان کے افراد کو کچھ علم نہیں تھا۔ حراست کے لگ بھگ 12 گھنٹے بعد انہیں چھوڑ دیا گیا۔ امجد علی خان نے بدھ کی رات اردو نیوز کے رابطہ کرنے پر بتایا کہ ’وہ بخیریت ہیں اور مظفرآباد جا رہے ہیں۔‘

عوامی ایکشن کمیٹی کا موقف ہے کہ حکومت نے معاہدے کے بعد کیے گئے نوٹیفیکیشنز پر عمل نہیں کیا (فوٹو: سکرین گرین)

اس سے قبل راجہ امجد علی خان کی اہلیہ نے اردو نیوز کو بتایا تھا  کہ ’ایئرپورٹ کے عملے نے امجد علی خان کا پاسپورٹ دیکھنے کے بعد انہیں یہ کہہ کر وہیں روک لیا تھا کہ آپ سے متعلق کچھ شکایات ہیں، تفتیش کے لیے ٹیم آرہی ہے۔ انہوں نے ہمیں ایئرپورٹ سے جانے دیا۔‘راجا امجد علی خان ایڈووکیٹ گذشتہ چند ہفتوں سے برطانیہ میں موجود تھے۔ پیر کو انہوں نے بریڈفورڈ میں کشمیری کمیونٹی کے احتجاجی مظاہرے میں شرکت کی تھی اور پاکستانی قونصل خانے کے عہدے داروں کو ایک یادداشت بھی پیش کی تھی۔مذاکرات سے متعلق مظاہرین کا موقفاس قبل بدھ ہی کو راولاکوٹ سے جموں کشمیر جوائنٹ عوامی ایکشن کمیٹی کے رہنما عمر نذیر نے ایک ویڈیو پیغام کے ذریعے حکومت کی جانب سے کیے گئے رابطوں کے بارے میں بتایا تھا۔اُن کے مطابق ’حکومت نے بعض سرکاری افسران کے ذریعے مذاکرات کی پیش کش کی ہے، ہم مذاکرات کے لیے تیار ہیں لیکن حکومت کو انٹرنیٹ بحال اور سکیورٹی فورسز کو واپس بلانا ہو گا۔‘دوسری جانب سوشل میڈیا پر کشمیر کے چیف سیکریٹری سے منسوب ایک خط بھی وائرل ہے جس میں عوامی ایکشن کمیٹی کو مذاکرات کی دعوت دی گئی ہے۔

جموں کشمیر جوائنٹ عوامی ایکشن کمیٹی اپنے 38 نکاتی چارٹر آف ڈیمانڈ کے ساتھ احتجاج کر رہی ہے (فوٹو: حمزہ نصیر)

کشمیر کے محکمہ اطلاعات نے بدھ کی شام اپنے آفیشل فیس بک پیج پر ایک بیان میں کہا کہ حکومت نے کمیٹی کو مذاکرات کی دعوت ضرور دی ہے لیکن چیف سیکریٹری سے منسوب یہ خط جعلی ہے۔‘موبائل فون اور انٹرنیٹ سروسز چار دن سے معطلمقامی میڈیا کے مطابق حکومت کی جانب سے کشمیر کے ساتھ متصل خیبر پختونخوا کے علاقوں میں بھی موبائل فون انٹرنیٹ بند کر دیا گیا ہے جس کے بعد صحافیوں کو مظفرآباد سے ڈیڑھ گھنٹے کا سفر کر کے مانسہرہ یا اس سے آگے بالاکوٹ شہر میں جانا پڑ رہا ہے۔جموں کشمیر جوائنٹ عوامی ایکشن کمیٹی اپنے 38 نکاتی چارٹر آف ڈیمانڈ کے ساتھ احتجاج کر رہی ہے۔ ان مطالبات میں انفراسٹرکچر کی بہتری، صحت اور تعلیم کی سہولتوں کی فراہمی، جنگلات کے کٹاؤ کو روکنے، اشرافیہ کی مراعات کے خاتمے اور پاکستان میں مقیم مہاجرین کی کشمیر اسمبلی میں 12 نشستوں کے خاتمے جیسے مطالبات شامل ہیں۔عوامی ایکشن کمیٹی کا موقف ہے کہ حکومت نے گذشتہ برس آٹھ دسمبر کو طے پانے والے معاہدے کے بعد کیے گئے نوٹیفیکیشنز پر عمل نہیں کیا۔

مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More