Reuters
انڈیا کے دورے پر موجود افغانستان میں طالبان حکومت کے وزیر خارجہ امیر خان متقی کا کہنا تھا کہ جمعے کو ان کی پریس کانفرنس سے کسی کو جان بوجھ کر نہیں نکالا گیا تھا۔
امیر خان متقی نے اتوار کو نئی دہلی میں ایک اور پریس کانفرنس کی۔ جمعے کو ان کی پچھلی پریس کانفرنس میں کسی خاتون صحافی کو شریک نہیں کیا گیا تھا۔
کئی خواتین صحافیوں نے سوشل میڈیا پر کہا تھا کہ انھیں مدعو نہیں کیا گیا تھا جس پر افغان طالبان کے ساتھ ساتھ انڈین حکومت کو بھی تنقید کا سامنا کرنا پڑا۔
تاہم انڈین وزارت خارجہ کا کہنا تھا کہ افغان سفارتخانے میں منعقد کی گئی پریس کانفرنس میں اس کا کوئی عمل دخل نہیں تھا۔ خیال رہے کہ انڈین وزیر خارجہ ایس جے شنکر نے جمعے کو کابل میں دوبارہ انڈین سفارتخانہ کھولنے کا اعلان کیا تھا۔
اتوار کو دوبارہ منعقد کی گئی پریس کانفرنس میں خواتین صحافیوں نے بھی شرکت کی اور انھوں نے طالبان حکومت کے وزیر خارجہ سے کئی سخت سوالات بھی کیے۔
Reutersاتوار کی پریس کانفرنس میں خواتین صحافیوں نے بھی شرکت کیجمعے کی پریس کانفرنس میں خواتین صحافیوں کی عدم موجودگی پر وضاحت
جمعے کو نئی دہلی میں افغانستان کے سفارت خانے میں طالبان حکومت کے وزیر خارجہ امیر خان متقی کی پریس کانفرنس کے لیے تقریباً 16 مرد صحافیوں کا انتخاب کیا گیا۔
صحافیوں نے دعویٰ کیا تھا کہ خواتین اور غیر ملکی میڈیا کو واپس بھیجا گیا تھا۔ تاہم طالبان کے حکومتی وفد کے رکن اور وزارت خارجہ کے ترجمان زئی تکل نے اس بات کی تردید کی تھی۔
انھوں نے کہا تھا کہ ’وہ تمام صحافی جو سفارت خانے پہنچے تھے انھیں (پریس کانفرنس میں) شرکت کی اجازت دی گئی تھی۔‘
شیوانگی سنگھ: انڈیا کو اپنی فائٹر پائلٹ کے بارے میں بار بار تردیدیں کیوں جاری کرنی پڑ رہی ہیں؟’راولپنڈی چکن تکہ‘: ایک متنازع مینیو کارڈ جس پر انڈیا میں بھی تنقید ہوئی’ڈکٹیٹ‘ کرنے کا تاثر، ماضی سے سبق سیکھنے کی دھمکی یا غیر حقیقی امیدیں: پاکستان اور افغان طالبان کے مابین تناؤ کی وجہ کیا ہے؟افغانستان میں طالبان متعدد مذہبی سکالرز کو 'گرفتار اور اغوا' کیوں کر رہے ہیں؟
اتوار کی پریس کانفرنس کے دوران جمعے کو خواتین صحافیوں کی عدم موجودگی پر سوال اٹھایا گیا۔ اس بار خواتین نہ صرف اگلی نشستوں پر بیٹھی ہوئی دکھائی دیں بلکہ اکثر سوالات بھی انھی کی طرف سے پوچھے گئے۔
اس پر امیر متقی نے جواب دیا کہ جمعے کی پریس کانفرنس ’مختصر نوٹس پر منعقد کی گئی تھی اور مدعو صحافیوں کی ایک چھوٹی سی فہرست پیش کی گئی تھی۔۔۔ یہ ایک تکنیکی مسئلہ تھا۔ ہمارے ساتھیوں نے صحافیوں کی مخصوص فہرست کو دعوت نامے بھیجنے کا فیصلہ کیا تھا۔ اس کے علاوہ ہمارا کوئی اور ارادہ نہیں تھا۔‘
افغانستان میں خواتین کو تعلیم نہ دیے جانے پر سوال
پریس کانفرنس کے دوران متقی سے سوال کیا گیا کہ ’آپ دارالعلوم دیوبند گئے اور ایران، شام اور سعودی عرب میں خواتین اور لڑکیوں کو تعلیم حاصل کرنے سے نہیں روکا جاتا۔ انھیں سکول اور کالج جانے سے نہیں روکا جاتا۔ آپ افغانستان میں ایسا کیوں کر رہے ہیں، افغانستان کی خواتین کو تعلیم کا حق کب ملے گا؟‘
امیر خان متقی نے جواب دیا کہ ’اس میں کوئی شک نہیں کہ افغانستان کے علما، مدارس اور دیوبند کے تعلقات شاید دوسروں سے زیادہ ہیں۔‘
افغانستان میں خواتین کی تعلیم کے حوالے سے امیر خان متقی نے کہا کہ ’تعلیم کے لحاظ سے اس وقت ہمارے سکولوں اور دیگر تعلیمی اداروں میں ایک کروڑ طالبات زیر تعلیم ہیں جن میں سے 28 لاکھ خواتین اور لڑکیاں ہیں۔ یہ تعلیم دینی مدارس میں گریجویٹ سطح تک دستیاب ہے۔‘
انھوں نے کہا کہ ’کچھ علاقوں میں بعض پابندیاں ہیں۔ لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ ہم تعلیم کی مخالفت کرتے ہیں۔ ہم نے اسے (تعلیم) کو مذہبی طور پر 'حرام' قرار نہیں دیا ہے لیکن اسے اگلے احکامات تک ملتوی کر دیا گیا ہے۔‘
پاکستان کے ساتھ تعلقات پر سوال
پاکستان کے ساتھ تعلقات پر متقی نے کہا کہ طالبان حکومت پاکستان کے ساتھ اچھے تعلقات چاہتی ہے اور مذاکرات کے دروازے کھلے ہیں۔
انھوں نے یہ بھی کہا کہ اگر پاکستان اچھے تعلقات اور امن نہیں چاہتا تو افغانستان کے پاس دوسرے آپشنز ہیں۔
متقی نے کہا کہ ’پاکستانی عوام افغانستان کے ساتھ اچھے تعلقات چاہتے ہیں۔ پاکستانی عوام کو کوئی مسئلہ نہیں ہے۔ پاکستان میں کچھ مخصوص عناصر ہیں جو حالات کو خراب کرنے کی کوشش کر رہے ہیں اس لیے افغانستان اپنی سرحدوں اور اپنے لوگوں کی حفاظت کرے گا۔‘
’ہم نے گذشتہ رات آپریشن میں مقصد حاصل کر لیا ہے۔ ہمارے دوستوں قطر اور سعودی عرب نے کہا کہ فائر بندی کی جائے اور ہماری طرف سے فائر بندی ہو گئی۔ اب حالات قابو میں ہیں۔‘
انھوں نے کہا کہ افغانستان آزاد ہو چکا ہے اور وہ امن کے لیے کام کر رہے ہیں۔
انڈیا میں افغانستان کا سفارت خانہ کس کے کنٹرول میں ہے؟
متقی سے یہ بھی پوچھا گیا کہ انڈیا میں افغانستان کے سفارت خانے کو کون کنٹرول کرتا ہے۔ اس کے جواب میں انھوں نے کہا کہ ’نئی دہلی میں ہمارا سفارت خانہ، جہاں آپ اور میں اس وقت موجود ہیں، مکمل طور پر ہمارے کنٹرول میں ہے۔‘
’یہ سفارت خانہ افغانستان کے مشورے پر کام کر رہا ہے۔ یہاں کام کرنے والے ہمارے ساتھ ہیں۔ کوئی مسئلہ نہیں ہے۔‘
طالبان حکومت کے وزیر خارجہ نے کہا کہ افغانستان میں سابقہ حکومت کے ساتھ کام کرنے والے اپنی حکومت کے ساتھ ہی کام کرتے ہیں۔ ’افغانستان کے عوام متحد ہیں، سب مل کر کام کرتے ہیں۔‘
افغان طالبان کی نئی دہلی میں پریس کانفرنس کیسے متنازع کیوں تھی؟
انڈین سیاست دانوں اور صحافیوں نے حکومت کو تنقید کا نشانہ بنایا تھا کیونکہ جمعے کی پریس کانفرنس میں خواتین کو شریک نہیں کیا گیا تھا۔
طالبان حکومت کے ایک اہلکار نے بی بی سی کو بتایا تھا کہ خواتین کو مدعو ہی نہیں کیا گیا تھا۔ ان کا کہنا تھا کہ مناسب روابط نہ ہونے کے باعث خواتین صحافیوں کو شریک نہیں کیا گیا تھا۔
اپوزیشن لیڈر راہل گاندھی نے کہا تھا کہ تقریب کو آگے بڑھنے کی اجازت دے کر انڈیا کے وزیر اعظم نریندر مودی ’انڈیا کی ہر عورت سے کہہ رہے تھے کہ آپ کمزور ہیں۔‘
انڈین وزارت خارجہ کا کہنا تھا کہ افغان سفارتخانے کی پریس کانفرنس میں اس کا کوئی عمل دخل نہیں تھا۔
ایڈیٹرز گلڈ آف انڈیا نے ایک بیان میں اسے امتیازی سلوک قرار دیتے ہوئے کہا تھا کہ وزارت خارجہ نے تقریب منعقد کی یا نہیں اس کے باوجود ’یہ انتہائی پریشان کن ہے۔‘
کئی لوگوں نے اس معاملے پر تعجب ظاہر کیا۔ جیسے سیاست دان مہوا موئترا نے سوشل میڈیا پر سوال کیا کہ ’مرد صحافی اس کمرے میں کیوں موجود رہے؟‘
’(انڈین) حکومت نے طالبان کے وزیر کو خواتین صحافیوں کو پریس سے باہر کرنے کی اجازت دے کر ہر ایک انڈین عورت کی تضحیک کی ہے۔‘
افغان وزیر خارجہ امیر خان متقی کا انڈیا کا غیر معمولی دورہ، جسے پاکستان کے لیے ’دھچکا‘ قرار دیا جا رہا ہےشیوانگی سنگھ: انڈیا کو اپنی فائٹر پائلٹ کے بارے میں بار بار تردیدیں کیوں جاری کرنی پڑ رہی ہیں؟’راولپنڈی چکن تکہ‘: ایک متنازع مینیو کارڈ جس پر انڈیا میں بھی تنقید ہوئی’ڈکٹیٹ‘ کرنے کا تاثر، ماضی سے سبق سیکھنے کی دھمکی یا غیر حقیقی امیدیں: پاکستان اور افغان طالبان کے مابین تناؤ کی وجہ کیا ہے؟افغانستان میں طالبان متعدد مذہبی سکالرز کو 'گرفتار اور اغوا' کیوں کر رہے ہیں؟