’ڈکٹیٹ‘ کرنے کا تاثر، ماضی سے سبق سیکھنے کی دھمکی یا غیر حقیقی امیدیں: پاکستان اور افغان طالبان کے مابین تناؤ کی وجہ کیا ہے؟

بی بی سی اردو  |  Oct 12, 2025

AFP via Getty Images

پاکستان میں دہشت گردی کے بڑھتے واقعات کے سبب پاکستان اور افغانستان کے مابین الزام تراشی، سخت اور تلخ بیان بازی سے بڑھ کر سرحدی کشیدگی میں بدل رہی ہے۔

جمعے کی رات دونوں ممالک کے مابین سرحد ڈیورنڈ لائن پر افغان طالبان اور پاکستانی افواج کے مابین متعدد مقامات پر فائرنگ کا تبادلہ ہوا۔ اب سے کچھ دیر قبل افغانستان میں طالبان حکومت کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے دعویٰ کیا ہے کہ پاکستان کے افغانستان پر مختلف حملوں کے جواب میں کی گئی کارروائیوں میں پاکستان کے 58 سکیورٹی اہلکار ہلاک جبکہ 30 زخمی ہوئے ہیں۔

اتوار کو کابل میں نیوز کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے ذبیح اللہ مجاہد نے دعویٰ کیا کہ ’جوابی کارروائی‘ کے دوران پاکستان کی 20 چیک پوسٹوں پر قبضہ کر لیا گیا تھا، لیکن لڑائی ختم ہونے کے بعد یہ واپس کر دی گئیں۔

بی بی سی ذبیح اللہ مجاہد کے دعوؤں کی آزادانہ تصدیق کرنے سے قاصر ہے اور تاحال پاکستان کی جانب سے افغان طالبان کے ترجمان کے دعوؤں پر کوئی ردِعمل سامنے نہیں آیا۔

اس سے قبل افغانستان نے پاکستان پر اُس کی فضائی حدود کی خلاف ورزیوں کا الزام بھی عائد کیا تھا۔ پاکستان نے افغان طالبان کے دعوؤں کی تردید تا تصدیق نہیں کی تھی۔

پاکستان کے وزیرِ دفاع خواجہ آصف کا کہنا ہے کہ اگر افغانستان کی سرزمین پاکستان کے خلاف استعمال ہو گی تو پاکستان کارروائی کرنے کا حق رکھتا ہے جبکہ پاکستان کی فوج کے ترجمان کا کہنا ہے کہ افغانستان میں محفوظ ٹھکانے پاکستان میں دہشتگردی کے لیے استعمال ہو رہے ہیں۔

ادھر نئی دہلی میں افغان وزیرِ خارجہ امیر خان متقی نے کہا تھا کہ افغانیوں کا حوصلہ نہ آزمائیں اور انھیں زیادہ نہ چھیڑیں۔ انھوں نے کہا تھا کہ اگر ایسا کرنا ہے تو پہلے انگریز سے پوچھیں، سویت یونین سے پوچھیں، امریکہ سے، نیٹو سے پوچھیں، تاکہ وہ آپ کو سمجھائیں کہ افغانستان کے ساتھ یہ کھیل صحیح نہیں ہے۔

AFP via Getty Images

پاکستان اور افغانستان کے مابین تعلقات تاریخی لحاظ سے ہمیشہ ہی اتار چڑھاؤ کا شکار رہے ہیں لیکن حالیہ دنوں میں اسلام آباد اور کابل کے مابین کشیدگی کی نوعیت قدرے مختلف ہے کیونکہ اس بار کابل میں صدر اشرف غنی یا حامد کرزئی کی نہیں بلکہ افغان طالبان کی عبوری حکومت ہے۔

ماضی میں کابل کی حکومتیں پاکستان پر الزام عائد کرتی رہی ہیں کہ طالبان پاکستان سے افغانستان میں حملوں کی منصوبہ بندی کرتے ہیں لیکن اس بار پاکستان کا کہنا ہے کہ افغانستان میں موجود ٹی ٹی پی پاکستان پر حملے کر رہی ہے اور افغان طالبان اُن کے خلاف کارروائی نہیں کر رہے۔

تناؤ کے شکار تعلقات یا پھر بقول ایک سابق غیر ملکی سفیر کے ’سانپ سیڑھی‘ جیسے تعلقات میں ایک نیا موڑ اُس وقت آیا جب افغان طالبان کی عبوری حکومت کے وزیر خارجہ امیر خان متقی اپنے پہلے دورے پر نئی دہلی گئے، جس کے بعد انڈیا اور افغانستان کے مابین سفارتی تعلقات بحال ہو رہے ہیں۔

پاکستان کے لیے انڈیا کی افغانستان میں دوبارہ آمد نے وہاں کی سرزمین کے پاکستان کے خلاف استعمال ہونے کے خدشات اور تحفظات کو مزید بڑھا دیا ہے۔

افغانستان کا پاکستان پر فضائی حملوں کا الزام، پاکستانی فوج کے ترجمان کی تردید نہ تصدیق: ’نتائج کی ذمہ داری پاکستانی فوج پر ہو گی‘افغان وزیر خارجہ امیر خان متقی کا انڈیا کا غیر معمولی دورہ، جسے پاکستان کے لیے ’دھچکا‘ قرار دیا جا رہا ہےپاکستان اور چین کا اثر و رسوخ کم کرنے کی کوشش یا ’سکیورٹی گارنٹی‘: طالبان وزیر خارجہ کا پہلا دورہ انڈیا کے لیے کتنا اہم ہے؟امریکہ بگرام فوجی اڈہ کیوں حاصل کرنا چاہتا ہے اور اس پر چین کو تشویش کیوں ہے؟

پاکستان کے وزیر خواجہ محمد آصف کا کہنا ہے کہ انڈیا افغانستان کے ذریعے پاکستان سے بدلہ لینے کی کوشش کر رہا ہے اور اُن کے بقول افغانستان میں انڈیا کی سہولت کاری کی جارہی ہے۔

نجی ٹی وی چینل جیو نیوز سے گفتگو میں خواجہ آصف نے کہا کہ افغانستان کی جانب سے پاکستان میں دہشت گردی ایکسپورٹ کرنے کے سبب پہلے سے کشیدہ تعلقات مزید بگڑ رہے ہیں۔

افغانستان کے اُمور کے تجزیہ کار اور پالیسی سازی میں شریک ماہرین کا کہنا ہے کہ دونوں ممالک میں اعتماد کا شدید فقدان ہے۔ افغان طالبان پاکستان کی ’امیدوں‘ پر پوار نہیں اتر رہے ہیں اور مسلسل دباؤ کے سبب افغان طالبان نئی دہلی سے ہاتھ ملا رہے ہیں جو پاکستان کی ’شکست کے مترادف‘ ہے۔

مبصرین کا کہنا ہے دونوں ممالک کے مابین بڑھتی ہوئی عدم اعتمادی، انڈیا کے ساتھ تعلقات اور ٹی ٹی پی کے مسلسل پاکستانی فوج پر حملوں نے خطرناک صورتِ حال کو جنم دیا ہے اور ایسے میں طالبان سے قطع تعلق پاکستان کے مفاد میں نہیں ہے۔

مگر دونوں ممالک جو ماضی میں اپنے تعلقات کو ’تاریخی اور برادرانہ‘ قرار دیتے تھے ایسا کیا ہوا کہپاکستان افغانستان کے لیے ’دشمن یا احسان فراموش‘ جیسے الفاظ استعمال کر رہا ہے؟

کیا پاکستان نے افغان طالبان سے غیر حقیقیی امیدیں وابستہ کیں؟

امریکہ کے افغانستان سے انخلا ممکن بنانے کے لیے امن معاہدے میں پاکستان نے طالبان اور امریکہ کے مابین مذاکرات میں اہم کردار ادا کیا۔

کابل میں صدر اشرف غنی کی حکومت کے خاتمے اور افغان طالبان کے اقتدار میں آنے کے بعد پاکستان یہ سمجھتا تھا کہ اب کابل میں بننے والی حکومت پاکستان کے خلاف نہیں کیونکہ عمومی خیال یہی تھا کہ افغان طالبان کسی حد تک پاکستان کے زیر اثر ہیں۔

مبصرین کا کہنا ہے کہ پاکستان سمجھتا تھا کہ نوے کی دہائی کی طرح پاکستان اس بار بھی طالبان قیادت پر اپنا اثرروسوخ برقرار رکھے ہوئے ہے لیکن طالبان پاکستان کی پراکسی ہونے کے تاثر کو ختم کرنا چاہتے ہیں۔

کابل میں حکومت کی تبدیلی کے وقت اُس وقت افغانستان میں پاکستان کے سفیر مسعود خان کا کہنا ہے کہ ’افغانستان میں طالبان کے آنے کے بعد پاکستان کو امید تھی کہ وہاں موجود ٹی ٹی پی اور بے ایل اے کو وہ سپورٹ نہیں ملے گی جو پہلے ملتی تھی اور پاکستان کو لگتا تھا کہ سرحد پر حالات بہتر ہو جائیں گے لیکن ایسا نہیں ہوا۔‘

بی بی سی سے بات کرتے ہوئے سابق سفیر مسعود خان نے بتایا کہ پاکستان میں دہشت گردی بڑھ گئی ہے اور افغانستان کہتا ہے کہ وہاں کوئی محفوظ ٹھکانے نہیں ہیں۔ اُن کے بقول یہی وہ پوائنٹ ہے جس نے اختلافات کو بڑھاوا دیا کیونکہ اس معاملے پر دونوں کی پوزیشن بدل گئی ہے۔

دوسری جانب، پاکستان کی فوج کے ترجمان کا کہنا ہے کہ افغانستان میں محفوظ ٹھکانوں کو پاکستان کے خلاف دہشتگردی کے لیے استعمال کیا جا رہا ہے۔ اس کے شواہد موجود ہیں۔ پاکستان کے عوام کے جان و مال کی حفاظت کے لیے جو ضروری اقدامات کیے جانے چاہییں، وہ کیے جائیں گے اور کیے جاتے رہیں گے۔‘

اس سے قبل انڈیا میں ایک پریس کانفرنس کے دوران افغان طالبان کے وزیر خارجہ امیر متقی نے پاکستان کا نام لیے بغیر کہا تھا کہ ’جس ملک کے جو مسئلے ہیں وہ خود حل کرے۔‘

جس کے جواب میں پاکستان کے دفتر خارجہ نے اُن کے بیان کی تردید کرتے ہوئے کہا کہ دہشت گردی پاکستان کا اندرونی مسئلہ نہیں ہے بلکہ پاکستان نے کئی مرتبہ افغانستان کو دہشت گردوں کی افغانستان میں سرگرمیوں کے بارے میں تفصیلات فراہم کی ہیں۔‘

افغانستان اور پاکستان کے تعلقات پر گہری نظر رکھنے والے سنیئر تجزیہ کار اور صحافی سمیع یوسفزئی کا کہنا ہے کہ ’افغان طالبان دیگر حکومتوں کے برعکس روایتی حکومت نہیں بلکہ وہ ایک ایسے گروہ کے طور پر اقتدار میں آئے ہیں جن کے تاریخی طور پر ٹی ٹی پی سے تعلقات وابستہ رہے ہیں۔‘

انھوں نے کہا کہ ’اگر پاکستان یہ سمجھتا ہے کہ افغان طالبان ٹی ٹی پی کو افغانستان سے ختم یا بے دخل کر دیں گے، تو یہ ایک ناقابلِ عمل خیال ہے۔‘

EPA

پاکستان کی جانب سے افغانستان کے ساتھ سخت بیان بازی اور تناؤ جیسی صورتحال میں کیا دہشت گردی میں کمی کے اہداف حاصل ہو سکتے ہیں؟

اس بارے میں پاکستان کے سابق سفیر مسعود خان کا کہنا ہے کہ اس گھمبیر صورتحال میں پاکستان کو جامع حکمت عملی اپناتے ہوئے خود بھی عملی اقدامات کرنے ہوں گے اور افغانستان کو بات چیت کے ذریعے یہ سمجھانا ہو گا۔

سمیع یوسف زئی نے کہا کہ پاکستان کو چاہیے کہ وہ اپنے ملک میں موجود ٹی ٹی پی کے نیٹ ورک کے خلاف سخت اور فیصلہ کن کارروائی کرے اور ساتھ ہی کابل پر سفارتی دباؤ برقرار رکھے۔

انھوں نے کہا کہ ماضی میں پاکستان کے اتحادی یا پراکسی سمجھے جانے والے صرف افغان طالبان پر انحصار کرنا مسئلے کا حل نہیں ہے۔

پاکستان اور افغانستان کی تلخی میں انڈیا کی انٹری

تجزیہ کاروں کے خیال میں پاکستان کے لیے افغانستان میں انڈیا کی موجودگی ہمیشہ سے ہی بہت حساس معاملہ رہا ہے ایسے میں افغان طالبان اور پاکستان کے خراب تعلقات نے انڈیا کو ایک بار پھر افغانستان میں جانے کا موقع دیا ہے۔

پاکستان کے وزیر دفاع خواجہ آصف نے بھی کہا ہے کہ انڈیا افغانستان جا کر پاکستان سے اپنی شکست کا بدلہ لینا چاہتا ہے۔

نجی ٹی وی چینل جیو نیوز سے گفتگو میں خواجہ آصف نے کہا ہے کہ انڈیا کے بیانات سے ظاہر ہو رہا ہے کہ وہ کوئی ایڈونچر کرے گا۔ انھوں نے دعویٰ کیا کہ افغانستان کی انڈیا میں سہولت کاری جاری ہے۔

پاکستان کے سابق سفیر مسعود خان کا کہنا ہے کہ انڈیا اور افغانستان کے دوطرفہ تعلقات پر پاکستان کو کوئی اعتراض نہیں ہونا چاہیے لیکن ماضی میں انڈیا نے افغانستان میں پاکستان مخالف گروہوں کو سپورٹ کیا ہے۔

انھوں نے کہا کہ اب پھر انڈیا کی جانب سے دوبارہ ایسے اشارہ دیے جا رہے ہیں اس لیے پاکستان کے لیے ضروری ہے کہ وہ افغان طالبان کے ساتھ روابط رکھے۔

واضح رہے کہ انڈیا نے افغانستان میں پاکستان مخالف عناصر کی حمایت کی ہمیشہ تردید کی ہے۔

مبصرین کا کہنا ہے کہ انڈیا نے افغانستان میں کافی سرمایہ کاری کی ہے اور طالبان بھی اپنی تنہائی دور کرنے کے لیے علاقائی ممالک سے تعلقات استور کر رہے ہیں۔ ایسے میں طالبان کی انڈیا سے بڑھتی ہوئی قربت اسلام آباد کے لیے ذہنی دباؤ کا باعث بن رہی ہے۔

تجزیہ کار سمیع یوسف زئی کا کہنا ہے کہ ’جو طالبان کبھی پاکستان کے اتحادی سمجھے جاتے تھے، آج وہ نئی دہلی سے روابط بڑھا رہے ہیں اور وزیرِ خارجہ کا انڈیا کا دورہ دراصل افغانستان میں پاکستان کی ایک علامتی شکست کے مترادف ہے۔‘

اُن کے بقول انڈیا نے افغانستان میں طالبان پر کوئی سرمایہ کاری کیے بغیر اپنا مقصد حاصل کر لیا، جبکہ پاکستان کے لیے یہ ایک بڑا دھچکا ہے۔

انھوں نے کہا کہ انڈیا کی جانب سے طالبان حکومت کی عملی مدد کی گنجائش محدود ہے، کیونکہ کابل میں سخت جہادی نظریات پر مبنی نظام موجود ہے۔

Getty Imagesانڈیا اور افغانستان دونوں سرحدوں پر کشیدگی میں پاکستان کے پاس آپشنز کیا ہیں؟

مبصرین اور تـجزیہ کاروں کا ماننا ہے کہ موجودہ حالات میں پاکستان کے پاس زیادہ آپشنز موجود نہیں اور اُن کے بقول افغانستان کے اندر حملے کرنا یا سرحد پر جھڑپیں اس کا حل نہیں ہیں۔

مسعود خان کا کہنا ہے کہ ماضی میں انڈیا کی افغانستان میں موجودگی مختلف وجوہات کی بنا پر تشویش کا باعث رہی ہے اور اب تمام تر تناؤ کے باوجود اسلام آباد اور کابل کو آپس میں بیٹھ کر معاملات سلجھانے ہی پڑیں گے۔

انھوں نے کہا کہ سفارتی گنجائش پیدا کر کے بات چیت شروع کریں اور اس کے لیے چین سے بھی مدد لی جا سکتی ہے کیونکہ چین کے پاکستان اور افغانستان دونوں کے ساتھ اچھے مراسم ہے۔

یاد رہے کہ پاکستان، افغانستان اور چین کے مابین بات چیت اور تعلقات کے فروغ کے لیے ایک سہ فریقی فورم موجود ہے۔

نئی دہلی کے دورے پر آئے افغان عبوری حکومت کے وزیر امیر خان متقی نے کہا تھا کہ ایسے (حملے کر کے)مسئلے حل نہیں ہو سکتے ہیں اور افغانستان کی تاریخ گواہ ہے کہ زور زبردستی سے مسئلے حل نہیں ہوئے۔ انھوں نے کہا تھا کہ بات چیت کا اور تعاون کا دروزہ کھلا ہے۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ حالات کو خراب نہیں کرنا چاہیے اور افغانستان انڈیا کے ساتھ ساتھ پاکستان سے بھی اچھے تعلقات چاہتا ہے۔

پاکستان کی حکومت کا کہنا ہے کہ سرحد پار ہونے والی دہشت گردی ختم ہونی چاہیے۔

مسعود خان کے مطابق ’دونوں ممالک کے تحفظات ضرور ہیں لیکن مفاد ایک دوسرے سے جڑے ہوئے ہیں انھی لیوریجز کو استعمال کرتے ہوئے کم از کم دہشت گردی روکنے پر اتفاق رائے پیدا کیا جا سکتا ہے۔‘

تـجزیہ کار سمیع یوسف زئی کا کہنا ہے کہ پاکستان کے پاس محدود جوابی آپشنز ہیں۔ کیا پاکستان کھلے عام طالبان مخالف عناصر کی حمایت کرے گا؟ لیکن یہ نہ تو پاکستان کے لیے اور نہ ہی طالبان مخالف گروپوں کے لیے بہت پرکشش آفر ہے۔

انھوں نے کہا کہ پاکستان نے افغانستان میں ہمیشہ دوست اور حلیف تلاش کرکے اپنی بالادستی برقرار رکھی ہے اور یہ پالیسی ابھی بھی چل رہی ہے جسے ختم ہونا چاہیے۔

سابق سفیر مسعود خان کا کہنا ہے کہ ’افغانستان میں یہ تاثر پایا جاتا ہے پاکستان اسے ’ڈکٹیٹ‘ کرنے کی کوشش کر رہا ہے، ہمیں یہ تاثر رد کرنا ہے۔ وہ اپنی پالیسی بنائیں لیکن ہماری ترجیح صرف یہی ہونا چاہیے کہ پاکستان کے اندر دہشت گردی ختم ہو۔‘

انھوں نے کہا کہ پاکستان افغان پالیسی کی بات تو کرتا ہے لیکن اس کے لیے جو ساز گار ماحول درکار ہے اُس پر ہم کام نہیں کرتے، جیسے سرحد پر آمدورفت، ویزہ، افغان مہاجرین کے مسائل وغیرہ۔

پاکستان کی افغانستان کے ساتھ 2600 کلومیٹر طویل سرحد ہے اور ہزاروں لوگ یومیہ بنیادوں پر سرحد سے آر پار جاتے ہیں۔ دونوں ممالک کی حکومتوں کے مابین تعلقات جیسے بھی ہوں لیکن عوامی سطح پر سرحد کے آر پار قبائل آباد ہیں جن کی آپس میں رشتے داریاں اور تعلقات ہیں۔

مسعود خان کا کہنا ہے کہ افغانستان کے جو جائز مطالبات ہیں انھیں پورا کیا جائے تاکہ افغان عوام پاکستان سے ناراض ہونے کے بجائے اُس پر اعتماد کرے اور اگر ایسا ہو گیا تو کابل میں چاہے کوئی بھی حکومت ہو، اُسے مجبوراًافغانستان سے پاکستان میں ہونے والی دہشت گردی کم کرنا ہو گی۔‘

انھوں نے کہا کہ بیان بازی کے بجائے تعلقات اور تعاون سے ہی دہشت گردی کا خاتمہ ممکن ہے۔

’پاکستانی سکیورٹی ادارے اپنی کمزوری چھپانے کے لیے افغانستان پر الزامات عائد کرتے ہیں‘: افغان وزیرِ دفاع کا اسلام آباد کو تعاون بڑھانے کا مشورہجنت، حوریں اور شدت پسندی: ایک افغان نوجوان کی کہانی جو ’فدائی‘ بننے کے قریب پہنچ گیا تھاافغان طالبان کا پاکستان پر ڈرون حملوں کا الزام: افغانستان نے کابل میں پاکستانی سفیر کو ڈیمارش جاری کیا، وزیر خارجہ کی تصدیقبگرام ایئر بیس کی سیٹلائٹ تصاویر کا موازنہ: افغانستان میں دو سپر پاورز کا فوجی اڈہ جس پر ٹرمپ کے مطابق اب ’چین قابض ہے‘روس کا افغانستان میں طالبان حکومت کو تسلیم کرنے کا فیصلہ پاکستان سمیت خطے کے لیے کیا معنی رکھتا ہے؟’سٹریٹجک ریزرو‘ یا مستقبل کی منصوبہ بندی: چین معاہدے کے باوجود افغانستان سے ’50 ارب ڈالر‘ کا تانبہ کیوں نہیں نکال رہا؟
مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More