20 سال تک غزنی پر حکومت کرنے کے بعد سنہ 997 میں وہاں کے بادشاہ ناصر الدین سبکتگین کی وفات ہوئی۔ اس کے بعد سبکتگین کے بیٹے محمود غزنوی تخت نشین ہوئے۔
اصل میں سبکتگین نے محمود کو اپنا جانشین مقرر نہیں کیا تھا۔ اُن کی خواہش تھی کہ اُن کا چھوٹا بیٹا اسماعیل اُن کا وارث بنے۔
تاہم سبکتگین کی موت کے بعد جانشینی کا فیصلہ تلوار اور طاقت کے زور پر ہوا اور بادشاہ کی آخری خواہش پوری نہ ہو سکی۔
جب سبکتگین کی وفات ہوئی تو اُس وقت محمود خراسان میں تھے۔ اُنھوں نے اپنے بھائی کو ایک خط لکھا کہ ’اگر تم میرے لیے تخت چھوڑ دو تو میں تمہیں بلخ اور خراسان کے صوبوں کا گورنر مقرر کر دوں گا۔‘
لیکن اسماعیل نے یہ پیشکش مسترد کر دی۔ اس کے بعد محمود نے اپنی فوج کے ساتھ بھائی کے خلاف غزنی پر حملہ کیا اور جنگ میں اسماعیل کو شکست دی۔
اسماعیل کو گرفتار کر لیا گیا اور اس کے بعد محمود نے 27 سال کی عمر میں غزنی کا تخت سنبھالا۔
ہندوستان پر حملوں کا مقصد دولت لوٹنا تھا
اپنی 32 سالہ حکمرانی کے دوران محمود نے ہندوسستان پر کل 17 حملے کیے۔
ابراہیم ایرالی نے اپنی کتاب ’دی ایج آف روتھ‘ میں لکھا ہے کہ ’ہندوستان کے مندروں میں خزانہ بھرا ہوا تھا۔ ان پر حملہ کرنا ان کے مذہبی جذبے کے مطابق بھی تھا لیکن ساتھ ہی بے پناہ دولت بھی ان کے ہاتھ لگتی تھی۔‘
وہ لکھتے ہیں کہ ’اسلام کی تبلیغ محمود کے حملوں کا کبھی مقصد نہیں رہا تھا۔‘
مشہور سیاح البیرونی لکھتے ہیں کہ ’محمود کے حملوں کے دوران جن لوگوں نے اپنی جان اور مال بچانے کے لیے اسلام قبول کیا تھا، محمود کے واپس چلے جانے کے بعد وہ دوبارہ اپنے پرانے مذہب پر عمل کرنے لگے۔‘
’محمود کے ہندوستان پر حملوں کا مذہبی طور پر بہت ہی معمولی اثر ہوا۔‘
محمود غزنوی کے سومناتھ مندر پر حملے میں کتنے ہندو مارے گئے اور وہاں سے کتنی دولت لوٹی گئی؟سومناتھ مندر: جب ’بت شکن‘ محمود غزنوی کی طرف سے مسمار کی گئی عبادت گاہ کا دوبارہ افتتاح کیا گیاکیا 111 سالہ بڑھیا کی کہانی نے بابر کو ہندوستان کی فتح کا خواب دکھایا؟محمود غزنوی: ایک مثالی حکمران یا برصغیر میں ہندو تہذیب کی بربادی کا سامان؟محمود کی فوج میں ہندو سپاہی
اپنے مقاصد حاصل کرنے کے لیے محمود نے مذہبی جوش و جذبے کا سہارا لیا تھا۔ اسی کے ساتھ اپنی فوج میں بڑی تعداد میں ہندو سپاہیوں کو بھرتی کرنے میں اُنھیں کوئی مُشکل پیش نہیں آئی۔
یہ بات سننے اور پڑھنے میں شاید کچھ حیران کن لگے مگر شمال مغربی انڈیا میں سے غزنوی سلطنت کے جو سکے ملے ہیں اُن پر عربی کے علاوہ شاردا رسم الخط میں بھی تحریریں پائی گئی ہیں۔
پی ایل گپتا اپنی کتاب ’کوائنز‘ میں لکھتے ہیں کہ ’ان سکّوں پر سلطان کے اسلامی لقب کے ساتھ ساتھ نندی اور شری سامنت دیو جیسے ناموں کا بھی ذکر ملتا ہے۔‘
Getty Imagesتاریخ میں لکھا ہے کہ غزنی کے محمود نے سومناتھ مندر پر حملہ کیا اور اس کے قیمتی خزانوں کو لوٹ لیا۔
العتبی اپنی ’تاریخِ یمینی‘ میں لکھتے ہیں کہ محمود نے جو لشکر وسطی ایشیا میں بھیجا اُس میں ترک، خلجی، افغانوں کے ساتھ ساتھ ہندوستانی بھی شامل تھے۔
اُس لشکر کو صدیوں پرانے مسلم سلطنت ملتان کو تباہ کرنے اور وہاں بڑی تعداد میں بسنے والے مسلمانوں کے قتلِ عام میں کوئی جھجک محسوس نہیں ہوئی۔
اُنھوں نے نہ صرف اُن کی مساجد کو تباہ کیا بلکہ الٹا اُن سے دو کروڑ درہم بھی وصول کیے۔
دولت بھی لوٹی اور غلام بھی بنایا
محمود کے سپاہیوں کی دلچسپی جنگ جیتنے سے زیادہ لوٹ مار کا سامان جمع کرنے میں تھی۔ کئی بار تو اُنھیں ہندوستان پر کیے جانے والے حملوں سے اتنی دولت ہاتھ لگتی کہ جس کا انھوں نے کبھی خواب میں بھی تصور نہیں کیا تھا۔
خزانہ لوٹنے کے علاوہ وہ اپنے ساتھ ہندوستانی مردوں، عورتوں اور بچوں کو غلام بنا کر بھی لے جاتے تھے۔
اپنے لیے غلام بنانے کے لیے ہندوستان سے غلاموں کی صورت میں صرف لوگ ہی نہیں لائے جاتے تھے، بلکہ انھیں آگے فروخت بھی کر دیا جاتا تھا۔
مندروں میں موجود بے پناہ دولت کی وجہ سے اُس زمانے میں مقدس مقامات کو نشانہ بنایا جاتا تھا۔
یہ لوٹ مار ہی غزنوی انتظامیہ کے چلانے اور سپاہیوں کی تنخواہیں دینے کا سبب بنتی تھی۔
قتلِ عام کی وضاحت کتنی درست ہے؟
محمود کے دور کے تاریخ دانوں میں یہ رجحان دیکھا گیا ہے کہ ہندوستان میں کی گئی لوٹ مار کے واقعات کو بڑھا چڑھا کر بیان کیا جاتا تھا تاکہ محمود کی شان میں اضافہ ہو۔
ابراہیم ایرالی لکھتے ہیں کہ ’ایک حملے میں 15 ہزار، دوسرے میں 20 ہزار اور سومناتھ پر حملے میں 50 ہزار لوگوں کے قتل کی بات کی گئی ہے۔ اتنے سارے لوگوں کو صرف تلوار اور کمان و تیر کے زور پر چند گھنٹوں میں مار دینا۔۔۔ اس پر یقین کرنا مشکل ہے۔‘
’اگرچہ اس میں مبالغہ آرائی کو نظر انداز بھی کر دیا جائے تب بھی یہ بات ماننے سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ محمود کے حملے شدید اور ہولناک تھے۔‘
اُنھوں نے صرف دشمن کے سپاہیوں کو ہی نہیں مارا بلکہ عام لوگ بھی بڑی تعداد میں ان کے حملوں کی بھینٹ چڑھ گئے۔
صرف چھوٹے بچے اور خواتین کو زندہ چھوڑا جاتا تھا اور وہ بھی ہر بار نہیں۔ انھیں بھی مردوں کی طرح غلام بنا کر غزنی لے جایا جاتا تھا۔
’ہندوستان پر حکومت کرنے کی خواہش نہیں تھی‘
اہم بات یہ ہے کہ اتنے حملوں کے باوجود محمود کو ہندوستان پر حکومت کرنے کی کبھی خواہش نہیں ہوئی۔
وہ بڑے رقبے پر حکومت کر سکتے تھے لیکن ان کے پاس سلطنت قائم کرنے کے لیے درکار صبر و استقامت نہیں تھی۔
Getty Imagesاتنے حملوں کے بعد محمود ہندوستانی سرزمین پر حکومت نہیں کرنا چاہتا تھا۔
پنجاب اور سندھ جنھیں ہندوستان کا داخلی دروازہ کہا جاتا ہے، کے علاوہ محمود نے ہندوستان کے کسی اور علاقے پر اپنا کنٹرول قائم نہیں کیا۔
برطانوی مورخ والزلی ہیگ اپنی کتاب ’کیمبرج ہسٹری آف انڈیا‘ میں لکھتے ہیں ’محمود کی تمام ہندوستانی مہمات ڈاکوؤں کے حملوں کی طرح تھیں۔ وہ طوفان کی طرح آتا، تیز رفتار لڑائیاں لڑتا، مندروں کو تباہ کرتا، بتوں کو توڑتا، ہزاروں لوگوں کو غلام بناتا، بے پناہ دولت لوٹتا اور واپس غزنی چلا جاتا۔‘
’ان کی ہندوستان میں ٹھہرنے کی کوئی خواہش نہیں تھی۔ شاید اس کی وجہ یہاں کے گرم موسم ہو سکتے ہیں۔‘
30 ہزار گھڑ سواروں کے ساتھ حملہ
محمود کی سب سے بڑی اور آخری ہندوستانی مہم سومناتھ مندر پر ہی تھی۔
سومناتھ کے بارے میں البیرونی لکھتے ہیں ’سومناتھ مندر پتھر کا بنا ہوا تھا۔ اس کی تعمیر محمود کے حملے سے 100 سال قبل ہوئی تھی۔ یہ مندر کسی قلعے کی طرح مضبوط تھا اور تین طرف سے سمندر سے گھرا ہوا تھا۔‘
رائل ایشیائی سوسائٹی میں شائع ہونے والے ’سومناتھ اینڈ دی کونکویسٹ بائی سلطان محمود‘ کے مضمون میں محمد ناظم نے لکھا کہ ’سومناتھ مندر کی چھت پیرامیڈ کی شکل کی تھی اور اس کی اونچائی 13 منزلہ تھی۔ اس کا گنبد سونے کا تھا اور دور سے چمکتا نظر آتا تھا۔ مندر کی بنیاد ساگون کے لکڑی سے بنی تھی۔‘
اکتوبر 1024 میں محمود 30 ہزار گھڑ سوار سپاہیوں کے ساتھ سومناتھ پر حملہ کرنے کے لیے روانہ ہوئے۔
سفر کے دوران لوٹ مار کے شوق کے باعث کئی لوگ اُن کے ساتھ شامل ہو گئے۔ نومبر میں وہ ملتان پہنچے اور راجستھان کے صحرا کو عبور کرتے ہوئے گجرات جا پہنچے۔
اس مہم میں اُن کے ساتھ سینکڑوں اونٹ بھی تھے۔ سفر کے دوران درکار پانی اور خوراک کی چیزیں انھی اونٹوں پر لادی گئی تھیں۔
ہر سپاہی کے پاس ہتھیاروں کے علاوہ چند دنوں کی خوراک بھی تھی۔
لاکھوں عقیدت مند ہر سال سومناتھ کے درشن کرنے آتے تھے
جنوری 1025 میں محمود سومناتھ پہنچے۔ اُس وقت کے مشہور مورخ زکریا القزوینی لکھتے ہیں کہ ’سومناتھ کی مورتی مندر کے وسط میں رکھی گئی تھی۔‘
Getty Imagesسومناتھ مندر ایک بہت ہی امیر مندر تھا جہاں صدیوں سے خزانے رکھے گئے تھے۔
ہندو مذہب میں اس مندر کی بہت اہمیت تھی۔ چاند گرہن کے وقت لاکھوں ہندو عقیدت مند زیارت کے لیے آتے تھے۔ یہ ایک انتہائی مالدار مندر تھا اور صدیوں سے یہاں خزانہ جمع کیا جا رہا تھا۔
یہاں 1200 کلومیٹر دور سے مقدس گنگا کا پانی لایا جاتا تھا جس سے سومناتھ کی مورتی کو غسل دیا جاتا تھا۔
’اس وقت سومناتھ مندر میں ایک ہزار برہمن تھے۔ مندر کے مرکزی دروازے پر 500 نوجوان خواتین گیت گاتیں اور رقص کرتی تھیںاور یہ وہ مناظر ہیں جو زکریا القزوینی نے بیان کیے ہیں۔
سومناتھ پر حملہ
محمود کی فوج نے سب سے پہلے شہر پر تیراندازی کے ذریعے حملہ کیا۔
اس کے بعد وہ شہر کی حفاظتی دیواروں پر رسیوں کی مدد سے چڑھ گئے اور شہر کی سڑکوں میں اتر کر قتل و غارتگری شروع کر دی۔
Getty Imagesمحمود کی فوج نے سب سے پہلے شہر پر تیروں سے حملہ کیا۔
شام تک یہ حملے جاری رہے۔ اس کے بعد محمود کی فوج جان بوجھ کر شہر سے باہر نکل گئی۔
دوسرے دن صبح انھوں نے دوبارہ حملہ شروع کیا۔ القزوینی لکھتے ہیں کہ اس لڑائی میں 50 ہزار سے زیادہ مقامی لوگ مارے گئے۔
اس کے بعد محمود مندر میں داخل ہوئے۔ پورا مندر 56 لکڑی کے ستونوں پر بنایا گیا تھا۔
محمود نے حیرت کا اظہار کیا ’فنِ تعمیر کا سب سے بڑا عجوبہ یہ تھا کہ مندر کی مرکزی مورتی بغیر کسی سہارے کے ہوا میں تیر رہی تھی۔‘
البیرونی مندر کی وضاحت کرتے ہوئے لکھتے ہیں ’مندر کا مرکزی دیوتا شیو تھے۔ زمین سے دو میٹر بلندی پر ایک پتھر کا شیو لنگ تھا جس کے ارد گرد سونے اور چاندی کی کچھ مورتیوں کا انتظام تھا۔‘
جب محمود نے مورتی توڑی تو انھیں ایک جگہ نظر آئی جو قیمتی جواہرات سے بھری ہوئی تھی۔ اس خزانے کو دیکھ کر محمود حیران رہ گئے۔
40 من وزن کی سونے کی زنجیر جو مندر میں ایک بڑے گھنٹے سے لٹکی ہوئی تھی، انھوں نے توڑ دی۔
دروازے، فریم اور چھت پر موجود چاندی کو بھی نکال لیا۔ یہ سب کرنے کے باوجود ان کا دل نہیں بھرا اور دولت کی ہوس میں انھوں نے مندر کھود کر مزید خزانہ نکالا۔
ہندوستان میں مورتیوں کی تقسیم
تاریخ دان سیرج نے تبابکۃ الناصری میں لکھا ’محمود سومناتھ کی مورتی کو اپنے ساتھ غزنی لے گئے۔ وہاں اسے چار حصوں میں تقسیم کیا گیا۔ ایک حصہ جمعہ کی نماز کے لیے مخصوص جگہ پر لگایا گیا، دوسرا حصہ محل کے دروازے پر نصب کیا گیا، تیسرا حصہ مکہ بھیجا گیا اور چوتھا حصہ مدینہ۔‘
Getty Imagesمحمود سومناتھ سے تقریباً چھ ٹن سونا لے گئے۔ انھوں نے 15 دن سومناتھ میں گزارے اور پھر لوٹ مار کے ساتھ غزنی واپس آگئے۔
محمود نے سومناتھ سے تقریباً چھ ٹن سونا لوٹ لیا۔ وہ سومناتھ میں 15 دن رہے اور پھر لوٹی ہوئی دولت کے ساتھ غزنی واپس روانہ ہوئے۔ کچ اور سندھ کے راستے واپس جاتے ہوئے انھیں متعدد مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔
وہ 1026 کی بہار میں غزنی پہنچے۔ البیرونی لکھتے ہیں کہ محمود کے حملے کی وجہ سے ہندوستان میں اقتصادی ہلچل پیدا ہوئی۔
ابتدائی حملوں کا مقصد مال غنیمت سمیٹنا تھا۔ بعد میں شہر کے خزانے لوٹنے کا مقصد شامل ہوا۔ شکست خوردہ افراد کو جنگی قیدی بنا کر غلاموں کی طرح فروخت کیا جاتا یا فوج میں بھرتی کیا جاتا تھا۔
محمود کے بعد بھی سومناتھ مندر کی توڑ پھوڑ جاری رہی
محمود کی زندگی کے آخری دو سال شدید بیماری میں گزرے۔
اپریل 1030 میں 33 سالہ حکمرانی کے بعد 59 سال کی عمر میں محمود کی وفات ہوئی۔
پندرہویں صدی کے ایرانی مورخ خوندامیر کے مطابق محمود کی موت جگر کی بیماری کی وجہ سے ہوئی۔
محمود کی وفات کے بعد سومناتھ مندر کی دوبارہ تعمیر کی پہلی کوشش چالوکیا خاندان کے بادشاہ بھیّم اول کی قیادت میں کی گئی۔
کتاب ’سومناتھ ٹیمپل: وٹنس ٹو ٹائم اینڈ ٹرائمف‘ میں سواتی بشط لکھتی ہیں کہ نیا مندر راکھ سے جیسے فینکس کی طرح دوبارہ کھڑا ہوا اور اس میں دوبارہ تنصیب کی گئی۔
لیکن بارہویں صدی میں غوری خاندان کے محمد غوری نے ایک بار پھر مندر کو ملبے میں بدل دیا۔
بشط لکھتی ہیں ’گذشتہ چند صدیوں میں سومناتھ مندر کو کئی بار نشانہ بنایا گیا اور دوبارہ تباہ کیا گیا۔ بارہویں صدی میں سولنکی خاندان کے بادشاہ کمارپال نے مندر کی دوبارہ تعمیر کی ذمہ داری اٹھائی۔ اٹھارہویں صدی میں اندور کی ملکہ اہلیہ بائی کی نگرانی میں سومناتھ مندر دوبارہ تعمیر ہوا۔‘
آزادی کے بعد سومناتھ مندر کی مرمت
انڈیا کی آزادی کے بعد سومناتھ مندر کی مرمت کی مہم دوبارہ شروع ہوئی۔
انڈیا کے پہلے نائب وزیر اعظم سردار ولبھ بھائی پٹیل اور کے ایم منشی کی نگرانی میں مندر کو اس کی سابقہ عظمت واپس دلانے کی کوشش کی گئی۔
Getty Imagesانڈیا کے پہلے نائب وزیر اعظم سردار ولبھ بھائی پٹیل اور کے ایم منشی کی نگرانی میں مندر کو اس کی سابقہ شان میں بحال کرنے کی کوششیں کی گئیں۔
آزادی کے تین ماہ بعد سردار پٹیل نے اس مقام کا دورہ کیا۔
وہاں تقریر کرتے ہوئے پٹیل نے کہا کہ ’حملہ آوروں نے اس جگہ کی جو بے حرمتی کی تھی، وہ ماضی کی بات بن چکی ہے۔ اب وقت آ گیا ہے کہ سومناتھ کی پرانی عظمت دوبارہ قائم کی جائے۔ یہ صرف ایک عبادت گاہ نہیں رہے گا، بلکہ ثقافت اور ہماری یکجہتی کی علامت بن کر دوبارہ تعمیر کیا جائے گا۔‘
لیکن پٹیل مندر کے مکمل ہونے تک زندہ نہیں رہے۔ 15 دسمبر 1950 کو ان کی وفات ہوئی۔
نہرو کی مخالفت
پٹیل کی وفات کے بعد مندر کی تعمیر کی ذمہ داری کانھایالال منشی نے سنبھالی۔
11 مئی 1951 کو انڈیا کے پہلے صدر ڈاکٹر راجندر پرساد نے افتتاحی تقریب میں شرکت کی۔ وزیر اعظم نہرو کے دیے گئے مشورے کو نظرانداز کرتے ہوئے انھوں نے پروگرام میں شرکت کی تھی۔
Getty Images11 مئی 1951 کو انڈیا کے پہلے صدر ڈاکٹر راجندر پرساد نے افتتاح میں شرکت کی۔
وزیر اعظم نہرو نے صدر راجندر پرساد سے مخالفت کی وجہ بیان کرتے ہوئے کہا کہ ایک سیکولر ملک کے سربراہ کے لیے خود کو مذہبی احیا یا دوبارہ تعمیر سے جوڑنا مناسب نہیں ہے۔
یہ صرف نہرو ہی نہیں تھے بلکہ نائب صدر ڈاکٹر سروپلی رادھاکریشنن اور انڈیا کے سابق گورنر جنرل سی راجگوپالچاری نے بھی اس کی مخالفت کی۔
2 مئی 1951 کو وزیراعلیٰ کو لکھے گئے خط میں نہرو نے کہا ’آپ نے سومناتھ مندر کے افتتاح کے بارے میں خبریں اخبارات میں پڑھیں ہوں گی۔ ہمیں یہ بات واضح طور پر سمجھنی چاہیے کہ یہ کوئی سرکاری پروگرام نہیں ہے۔ انڈین حکومت کا اس معاملے سے کوئی تعلق یا دخل نہیں ہے۔‘
کیا 111 سالہ بڑھیا کی کہانی نے بابر کو ہندوستان کی فتح کا خواب دکھایا؟محمود غزنوی: ایک مثالی حکمران یا برصغیر میں ہندو تہذیب کی بربادی کا سامان؟محمود غزنوی کے سومناتھ مندر پر حملے میں کتنے ہندو مارے گئے اور وہاں سے کتنی دولت لوٹی گئی؟سومناتھ مندر: جب ’بت شکن‘ محمود غزنوی کی طرف سے مسمار کی گئی عبادت گاہ کا دوبارہ افتتاح کیا گیاجنگ میں لوٹی دولت سے ہندوستان میں فلک بوس مندر بنانے والے چولا خاندان کی کہانیرام مندر کی دو کروڑ میں خریدی گئی زمین منٹوں میں 18 کروڑ کی کیسے ہو گئی؟