پاکستان کے زیرِ انتظام کشمیر میں پیر کو شروع ہونے والا احتجاج آج چوتھے روز میں داخل ہو گیا ہے اور تمام اضلاع سے مظاہرین کے قافلے دارالحکومت مظفرآباد کی جانب مارچ کر رہے ہیں۔
وزیراعظم پاکستان شہباز شریف نے مظاہرین کے ساتھ مذاکرات کرنے والی کمیٹی میں توسیع کرتے ہوئے مذاکراتی ٹیم کو مظفرآباد جا کر اس مسئلے کا ’فوری اور دیرپا حل‘ نکالنے کی ہدایت کی ہے۔
ان مظاہروں کی قیادت کرنے والی جموں کشمیر جوائنٹ عوامی ایکشن کمیٹی نے مطالبہ کیا ہے کہ مذاکرات سے قبل حکومت پانچ دن سے بند موبائل فون اور انٹرنیٹ سروس بحال کرے اور مظاہرین کی ہلاکت کے مقدمات درج کرے۔
کشمیر کی حکومت نے بدھ اور جمعرات کی درمیانی شب اپنے بیان میں کہا تھا کہ ان مظاہروں کے دوران ہونے والی جھڑپوں میں تین پولیس اہلکاروں سمیت 9 افراد ہلاک ہوئے ہیں جبکہ سینکڑوں زخمی ہیں۔
جموں کشمیر جوائنٹ عوامی ایکشن کمیٹی اپنے 38 نکاتی چارٹر آف ڈیمانڈ کے ساتھ احتجاج کر رہی ہے۔ ان مطالبات میں انفراسٹرکچر کی بہتری، صحت اور تعلیم کی سہولتوں کی فراہمی، جنگلات کے کٹاؤ کو روکنے، اشرافیہ کی مراعات کے خاتمے اور پاکستان میں مقیم مہاجرین کی کشمیر اسمبلی میں 12 نشستوں کے خاتمے جیسے مطالبات شامل ہیں۔
عوامی ایکشن کمیٹی کا مؤقف ہے کہ حکومت نے گذشتہ برس 8 دسمبر کو طے پانے والے معاہدے کے بعد کیے گئے نوٹیفیکیشنز پر عمل نہیں کیا۔
بدھ کو پاکستان کے زیرانتظام کشمیر کے وزیراعظم چوہدری انوار الحق نے وفاقی وزیر برائے پارلیمانی امور طارق فضل چوہدری کے ساتھ پریس کانفرنس کرتے ہوئے عوامی ایکشن کمیٹی کو مذاکرات کی دعوت دی تھی۔
چوہدری انوار الحق کا کہنا تھا کہ ’حکومت اور ایکشن کمیٹی میں صرف دو مطالبات پر ڈیڈلاک پیدا ہوا جن کا تعلق آئینی ترمیم سے تھا۔‘
مظاہروں کے دوران تین پولیس اہلکاروں سمیت 9 افراد ہلاک ہوئے۔ فوٹو: اے ایف پی
بدھ کو کشمیر کے تمام اضلاع سے مظاہرین کے قافلے دارالحکومت مظفرآباد کی جانب بڑھتے رہے۔ مظاہرین راستے میں موجود رکاوٹوں کو ہٹاتے ہوئے سہ پہر میں مظفرآباد پہنچے۔باغ سے آنے والے مظاہرین کا دھیرکوٹ کے نواحی علاقے چمیاٹی میں سکیورٹی فورسز سے تصادم ہوا۔
کشمیر کے تمام شہروں میں احتجاج سے ایک دن قبل 28 ستمبر کی دوپہر سے موبائل فون اور تمام انٹرنیٹ سروسز معطل کردی گئیں جس سے اطلاعات کی رسائی اور شہریوں کے باہمی رابطوں میں مشکلات پیش آرہی ہیں۔
گزشتہ روز مقامی میڈیا نے رپورٹ کیا تھا کہ حکومت نے کشمیر کے ساتھ متصل خیبر پختونخوا کے علاقوں میں بھی موبائل فون انٹرنیٹ بند کر دیا گیا ہے جس کے بعد صحافیوں کو مظفرآباد سے ڈیڑھ گھنٹے کا سفر کر کے مانسہرہ یا اس سے آگے بالاکوٹ شہر میں جانا پڑ رہا ہے۔