جناح کے قتل کی مبینہ سازش: قیامِ پاکستان کے 25 دن بعد ہونے والا دھماکہ جس نے کراچی میں آر ایس ایس کے منصوبے کا راز فاش کیا

بی بی سی اردو  |  Oct 02, 2025

انڈیا کے فیروزپور ریلوے سٹیشن پر ایک شخص بے چینی سے پاکستان سے آنے والی ٹرین کا انتظار کر رہا تھا۔ ٹرین کے پلیٹ فارم پر پہنچنے کے بعد بھی اُس کی پریشانی کم نہ ہوئی۔

ٹرین رُکی تو اس شخص نے ٹرین سے اترنے والے اپنے ایک ساتھی سے سوال کیا کہ ’باقی ساتھی کہاں ہیں؟‘ اس پر دوسری جانب سے لاعلمی کا اظہار کیا گیا۔

فیروزپور سٹیشن پر ٹرین کی آمد کی منتظر یہ شخصیت لعل کرشن اڈوانی تھے جو بعد میں انڈیا کی بھارتیہ جنتا پارٹی کے صدر بنے۔ اُن سے ملنے والا شخص خانچند گوپال داس تھا جو کراچی میں راشٹریا سیوک سنگھ یعنی آر ایس ایس کا سربراہ تھا۔

اڈوانی کی آپ بیتی ’میرا وطن میری زندگی‘ کے مطابق اُس دن وہ سٹیشن پر اُن آر ایس ایس کے اراکین کو لینے گئے تھے جنھیں 9 ستمبر 1947 کو شکارپور کالونی (کراچی) میں ہونے والے ایک بم دھماکے کے بعد گرفتار کیا گیا تھا۔ بعدازاں ان تمام افراد کو انڈیا بھیج دیا گیا۔

لیکن کراچی میں یہ دھماکہ کیوں اور کیسے ہوا؟ اس کے پیچھے کون لوگ تھے اور اُن کا مقصد کیا تھا؟ ساتھ ہی ساتھ اس رپورٹ میں اس سوال کا جواب تلاش کرنے کی بھی کوشش کی گئی ہے کہ سندھ میں آر ایس ایس، جسے اُس دور میں ایک خفیہ پرتشدد ہندو تنظیم سمجھا جاتا ہے، کتنی مضبوط تھی؟

وہ دھماکہ جس نے آر ایس ایس کے منصوبے کا راز فاش کیا

پاکستان کے قیام کو ابھی 25 دن ہی ہوئے تھے کہ کراچی کی شکارپور کالونی میں ایک دھماکہ ہوا۔ اس دھماکے کے بعد ہونے والی تفتیش کے نتیجے میں ایک زیر زمین نیٹ ورک کا پردہ فاش ہوا۔

روزنامہ ڈان کی 17 سمتبر 1947 کی ایک خبر کے مطابق 10 ستمبر کی سہ پہر تین بجے کے قریب رائے بہادر توتا رام کے گھر پر کچھ نوجوان گھر کی پہلی منزل پر ایک کمرے میں دیسی ساختہ بم تیار کر رہے تھے کہ دھماکے سے اس گھر کی چھت اڑ گئی۔ اس واقعے کے نتیجے میں ایک شخص موقع پر ہی ہلاک ہو گیا جبکہ دوسرا شدید زحمی جو بعدازاں ہسپتال میں دم توڑ گیا۔

سندھ پولیس نے اس واقعے کے بعد ’آر ایس ایس‘ کے 30 اراکین کو گرفتار کر لیا۔ پانچ روز کی تفتیش، ان افراد سے برآمد ہونے والی دستاویزات اور مواد کی برآمدگی کے بعد انکشاف ہوا کہ یہ گروہ زیر زمین سرگرمیوں میں ملوث تھا جس میں تقسیم سے پہلے کے کراچی کے کچھ بڑے نام بھی شامل تھے۔

رائے بہادر توتا رام کراچی کی ایک نمایاں کاروبار شخصیت تھے۔ لیکن وہ اس واقعے سے صرف ایک ہفتہ قبل شہر چھوڑ چکے تھے۔

ڈان اخبار نے پولیس ذرائع سے اس رپورٹ میں تحریر کیا ہے کہ اُن کے گھر کی تلاشی کے دوران باروی مواد کا بڑا ذخیرہ ملا جس میں سلفیورک ایسڈ، پستول، ڈیٹونیٹر، دستی بم، بموں میں استعمال ہونے والے بجلی کے کوائل، تلواریں اور پوٹاشیم کی بوتلیں بھی شامل تھیں۔

پولیس کو تلاشی کے دوران آر ایس ایس کا لٹریچر بھی ملا۔ ایک نوجوان اس گھر کی دیکھ بھال کر رہا تھا جو درحقیقت آر ایس ایس کی اس خفیہ تنظیم کا سرغنہ تھا۔ انجینیئرنگ کا یہ طالب علم، ایک ریٹائرڈ فاریسٹ افسر کا بیٹا اور ڈپٹی کلکٹر کا بھائی تھا۔

نندیتا بھاوانی اپنی کتاب ’دی میکنگ آف ایگزائل‘ میں لکھتی ہیں کہ اگست 1947 میں رائے بہادر توتا رام اپنے خاندان کے ساتھ عارضی طور پر انڈیا چلے گئے تو انھوں نے اس زمانے میں کراچی کے پوش علاقے شکارپور کالونی میں اپنا گھر اپنے پڑوسی اور اچھے دوست گوبندرام بادلانی کے 22 سالہ بیٹے نند بادلانی کی حفاظت میں چھوڑ دیا تھا۔

’نند بادلانی نہ صرف پچھلے سات سال سے آر ایس ایس کا رکن تھا بلکہ وہ آر ایس ایس رہنما ایم ایس گوالکر ’گروجی‘ کے بھی بہت قریب تھا جو کراچی کے اپنے سالانہ تنظیمی دوروں پر ہمیشہ بادلانی کے گھر ٹھہرتے تھے۔‘

کراچی میں فسادات اور بدلہ

بھاوانی لکھتی ہیں کہ 8 ستمبر کو ایک ہجوم نے کراچی کے ڈرگ روڈ ریلوے سٹیشن پر ہندوؤں پر حملہ کیا جس میں نو افراد ہلاک اور 26 زخمی ہوئے۔

اگلے ہی دن یعنی 9 ستمبر کو کراچی کی لی مارکیٹ کے قریب روڈ پر ایک بم پھٹا جس سے پانچ مسلمان زخمی ہوئے۔ اس کے اگلے دن 10 ستمبر کو رائے بہادر ہنگورانی کے گھر شکارپور کالونی میں کچھ آر ایس ایس ممبران بم بنا رہے تھے جب دوپہر تقریباً 3 بجے ایک بم حادثاتی طور پر پھٹ گیا جس سے دو سندھی ہندو، پربھو داس بٹانی اور واسودیو ہلاک ہو گئے۔

شکارپور کراچی میں پیش آنے والے اس واقعے کو پاکستان میں دہشت گردی کی پہلی کارروائی قرار دیا جاتا ہے جس کی سماعت کے لیے سندھ اسمبلی نے خصوصی ٹربیونل تشکیل دیا جس کا سربراہ رحیم بخش منشی کو مقرر کیا گیا۔

ملزمان پر ریاست کے خلاف بغاوت اور دھماکہ خیز مواد رکھنے کے الزام عائد کیے گئے۔ چارج شیٹ میں بتایا گیا کہ تمام ملزمان جون 1947 سے 10 ستمبر 1947 تک کراچی میں ایک سازش کا حصہ تھے جس کا مقصد گورنر جنرل آف پاکستان (محمد علی جناح) کے خلاف جنگ شروع کرنا یا اس میں مدد فراہم کرنا تھا۔

چارج شیٹ کے مطابق اس کے علاوہ سازش کا مقصد گورنر جنرل کو ملک یا اس کے کسی حصے کی خودمختاری سے محروم کرنا اور مجرمانہ طاقت کا استعمال کرتے ہوئے حکومت پاکستان اور حکومت سندھ پر قبضہ کرنا تھا۔

پولیس نے نند بادلانی کو اس گینگ کی سرگرمیوں کا ماسٹر مائنڈ قرار دیا جبکہ خانچند گوپال داس کو آر ایس ایس کا صدر بتایا جو مبینہ طور پر اس گینگ کی سرگرمیوں کو کنٹرول کرتا تھا۔ اس مقدمے میں 39 دیگر افراد کو بھی گرفتار کیا گیا۔

ایل کے اڈوانی لکھتے ہیں کہ ان کا اس دھماکے سے کوئی تعلق نہیں تھا لیکن مقامی پریس نے ان کے خلاف بھی الزام تراشی شروع کر دی تو انھیں تنظیم نے کراچی چھوڑنے کی ہدایت کی اور وہ بذریعہ جہاز کراچی سے روانہ ہوئے۔

سندھ پولیس کی تفتیش میں سکھر اور کراچی میں دو ڈکیتیوں میں بھی آر ایس ایس کے ملوث ہونے کا الزام لگایا گیا جبکہ قتل کے چند واقعات میں بھی اس تنظیم کو ملوث قرار دیا گیا۔

ٹربیونل نے الزامات ثابت ہونے پر دو ملزمان خانچند گوپال داس اور نند بادلانی کو عمر قید کی سزا سنائی اور ان میں سے ہر ایک پر پچاس ہزار روپے جرمانہ بھی عائد کیا گیا۔ دیگر ملزمان کو پانچ مختلف دفعات کے تحت 10 سال کی قید اور 1,000 روپے جرمانے کی سزا سنائی گئی۔

رہائی کے بعد انڈیا میں استقبال

پاکستان اور انڈیا کے درمیان جب قیدیوں کا تبادلہ ہوا تو آر ایس ایس کے رہنما اور کارکن انڈیا کے حوالے کر دیے گئے۔ یوں آر ایس ایس کا کراچی سے تنظیمی خاتمہ ہو گیا جو قیام پاکستان کے آخری سالوں میں منظم اور مقبول ہو رہی تھی۔

نندیتا بھاوانی کے مطابق ایک سال سے زیادہ عرصے کے بعد نومبر 1948 میں خانچند گوپال داس اور دیگر آر ایس ایس ارکان کو انڈین جیلوں میں قید چند قیدیوں کے بدلے میں رہا کیا گیا جن میں سب سے نمایاں مسلم لیگی ڈاکٹر عبدالغنی قریشی تھے جنھیں قتل کے الزام میں موت کی سزا سنائی گئی تھی۔

ان قیدیوں کو پہلے لاہور جیل بھیجا گیا جہاں انھوں نے ایک مہینہ گزارا۔ اس کے بعد واہگہ بارڈر پر قیدیوں کا سرکاری تبادلہ ہوا۔ تاہم، نند بادلانی ان قیدیوں کے ساتھ رہا نہیں ہوئے تھے اور وہ 1949 تک کراچی جیل میں رہے جس کے بعد انھیں بھی انڈیا بھیج دیا گیا۔

ایل کے اڈوانی لکھتے ہیں کہ جب پاکستان سے ٹرین فیروز پور پہنچی تو انھیں صرف خانچند گوپال داس (آر ایس ایس کراچی کے صدر) نظر آئے جس کے بعد وہ دلی میں تنظیم کے سربراہ سے ملے اور انھیں کراچی کے انیس لاپتہ آر ایس ایس قیدیوں کے بارے میں بتایا۔ تاہم ایک ماہ کے اندر باقی انیس افراد بھی انڈیا پہنچ گئے۔

نندیتا بھاوانی لکھتی ہیں کہ جب ان سندھی ہندوں کو دہلی لایا گیا تو آر ایس ایس کے سربراہ ایم ایس گولوالکر نے ان کے لیے ایک استقبالیہ رکھا۔

نندیتا بھوانی کے مطابق نند بادلانی کا دعویٰ تھا کہ بم بنانے اور دھماکے کرنے کی سازش میں ان کا کوئی ہاتھ نہیں تھا اور نہ ہی انھیں اس کا کوئی علم تھا۔

ان کے مطابق ’ایک دن میں گھر واپس آ رہا تھا، جب میں نے اپنے پڑوسی کے گھر سے دھواں نکلتا ہوا دیکھا اور معلوم ہوا کہ باہر ایک بڑا ہجوم جمع تھا۔ میں بھی باقی ہجوم کے ساتھ وہاں کھڑا تھا، یہ سوچ رہا تھا کہ کیا ہوا ہے۔ میں نے کچھ نہیں کیا تھا، ورنہ میں بھاگ جاتا۔ جب پولیس آئی، تو مجھے گھر کا انچارج بتا کر گرفتار کر لیا گیا۔‘

جناح پر حملے کی منصوبہ بندی

کراچی بم دھماکے سے قبل آر ایس ایس اورسکھ تنظیم اکالی دل نے مبینہ طور پر پاکستان کے بانی محمد علی جناح پر بھی حملے کی منصوبہ بندی کی تھی۔ یہ دعویٰ پاکستان کی آزادی سے قبل ہی پولیس کی جانب سے سامنے آ چکا تھا جس نے اقتدار کے ایوانوں میں ہلچل مچا دی تھی۔

’مڈ نائٹ فیوریز‘ کے مصنف نیسد ہجیری کے مطابق تفتیش کاروں کو کچھ ثبوت ملے جس کے بعد 5 اگست کی صبح پولیس افسر جینکنز نے لاہور سے سی آئی ڈی کے ایک افسر کیپٹن جیرلڈ سیویج کو دلی بھیجا تاکہ وہ وائسرائے سے ملاقات کرے۔

یہ رپورٹ سننے کے بعد لارڈ ماؤنٹ بیٹن نے دوپہر کی ملاقات کے اختتام پر سردار پٹیل، محمد علی جناح اور لیاقت علی خان کو روک لیا تاکہ سیویج انھیں بھی بریفنگ دے سکیں۔

پولیس رپورٹ کے مطابق گرفتار افراد میں سے ایک نے دعویٰ کیا کہ اس کی موجودگی میں سکھ لیڈر نے یہ بھی کہا کہ جناح کو قتل کیا جائے، ممکنہ طور پر یومِ آزادی پر، جب پاکستان کے قائد کراچی کی سڑکوں سے گزر رہے ہوں۔

مصنف کے مطابق سردار پٹیل نے رپورٹ سننے کے بعد کہا کہ یہ بیانات دباؤ ڈال کر لیے گئے ہیں جبکہ ماؤنٹ بیٹن نے سردار پٹیل، جو انڈیا کے پہلے وزیر داخلہ بنے، کو کہا کہ آپ کا ردعمل اس بات کی علامت ہے کہ ’آپ پہلے ہی اس سازش کے بارے میں جانتے ہیں۔‘

جناح چاہتے تھے کہ تارا سنگھ کو فوراً گرفتار کیا جائے لیکن سیویج نے خبردار کیا کہ اس وقت گرفتاری سے سکھ بغاوت بھڑک سکتی ہے۔

نیسد ہجیری مزید لکھتے ہیں کہ سب نے ماؤنٹ بیٹن کی اس تجویز سے اتفاق کیا کہ گرفتاریوں کو ایک ہفتے کے لیے مؤخر کر دیا جائے کیوں کہ اس وقت تک ریڈکلف کی سرحد کا فیصلہ بھی سامنے آ جائے گا۔ جناح پھر بھی مطمئن نہ تھے اور دو دن بعد کراچی روانہ ہو گئے۔

جناح کی گاڑی پر بم حملے کا منصوبہ

نندیتا بھاوانی لکھتی ہیں کہ سیویج نے حکومت کو یہ بھی بتایا تھا کہ ماسٹر تارا سنگھ کا سب سے بڑا مقصد جناح کا قتل تھا۔

ان کے مطابق آر ایس ایس کے کارکن کراچی کے مجمع میں گھل مل کر جناح کی کار پر اس وقت دستی بم پھینکنے کا منصوبہ رکھتے تھے جب وہ پاکستان کی آزادی کی تقریبات کے دوران دارالحکومت کی سڑکوں پر گزر رہے ہوں گے۔

کراچی میں ماؤنٹ بیٹن اور ان کی اہلیہ جناح اور فاطمہ جناح کے ساتھ ایک کھلی سیاہ رولز رائس میں شہر کے دورے پر نکلے تو تین میل کا سفر تیس منٹ میں مکمل ہوا۔ گاڑی انتہائی آہستہ چل رہی تھی اور راستے کے دونوں طرف کھڑے عوام پرجوش نعروں سے استقبال کر رہے تھے۔ بالآخر جناح نے کہا کہ ان کی (ماؤنٹ بیٹن) موجودگی نے ایک ممکنہ حملے کو ناکام بنا دیا۔

ریٹا کوٹھاری لکھتی ہیں کہ 1932 میں ہندو مہاسبھا کے دلی اجلاس نے آر ایس ایس کی سرگرمیوں کی تعریف کرتے ہوئے پورے ملک میں اس کے نیٹ ورک کو پھیلانے کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے ایک قرارداد منظور کی تھی۔

یاد رہے کہ 1943 میں جب کانگریس سندھ اسمبلی سے مستعفی ہوئی تو ہندو مھاسبھا نے مسلم لیگ کے ساتھ مل کر حکومت بنائی تھی۔

ایل کے اڈوانی لکھتے ہیں کہ سندھ کی پوری ہندو آبادی کانگریس کی پُرزور حامی تھی۔ لیکن ان کے مطابق وہکئی ایسے کانگریسی خاندانوں کو بھی جانتے تھے جو اپنے نوجوان بیٹوں کو آر ایس ایس میں شامل ہونے کی ترغیب دیتے تھے۔

ریٹا کوٹھاری کے مطابق جیانت ریلوانی، جن کے والد کانگریس کے حامی تھے، جب وہ تقریباً 17 سال کے تھے تو آر ایس ایس سندھ میں آ چکی تھی۔ ’میرے والد کو لگا کہ کانگریس نے لوگوں کو مایوس کیا ہے، گاندھی بھگت سنگھ کے لیے کھڑے نہیں ہوئے اور وہ عام طور پر مایوس تھے۔ وہ چاہتے تھے کہ میں آر ایس ایس میں جاؤں کیونکہ سندھ اسی سمت میں جا رہا تھا۔‘

کراچی میں آر ایس ایس کی آخری ریلی

کراچی میں قیام پاکستان سے صرف دس روز قبل آر ایس ایس کی جانب سے سڑکوں پر ایک مارچ کیا گیا تھا۔

ایل کے اڈوانی اپنی آپ بیتی میں لکھتے ہیں کہ ’یہ سندھ میں آر ایس ایس کی تاریخ کی سب سے بڑی ریلی ثابت ہوئی۔ تقریباً 10,000 سویم سیوکوں کا ایک منظم جلوس، یونیفارم یعنی خاکی شارٹس، سفید قمیضیں اور کالی ٹوپیاں پہنے، ایک نیم فوجی بینڈ کے دُھنوں کے ساتھ مارچ کرتا ہوا، چل رہا تھا۔‘

آر ایس ایس کی تنظیم سندھ میں بہت پہلے سے پنپ رہی تھی لیکن اڈوانی کے مطابق 1940 میں قراردادِ لاہور، جسے بعد میں ’قراردادِ پاکستان‘ کہا جانے لگا، نے سندھ کے سیاسی ماحول پر گہرا اثر ڈالا۔

نندیتا بھاوانی لکھتی ہیں کہ ’سندھ میں ہندوؤں کی مسلمانوں سے عداوت بڑھتی چلی جا رہی تھی۔ پاکستان کو 3 جون کے ایک سرکاری اعلان سے 14 اگست تک حقیقت بننے میں محض 10 ہفتے لگے تھے۔ چونکہ یہ تبدیلی بہت تیزی سے ہوئی تھی اس لیے بہت سے سندھی ہندو اسے ہضم نہیں کر پائے تھے اور سندھ کی بدلتی ہوئی معاشرتی و سیاسی حقیقت کو قبول نہیں کر سکے کیونکہ پاکستان کے قیام کے بعد بھی، وہ اپنی برتری اور طاقت کے احساس کو برقرار رکھے ہوئے تھے اور اپنے سماجی رتبے کو خطرے میں پا کر مشتعل تھے۔‘

وہ لکھتی ہیں کہ ’مسلمانوں کے راتوں رات اقتدار میں آنے سے ان کے سماجی و اقتصادی غلبے کے احساس کو ٹھیس پہنچی، جس نے ان کے فرقہ وارانہ رویے کو مزید سخت کیا۔ اس سے پہلے آریہ سماج اور پھر آر ایس ایس کی آمد نے 1920 کی دہائی کے وسط سے سندھ میں مسلمانوں کے خلاف ہندوؤں کی عداوت کو بڑھانے میں بہت اہم کردار ادا کیا۔‘

اشوکا یونیورسٹی کی پروفیسر ریٹا کوٹھاری اپنے مقالے ’سندھ میں آر ایس ایس‘ میں لکھتی ہیں کہ مصنف جیانت ریلوانی نے ذکر کیا ہے کہ صرف کراچی شہر میں آر ایس ایس کی 41 ’شاکھائیں‘ یعنی شاخیں تھیں۔

تاہم ایل کے اڈوانی کے مطابق اگرچہ آر ایس ایس نے سندھ میں اپنی باقاعدہ سرگرمیاں صرف 1939 میں شروع کی تھیں تاہم مختصر مدت میں یہ تنظیم صوبے کے تمام شہری مراکز میں بے حد مقبول اور طاقتور بن گئی تھی۔

اُس دور میں سندھ کے تقریباً ہر شہر میں ہندو اکثریت میں تھے، جن میں کراچی اور حیدرآباد بھی شامل تھے۔ وہ زیادہ خوشحال، تعلیم یافتہ اور وکالت، طب اور سرکاری ملازمت جیسے شعبوں میں نمایاں تھے۔

ایڈوانی کے مطابق ’آر ایس ایس میں میری ذمہ داریاں تیزی سے بڑھیں اور جنوری 1947 میں مجھے اس کا سٹی سیکریٹری بنا دیا گیا۔ میرا کام شاخاؤں (روزانہ کی رضا کارانہ اجتماعات) کی نگرانی کرنا تھا، جو اچانک ہزاروں نوجوانوں کو اپنی طرف کھینچنے لگی تھیں اور ہندو برادری کے ممتاز افراد سے رابطے رکھنا بھی میری ذمہ داری تھی۔‘

ایل کے اڈوانی کی زندگی پر کتاب کے مصنف آتمارام کلکرنی لکھتے ہیں کہ ہندو سندھیوں کو آر ایس ایس میں دلچسپی لینے کے لیے لسی، دودھ اور مٹھائی جیسے لالچ دیے جاتے تھے۔

تربیت اور بھرتیاں

اشوکا یونیورسٹی کی پروفیسر ریٹا کوٹھاری لکھتی ہیں کہ ’جب برصغیر کی تقسیم ایک حقیقت بن گئی تو سندھ میں آر ایس ایس کے ذہن میں دو فوری مقاصد تھے۔ ایک سندھی ہندوؤں کے انخلا میں سہولت فراہم کرنا اور دوئم جانے سے پہلے چند سرکاری ڈھانچوں کو نشانہ بنانا۔ دونوں مقاصد کے لیے ہتھیاروں کی ضرورت تھی جس کے لیے 21 نوجوانوں کے ایک گروپ نے بہت تیاریاں کیں۔‘

شکارپور کالونی دھماکے کیس میں سب انسپکٹر مولچند، جو سی آئی ڈی میں ہندوں کے معاملات کے انچارج تھے، نے بیان دیا کہ ان کے ساتھی ہیڈ کانسٹیبل پچھلے دو سالوں سے بندر روڈ ایکسٹیشن میں رہنے والے ہندوؤں کی سرگرمیوں پر نظر رکھے ہوئے ہیں اور انھیں راشٹریہ سیوک سنگھ کی سرگرمیوں کی روزانہ کی رپورٹ ملتی تھیں۔

ان کے مطابق ان کے اراکین کی تعداد 300 کے قریب تھی جو باقاعدگی سے فوجی مشقیں اور پریڈ بھی کرتے تھے، انھیں جنگی حکمت عملی کی تربیت دی جاتی تھی اور انھوں نے انھیں لاٹھیوں کے ساتھ سڑکوں پر پریڈ کرتے اور جسمانی مشقیں کرتے دیکھا تھا اور بڑی تعداد میں موٹر سائیکلیں، کاریں اور جیپیں بھی استعمال ہوتے دیکھیں۔

نندیتا بھاونی کے مطابق انفرادی کارکنوں، مردوں اور خواتین، نے ہتھیار حاصل کیے تھے اور ہتھیاروں اور گولہ بارود کو لے جانے کے لیے مختلف گاڑیوں پر مشتمل ایک ٹرانسپورٹ نیٹ ورک قائم کیا تھا۔

ان کے مطابق کوچنگ کلاسز کی آڑ میں، انھوں نے رائے بہادر ہنگورانی کے گھر کو بم بنانے کے لیے استعمال کیا، جس میں کچھ ایسے ممبران کی مدد حاصل کی گئی جو پہلے سوشلسٹ تھے اور 1942 کی ہندوستان چھوڑو تحریک کے دوران یہ تکنیک سیکھ چکے تھے۔

نامور سندھی مصنف موہن کلپنا تقسیم کے وقت کراچی میں رہنے والے ایک 16 سالہ لڑکے تھے۔ وہ 1941 میں آر ایس ایس میں شامل ہوئے اور 1952 میں اسے چھوڑا۔ اپنی سوانح عمری میں، موہنواضح طور پر آر ایس ایس کی تخریب کاری اور تشدد میں حصہ داری کا اعتراف کرتے ہیں۔

وہ لکھتے ہیں کہ ’میری جان پہچان راج پال پوری سے ہوئی، جو سندھ کے انچارج تھے۔ ایک اور شخص، پریبھداس بٹانی تھے، جنھوں نے کہا کہ پاکستان تو یقینی طور پر بنے گا۔ ہم سندھ کے تھانوں، ہوائی اڈے، ریڈیو سٹیشنوں وغیرہ پر قبضہ کر لیں گے۔‘

’میں ان سب چیزوں کے لیے ابھی بہت چھوٹا تھا اور مجھے معلوم نہیں تھا کہ ہتھیار کہاں سے آتے تھے۔ مجھے بتایا گیا کہ چونکہ میں معصوم نظر آتا ہوں، مجھے خفیہ شعبے میں شامل ہونا چاہیے اور جاسوسی کا فن سیکھنا چاہیے۔‘

اڈوانی لکھتے ہیں کہ پاکستان سے سندھ کے ہندو مختلف ریاستوں میں جا بسے جن میں گجرات، راجستھان، مہاراشٹرا اور مدھیہ پردیش اُن کا مسکن بنے۔

یاد رہے کہ انڈیا میں بی جے پی کی مرکزی قیادت میں ایل کے اڈوانی، رام جیٹھ ملانی مرکزی عہدوں اور حکومت منصوبوں پر فائز رہے ہیں۔ ریٹا کوٹھاری لکھتی ہیں کہ 1947 کے دوران انڈیا آنے والی پہلی نسل میں سے کچھ نوجوان اپنے ساتھ آر ایس ایس کا ورثہ لائے اور اسے اگلی نسل تک پہنچایا۔

آر ایس ایس کے 100 سال: وہ ہندو تنظیم جس نے گاندھی کے قتل پر ’مٹھائی بانٹی‘ اور انڈیا کو دو وزرائے اعظم دیےآر ایس ایس کا فوج کھڑی کرنے کا خوابآر ایس ایس سربراہ کی مسلم دانشوروں سے ملاقات، مسجد اور مدرسے کے دورے کے بعد آگے کیا ہوگا؟آر ایس ایس سربراہ موہن بھاگوت ہندوؤں کے ہی نشانے پر کیوں؟آر ایس ایس سے مسلمان دانشوروں کی ملاقات: ’ان سے کہا کہ وہ نفرت انگیز بیانات کو غلط کہیں‘
مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More