گذشتہ ہفتے کراچی ایئرپورٹ کے قریب پولیس نے دو لڑکیوں کو تحویل میں لیا جنہیں مبینہ طور پر پنجاب سے ملازمت کا جھانسہ دے کر لایا گیا تھا۔پولیس کے مطابق ابتدائی تفتیش میں انکشاف ہوا ہے کہ دونوں لڑکیاں پہلے سے لاپتہ قرار دی جا چکی تھیں اور اس حوالے سے مقدمات لاہور اور فیصل آباد کے تھانوں میں درج تھے۔واقعے کے بعد انسانی سمگلنگ کے ایک ممکنہ نیٹ ورک کے حوالے سے تفتیش شروع کر دی گئی ہے۔
ایئرپورٹ تھانے میں دیے گئے بیان میں ایک لڑکی نے پولیس کو بتایا کہ انہیں ایک خاتون نے بہتر مستقبل اور ملازمت کی لالچ دی تھی۔ کراچی آتے ہی انہیں رفیع الدین نامی شخص کے حوالے کر دیا گیا، جس نے انہیں قید میں رکھا اور فروخت کرنے کی کوشش کی۔
پولیس کے مطابق لڑکیوں نے یہ دعویٰ بھی کیا کہ وہ کئی ماہ تک قید میں رہیں اور انھیں زبردستی غیر قانونی سرگرمیوں کی طرف دھکیلنے کی کوشش کی گئی۔پولیس کا کہنا ہے کہ لڑکیوں کے بیان کے مطابق انہوں نے ایک موقع پر قید سے نکلنے کی جرأت کی اور ایئرپورٹ کے قریب پہنچ گئیں۔ایئرپورٹ پر تعینات سپیشل سکیورٹی یونٹ (ایس ایس یو) کے اہلکاروں کو لڑکیوں نے بتایا کہ وہ مشکل میں ہیں ان کی مدد کی جائے۔پولیس اہلکاروں نے واقعے کی نوعیت کو بھانپتے ہوئے دونوں لڑکیوں کو اپنی تحویل میں لے کر تھانے منتقل کر دیا ہے۔ایس ایس پی عمران شیخ نے اردو نیوز کو بتایا کہ ’26 ستمبر 2025 کو مددگار 15 اہلکاروں نے ایئرپورٹ آؤٹر سگنل کے قریب سے دو خواتین کو تحویل میں لے کر ویمن پولیس سٹیشن منتقل کیا تھا۔‘ان کا کہنا تھا کہ ’ابتدائی تفتیش میں معلوم ہوا کہ دونوں خواتین نے لاہور اور فیصل آباد سے اپنے گھروں کو اطلاع دیے بغیر سفر کیا تھا۔‘پولیس کا کہنا ہے کہ لڑکیوں نے قید سے نکلنے کی جرأت کی اور کراچی ایئرپورٹ کے قریب پہنچ گئیں۔ (فائل فوٹو: اے ایف پی)مزید تفتیش میں یہ بات سامنے آئی کہ ان خواتین کے لاپتا ہونے کے مقدمات پہلے ہی ان کے شہروں کے متعلقہ تھانوں میں درج تھے۔پولیس ریکارڈ کے مطابق پہلی متاثرہ لڑکی کا نام حمیرا ہے جو عمیر حیات کی بیٹی ہے۔ وہ 3 جنوری 2025 سے لاپتا تھیں اور ان کے لاپتا ہونے کا مقدمہ صابر علی ولد بشیر احمد کی مدعیت میں تھانہ کوٹ لکھپت لاہور میں درج کیا گیا۔دوسری متاثرہ لڑکی کا نام طیبہ ہے جن کے شوہر کا نام حسین اور والد کا نام محمد اسحاق ہے۔ وہ 24 جون 2024 سے لاپتہ تھیں۔ان کے اغوا کا مقدمہ عبدالرحمٰن ولد ریاض الرحمان کی مدعیت میں تھانہ روشن والا فیصل آباد میں درج کیا گیا۔پولیس کا کہنا ہے کہ 26 ستمبر کو دونوں خواتین رفیع الرحمن کی رہائش گاہ ماڈل کالونی کراچی سے فرار ہونے میں کامیاب ہوئیں۔انہوں نے مزید بتایا کہ ’لڑکیوں کی ان کے گھروں کو واپسی کے لیے اقدامات کیے جارہے ہیں۔ متعلقہ پولیس کراچی پہنچ چکی ہے۔‘ایئرپورٹ پر تعینات ایس ایس یو اہلکاروں کو لڑکیوں نے بتایا کہ وہ مشکل میں ہیں ان کی مدد کی جائے۔ (فوٹو: اے ایف پی)پولیس کا کہنا ہے کہ متاثرہ لڑکیوں کے والدین کو ان کی بیٹیوں کے ملنے کی اطلاع کر دی گئی ہے۔ایس ایس پی عمران شیخ کے مطابق یہ ایک حساس کیس ہے جس کی بین الصوبائی سطح پر تفتیش ضروری ہے۔ ’تمام شواہد اکٹھے کیے جا رہے ہیں اور جلد ہی ملزموں کو گرفتار کرنے کے لیے چھاپے مارے جائیں گے۔‘انسانی سمگلنگ کا بڑھتا ہوا خطرہپاکستان میں انسانی سمگلنگ اور اغوا کے واقعات کوئی نئی بات نہیں۔ماہرین کے مطابق غربت، بیروزگاری اور سماجی دباؤ ایسے عوامل ہیں جو نوجوان لڑکیوں کو آسان ہدف بنا دیتے ہیں۔حقوقِ نسواں کے لیے کام کرنے والی سماجی رہنما ہما ہارون نے اردو نیوز کو بتایا کہ ’یہ صرف دو لڑکیوں کی کہانی نہیں بلکہ درجنوں لڑکیاں آج بھی کسی نامعلوم جگہ پر ہوسکتی ہیں۔ اس کے تدارک کے لیے ریاستی اداروں کو سنجیدگی سے کام کرنا ہوگا۔‘عدالتی عمل اور چیلنجزپولیس کا کہنا ہے کہ لڑکیوں کے بیانات اور پنجاب میں درج مقدمات کی بنیاد پر آئندہ کارروائی عدالت میں کی جائے گی۔ تاہم ماہرین کے مطابق انسانی سمگلنگ جیسے کیسز میں قانونی کارروائی اکثر طویل اور پیچیدہ ہوتی ہے۔پولیس کا کہنا ہے کہ لڑکیوں کے بیانات اور پنجاب میں درج مقدمات کی بنیاد پر آئندہ کارروائی عدالت میں کی جائے گی۔ (فائل فوٹو: اے ایف پی)کئی مرتبہ متاثرہ افراد عدالت میں گواہی دینے سے ہچکچاتے ہیں یا خاندان کے دباؤ کے باعث مقدمات ختم ہو جاتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ایسے نیٹ ورکس کو توڑنے کے لیے نہ صرف قانون نافذ کرنے والے اداروں بلکہ سول سوسائٹی اور میڈیا کو بھی فعال کردار ادا کرنا پڑے گا۔کراچی ایئرپورٹ کے قریب یہ واقعہ اس بات کی علامت ہے کہ بروقت ردعمل کیسے زندگی اور موت کے بیچ فرق ڈال سکتا ہے۔ تاہم سوال یہ ہے کہ ایسے واقعات کو رونما ہونے سے پہلے کیسے روکا جائے؟پولیس حکام کا کہنا ہے کہ ملازمت یا بیرون شہر سفر کی کوئی بھی پیشکش بغیر تصدیق کے قبول نہ کریں اور مشکوک افراد یا نمبروں کی اطلاع فوراً پولیس کو دیں۔