گذشتہ ماہ برطانیہ میں ایک انڈین صنعتکار کی اچانک موت کے بعد انڈیا میں آٹو پارٹس بنانے والی ایک معروف اور بڑی کمپنی میں وراثت سے متعلق شدید تنازع پیدا ہو گیا ہے۔
سنجے کپور نامی یہ صنعتکار 12 جون کو برطانیہ کے علاقے سرے میں پولو کھیلتے ہوئے دل کا دورہ پڑنے سے وفات پا گئے تھے۔ اُن کی عمر 53 برس تھی اور وہ آٹو کمپنی ’سونا کوم سٹار‘ کے وارث تھے۔ یہ 3.6 ارب ڈالر مالیت کی بڑی کاروباری سلطنت انھیں اپنے والد سے وراثت میں ملی تھی۔
’سونا کوم سٹار‘ انڈیا کی سب سے بڑی آٹو پارٹس بنانے والی کمپنی ہے اور اس کے انڈیا سمیت چین، میکسیکو اور امریکہ میں کل 10 کارخانے ہیں۔
پولو کھیلنے کے شوقین سنجے کپور دہلی کے ایلیٹ سماجی حلقوں میں اٹھتے بیٹھتے تھے اور کہا جاتا ہے کہ ان کی برطانوی شہزادے پرنس ولیم سے بھی دوستی تھی۔
انھوں نے تین شادیاں کیں۔ پہلی ڈیزائنر نندیتا مہتانی سے، پھر نوّے کی دہائی میں دھوم مچانے والی بالی وڈ اداکارہ کرشمہ کپور سے اور پھر سنہ 2017 میں ماڈل اور بزنس وومن پریا سچدیو سے۔
مگر اُن کی موت کے چند ہفتے بعد ہی خاندان میں اُن کی وراثت کا معاملہ میڈیا کی توجہ کا مرکز بن گیا۔
سنجے کپور کی والدہ کا دعویٰGetty Imagesسنجے کپور نے دوسری شادی بالی وڈ اداکارہ کرشمہ کپور سے کی تھی لیکن بعد میں دونوں میں علیحدگی ہو گئی
وراثت سے متعلق پیدا ہونے والے اس تنازع کا مرکزی کردار سنجے کپور کی والدہ رانی کپور ہیں۔ ماضی میں رانی کپور اس کمپنی کی چیئرپرسن رہ چکی ہیں۔
اسی سلسلے میں 24 جولائی کو رانی کپور نے ’سونا کوم سٹار‘ کے بورڈ آف ڈائریکٹرز کو خط لکھا، جس میں انھوں نے اپنے بیٹے کی موت کے بعد کمپنی کی طرف سے کی گئی تقرریوں پر سوال اٹھائے۔
اس خط میں انھوں نے دعویٰ کیا کہ سنجے کی موت ’انتہائی مشکوک اور غیر واضح حالات‘ میں ہوئی۔
دوسری جانب برطانیہ میں حکام نے بی بی سی کو بتایا کہ سنجے کے پوسٹ مارٹم کے بعد یہ نتیجہ نکلا کہ اُن کی موت قدرتی تھی اور سلسلے میں ہونے والی ’تحقیقات بند کر دی گئی ہیں۔‘
رانی کپور کا کہنا ہے کہ بیٹے کی موت کے صدمے اور ذہنی دباؤ کے بیچ انھیں کمپنی سے متعلق اہم کاغذات پر دستخط کرنے پر مجبور کیا گیا۔
انھوں نے لکھا: ’یہ افسوسناک ہے کہ جب خاندان والے ابھی سوگ میں ہیں، کچھ لوگوں نے اس موقع کو خاندان کی وراثت پر قبضہ کرنے کا ذریعہ بنا لیا ہے۔‘
انھوں نے کمپنی کے بورڈ سے درخواست کی کہ 25 جولائی کو ہونے والی سالانہ جنرل میٹنگ (اے جی ایم) کو مؤخر کیا جائے تاکہ خاندان کے نمائندے کو بطور ڈائریکٹر مقرر کرنے پر غور کیا جا سکے۔
انڈیا کے سب سے امیر شخص کا بھائی کیسے دیوالیہ ہوا؟ایلون مسک بمقابلہ مکیش امبانی: انڈیا میں سیٹلائٹ انٹرنیٹ فراہم کرنے کے لیے ارب پتی کاروباری افراد کے درمیان جاری دلچسپ جنگایرانی تیل، پابندیاں اور گوتم اڈانی: ’مودی سے قریبی تعلقات رکھنے والے‘ انڈین ارب پتی تاجر کے خلاف امریکہ میں تحقیقات کیوں ہو رہی ہیں؟ارب پتی ریئل اسٹیٹ ٹائیکون جنھیں ٹرمپ نے غزہ اور یوکرین جنگ ختم کرانے کی ذمہ داری دی
رانی کپور کے ’کچھ لوگوں‘ سے مراد کون سے لوگ ہیں؟ یہ واضح نہیں ہے۔ لیکن کمپنی نے سنجے کی وفات کے اگلے ہی دن اہم میٹنگ منعقد کی اور سنجے کی اہلیہ پریا کو کمپنی کے بورڈ کا نان ایگزیکٹیو ڈائریکٹر بنا دیا۔
اپنے خط میں رانی کپور نے دعویٰ کیا کہ اُن کے مرحوم شوہر نے سنہ 2015 میں جو وصیت چھوڑی تھی، اس کے مطابق وہ (رانی کپور) اس جائیداد کی واحد وارث ہیں جس میں سونا گروپ (بشمول سونا کوم سٹار) میں اکثریتی حصہ داری شامل ہے۔
کمپنی کے بورڈ کا جواب
کمپنی نے رانی کپور کے دعووں کو سختی سے مسترد کرتے ہوئے کہا کہ وہ سنہ 2019 سے کمپنی میں کسی بھی براہِ راست یا بالواسطہ کردار میں نہیں رہی ہیں۔
بورڈ نے کہا کہ وہ اُن کی جانب سے جاری کردہ نوٹس کے پابند نہیں اور نہ ہی اس کا کوئی قانونی جواز نہیں۔ کمپنی نے رانی کپور کو ایک قانونی نوٹس بھی بھیجا ہے اور ان پر زور دیا ہے کہ وہ ’جھوٹے، بدنیتی پر مبنی اور نقصان دہ‘ بیانات دینا بند کریں۔
بی بی سی نے سونا کوم سٹار، رانی کپور اور پریا سچدیو سے رابطہ کیا ہے۔
سونا کوم سٹار انڈین سٹاک مارکیٹس میں سونا بی ایل ڈبلیو کے نام سے درج ہے اور اس کے 71.98 فیصد حصص بینکوں، میوچل فنڈز اور مالیاتی اداروں کے پاس ہیں، جبکہ باقی 28.02 فیصد اوریئس انویسٹمنٹس پرائیویٹ لمیٹڈ کے تحت پروموٹرز کے پاس ہیں۔
کمپنی کے ریکارڈ کے مطابق، سنجے کپور آر کے فیملی ٹرسٹ سے مستفید ہونے والے واحد شخص کے طور پر درج ہیں اور وہ اوریئس انویسٹمنٹس کے ذریعے کمپنی میں پروموٹرز کا حصہ رکھتے ہیں۔
انڈین سپریم کورٹ کے کارپوریٹ امور کے وکیل تُشار کمار کے مطابق ’اس وقت رانی کپور رجسٹرڈ شیئر ہولڈر نہیں ہیں، اس لیے ان کے پاس ووٹنگ رائٹس نہیں ہیں۔ البتہ آر کے فیملی ٹرسٹ اور اوریئس انویسٹمنٹس کا معاملہ ہے، اور جب تک اس کا معاہدہ عام نہیں ہوتا ہم نہیں جان سکتے کہ ان کا وہاں کوئی براہِ راست حصہ ہے یا نہیں۔‘
Getty Imagesمکیش امبانی اور انیل امبانی کے درمیان ہونے والا وراثت کا جھگڑا شہ سرخیوں میں رہا تھاایسے جھگڑے پہلے بھی سامنے آئے
کپور خاندان کا یہ جھگڑا کوئی انوکھا نہیں۔
پی ڈبلیو سی کے ایک سروے کے مطابق انڈیا میں تقریباً 90 فیصد لسٹڈ کمپنیاں خاندانی کنٹرول میں ہیں، مگر محض 63 فیصد کے پاس باضابطہ جانشینی کا منصوبہ موجود ہے۔
انڈین سکول آف بزنس کے کویل رام چندرن کہتے ہیں کہ زیادہ تر انڈین خاندانی کاروبار میں ’اہم معاملات میں غیر یقینی‘ کی صورت حال نظر آتی ہے، یعنی کہ ’کس کے پاس کتنا حصہ ہے، اور کب کس کو وراثت ملے گی۔‘
ماہرین کے مطابق، میرٹوکریسی کے بغیر خاندانی مداخلت اور باضابطہ معاہدوں کی غیر موجودگی معاملات کو مزید پیچیدہ بناتی ہے۔
کاروباری مشیر کیتن دلال کا کہنا ہے: ’سربراہ کی وفات (یا اس سے پہلے) ملکیت اور انتظامیہ دونوں کے درمیان تنازعات سامنے آتے رہے ہیں اور معاملے کے خوش اسلوبی سے حل ہونے سے قبل ان کے درمیان بہت زیادہ حالات بگڑ چکے ہوتے ہیں۔‘
انڈیا کے کارپوریٹ سیکٹر میں کئی تلخ جانشینی کی لڑائیاں سرخیوں میں رہ چکی ہیں۔ ان میں مکیش امبانی اور ان کے بھائی انیل امبانی کے درمیان ریلائنس ایمپائر پر جھگڑا، ریمنڈ گروپ میں خاندانی تنازع، یا ممبئی میں ٹرمپ ٹاور بنانے والے لوڈھا بھائیوں کے جھگڑے شامل ہیں۔
ایسے تنازعات کا نقصان اکثر شیئر ہولڈرز کو اٹھانا پڑتا ہے، کیونکہ اس سے کمپنی کی ساکھ اور شیئر کی قیمت دونوں متاثر ہوتی ہیں۔
لیکن اب کچھ خاندانوں نے اس سے سبق سیکھا ہے، جیسا کہ بجاج گروپ نے عدالت کی مداخلت کے بعد جانشینی کا منصوبہ تیار کیا اور ذمہ داریاں بانٹ دیں، یا گودریج گروپ جس نے خوش اسلوبی سے کاروبار کی تقسیم کا اعلان کیا۔
ماہرین کا مشورہ ہے کہ تنازعات سے بچنے کے لیے جانشینی کی منصوبہ بندی، مضبوط بورڈ، وقت پر نئی نسل کو قیادت دینا اور سربراہ کی جانب سے عملی تربیت ضروری ہے۔
انڈیا کے سب سے امیر شخص کا بھائی کیسے دیوالیہ ہوا؟’وزنجام‘: 180 ارب روپے کی لاگت سے تیار ہونے والی گہرے پانی کی بندرگاہ انڈیا کے لیے اتنی خاص کیوں ہے؟اربوں روپے کے گھپلے میں مطلوب آئی پی ایل کے بانی للت مودی کی غیر ملکی شہریت منسوخنوئل ٹاٹا: 100 ارب ڈالر سے زیادہ آمدن والی کمپنی کے نئے سربراہ جو رتن ٹاٹا کے سوتیلے بھائی ہیںرتن ٹاٹا: نمائش سے دور سادہ زندگی گزارنے والے انڈین بزنس مین جنھوں نے اپنے کاروبار کو چھ براعظموں کے 100 سے زیادہ ممالک تک پھیلایاشاپور جی سکلت: انڈیا کے امیر خاندان میں پیدا ہونے والے سیاستدان، جنھوں نے اپنے نام کے ساتھ ’ٹاٹا‘ استعمال نہ کیا