یو اے ای ویزہ قوانین میں تبدیلیاں، کون کون سے نئے ویزہ متعارف ہوئے؟

ہماری ویب  |  Sep 30, 2025

متحدہ عرب امارات نے ویزہ قوانین میں بڑی تبدیلیاں کرتے ہوئے متعدد نئی ویزہ کیٹیگریز متعارف کرا دی ہیں۔ اس اعلان کے مطابق مختلف شعبوں سے تعلق رکھنے والے ماہرین، سیاح اور کاروباری افراد اب نئی سہولتوں سے فائدہ اٹھا سکیں گے۔

فیڈرل اتھارٹی فار آئیڈنٹیٹی، سٹیزن شپ، کسٹمز اینڈ پورٹ سیکیورٹی کی جانب سے جاری اعلامیے کے مطابق یہ اقدام یو اے ای کی اوپن پالیسی اور عالمی ٹیلنٹ، انوویٹرز، انٹرپرینیورز اور سیاحوں کو متوجہ کرنے کی حکمت عملی کا حصہ ہے۔

آرٹیفیشل انٹیلجنس ویزہ اے آئی ماہرین کے لیے خصوصی ویزہ متعارف کرایا گیا جو سنگل یا ملٹی پل انٹری کی بنیاد پر جاری ہوگا بشرطیکہ درخواست گزار کسی مستند ادارے سے تصدیقی خط فراہم کرے۔

اس کے علاوہ ایونٹ ویزہ کانفرنسز، نمائشوں، فیسٹیولز، کھیلوں اور دیگر سرگرمیوں میں شرکت کے لیے جاری ہوگا جس کے لیے میزبان ادارے کی تصدیق لازمی ہوگی۔

کروز شپ یا لگژری یاٹ کے ذریعے یو اے ای آنے والے سیاحوں کو ملٹی پل انٹری ویزہ فراہم کیا جائے گا۔ہیومینیٹیرین ریزیڈنسی ویزہ جنگ یا قدرتی آفات سے متاثرہ ممالک کے افراد دیا جائے گا اس کے تحت ایک سالہ رہائشی پرمٹ دیا جائے گا جس کے لیے اسپانسر کی ضرورت نہیں ہوگی۔

بیوائیں اور طلاق ملنے والی خواتین بھی اب بغیر اسپانسر رہائش حاصل کر سکیں گی،اماراتی شوہر کی بیوہ یا مطلقہ خواتین چھ ماہ کے اندر، جبکہ غیر ملکی شوہر کی بیوہ یا مطلقہ خواتین بچوں کی کفالت کے ساتھ درخواست دے سکیں گی۔

رشتہ داروں اور دوستوں کے وزٹ ویزہ کے لیے اسپانسر کی کم از کم آمدنی مقرر کر دی گئی ہے۔قریبی رشتہ دار کے لیے اسپانسر کی کم از کم آمدنی 4 ہزار درہم اور دوسرے یا تیسرے درجے کے رشتہ دار کے لیے 8 ہزار درہم ماہانہ آمدنی ضروری ہوگی جبکہ دوست کو اسپانسر کرنے کے لیے کم از کم 15 ہزار درہم ماہانہ آمدنی لازمی قرار دی گئی ہے۔

بزنس ایکسپلوریشن ویزہ کے ذریعے کاروباری افراد مالی استحکام یا پیشہ ورانہ سرگرمی کا ثبوت فراہم کر کے بزنس ویزہ حاصل کر سکیں گے۔

اس کے علاوہ غیر ملکی ڈرائیورز کے ویزے صرف لائسنس یافتہ ٹرانسپورٹ یا لاجسٹک کمپنیوں کی اسپانسر شپ سے جاری ہوں گے جس کے لیے فنانشل گارنٹی اور ہیلتھ انشورنس لازمی ہوگی۔

حکام کے مطابق یہ تبدیلیاں یو اے ای کو عالمی سطح پر سرمایہ کاروں، ماہرین اور سیاحوں کے لیے مزید پرکشش بنانے کی پالیسی کا حصہ ہیں۔

مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More