BBC
نیپال کے دارالحکومت کھٹمنڈو کی رہائشی خاتون کونسانگ کبھی کبھار اپنی 17 سالہ بہن ڈولما کے فون اور سوشل میڈیا اکاؤنٹس کو چیک کرتی ہیں تاکہ انھیں پتا رہے کہ اُن کی چھوٹی بہن انٹرنیٹ کا استعمال کرتے ہوئے کیا دیکھ رہی ہیں۔
کونسانگ کی اپنی عمر 21 برس ہے۔ گذشتہ دنوں انھوں نے اپنی چھوٹی بہن کے سنیپ چیٹ اکاؤنٹ پر کی جانے والی ایک پوسٹ اور انسٹاگرام اکاؤنٹ پر بہت سے ایسے پیغامات دیکھے جس نے انھیں چونکا دیا۔
بی بی سی سے گفتگو میں کونسانگ نے بتایا کہ اپنی بہن کے سنیپ چیٹ پر انھوں نے ایک ہاتھ دیکھا جس پر ڈرپ لگی ہوئی تھی۔۔۔ یہ تصویر کچھ دیر تک دکھائی دی۔۔۔ مجھے تجسس ہوا اور میں نے مزید جاننے کی کوشش کی۔
اور اس کے بعد کونسانگ کو جو کچھ پتہ چلا، اس نے انھیں ہلا کر رکھ دیا۔
’میں نے اپنی بہن اور اس کی دوست جیسمین کی ایک اور لڑکی کے ساتھ چیٹ دیکھی۔۔۔ وہ بیضوں (انڈے یا ایگز) کو عطیہ کرنے اور کلینکس پر جانے جیسے معاملات پر گفتگو کر رہی تھیں۔‘
کونسانگ نے مزید بتایا کہ اُن کی بہن جس تیسری لڑکی سے گفتگو کر رہی تھیں وہ ایک ایجنٹ تھی۔
انٹرنیٹ پر مزید تحقیق کرنے کے بعد کونسانگ کو معلوم ہوا کہ اُن کی بہن اور اس کی دوست جسمین دراصل کھٹمنڈو کے آئی وی ایف کلینکس کے جال میں پھنسی ہوئی ہیں، جو کہ بروکر یعنی ایجنٹس کے ذریعے نوجوان لڑکیوں کو پیسوں کے عوض اپنے بیضے بیچنے کے لیے آمادہ کرتے ہیں۔
یاد رہے کہ ایسے بے اولاد جوڑے جو آئی وی ایف کے ذریعے بچے پیدا کرنا چاہتے ہیں، اُن میں سے بہت سے عطیہ شدہ بیضوں اور سپرمز پر انحصار کرتے ہیں۔
John Elk III via Getty Imagesنیپال میں بہت سے رجسٹرڈ اور غیر رجسٹرڈ آئی وی ایف کلینکس ہیں
نوربو کی عمر 39 سال ہے اور وہ ڈولما کی دوست جیسمین کے والد ہیں۔ ڈولما کو بھی پیسوں کے عوض اپنے بیضے فروخت کرنے کا لالچ دیا گیا تھا۔
اس معاملے میں مبینہ طور پر ایجنٹ کا کردار ادا کرنے والی لڑکی سےپوچھ گچھ کرنے کے بعد، دونوں لڑکیوں (ڈولما اور جیسمین) کے اہلخانہ نے اس معاملے کی اطلاع پولیس کو دی۔
ڈولما اور جیسمین کی عمریں 17 برس ہیں لیکن وہ مبینہ ایجنٹ لڑکی، جو انھیں کلینک تک لے کر گئی، کا کہنا تھا کہ اُن کی عمریں 22 برس ہیں۔ مبینہ طور پر اس پورے معاملے میں دونوں لڑکیوں کے فرضی نام استعمال کیے گئے۔
جسمین کے والد نوبرو کہتے ہیں کہ جب وہ آئی وی ایف کلینک گئے تو وہاں موجود ڈاکٹر نے انھیں کہا کہ ’ایسا کوئی قانونی جواز موجود نہیں جس کے تحت ہم اُن (لڑکیوں) سے سوال کر سکیں۔‘
نوبرو کہتے ہیں کہ اس کے بعد ہم نے پولیس سے رابطہ کیا۔
’یہ پولیس کے لیے اپنی نوعیت کا نیا کیس تھا۔ وہ بھی حیران تھے۔ ہمیں نہیں معلوم کہ ہمیں کب تک انصاف کے حصول کے لیے انتظار کرنا پڑے گا۔‘
کم عمر متاثرین اور جھوٹا ریکارڈ
کچھ عرصہ قبل جب نوجوان لڑکیوں کے بیضے پیسوں کے عوض فروخت کرنے کا معاملہ نیپال کے مقامی میڈیا کے سامنے آیا تو اس پر خوب ہنگامہ ہوا اور عوام کی جانب سے یہ مطالبہ کیا گیا کہ فوری طور پر خرید و فروخت کی اس صنعت کے قواعد و ضوابط ترتیب دیے جائیں۔
اس صورتحال نے نیپال میں قائم 50 سے زیادہ فرٹیلیٹی کلینکس سے متعلق موجود قوانین میں خامیوں اور ان کی نگرانی میں موجود نقائص کا پردہ چاک کیا ہے۔ ان فرٹیلیٹی کلینکس میں سے بہت سے نیپال کی وزارت صحت سے منظور شدہ ہیں اور کچھ اس کے منتظر ہیں۔
حکام نے بی بی سی کو بتایا کہ رجسٹرڈ کلینکس کے علاوہ بہت سے غیر لائسنس یافتہ کلینکس بھی غیرقانونی طور پر کام کر رہے ہیں۔
نیپال کے وزیر صحت نے بی بی سی کو بتایا کہ حکومت نے اس معاملے کو سنجیدگی سے لیا ہے اور اس بات کو یقینی بنانے کے لیے اقدامات کیے جائیں گے کہ فرٹیلٹی سے متعلق علاج میں قانونی اور اخلاقی معیارات کو یقینی بنایا جائے۔
جولائی کے وسط میں نیپالی حکام نے اعلان کیا تھا کہ انھوں نے آئی وی ایف کلینکس کے آپریٹنگ معیارات کے حوالے سے تحقیقات کا آغاز کر دیا ہے۔
BBC نیپال پولیس کی سینٹرل انویسٹیگیشن بیورو کا کہنا ہے کہ اس معاملے میں متاثرین بہت تکلیف دہ عمل سے گزریں
چندرہ کبر کاپنگ نیپال میں سینٹرل انویسٹیگیشن بیورو کے سربراہ ہیں۔
اُن کا کہنا ہے کہ کلینکس کی طرف سے بروکرز (ایجنٹس) کو ہر بیضے کے بدلے 330 ڈالر تک ادا کیے جاتے ہیں جس میں سے زیادہ تر رقم بروکر خود رکھ لیتے ہیں جبکہ بہت تھوڑی رقم بیضہ دینے والی لڑکیوں یا خواتین کو دیے جاتے ہیں۔
وہ کہتے ہیں کہ ان کی تحقیقات کے مطابق 18 سال سے کم عمر بچیوں کے بیضوں کو اُن کے والدین یا سرپرستوں کی اجازت کے بغیر لیا جاتا رہا ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ ’ہمیں معلوم ہوا ہے کہ یہ لڑکیاں بہت تکلیف دہ عمل سے گزری ہیں۔ انھیں 10 روز تک مسلسل انجیکشن لگائے جاتے رہے تاکہ ان کی بیضہ دانی میں ایگ مکمل طور پر میچور ہو جائیں۔ اور اس کے بعد ان کی سرجری کی گئی تاکہ ان سے ایگز کو نکالا جائے۔ اس پیچیدہ اور صحت کے لیے خطرناک عمل کو کرتے ہوئے والدین سے کوئی اجازت نہیں لی گئی۔‘
پولیس حکام ماننا ہے کہ ہسپتال کے ریکارڈ میں بھی تبدیلیاں کی گئیں اور بیضے عطیہ کرنے والوں کی عمریں اور نام غلط لکھے گئے۔
31 برس سے منجمد ایمبریو یا بیضے سے بچے کی پیدائش کا نیا ریکارڈ قائمتین افراد کے ڈی این اے سے بچہ پیدا کرنے کی تکنیک جو بچے کو مہلک وراثتی بیماری سے پاک کر دیتی ہے
پولیس کے ایک سینیئر افسر ہوبندرہ بوگاتی کہتے ہیں کہ یہ تکلیف دہ اور غیر اخلاقی عمل ہے۔
وہ کہتے ہیں کہ ایک بچی کو اس مشکل صورتحال میں ڈالنا بدترین عمل ہے۔
اس معاملے میں جولائی کے مہینے میں تین ڈاکٹروں سمیت پانچ افراد کو گرفتار کیا گیا تھا، تاہم کچھ ہی دنوں بعد یہ تمام افراد ضمانت پر رہا کر دیے گئے۔
قانون کی عدم موجودگی
اس وقت نیپال میں رائج قانون کے مطابق بیضہ یا سپرم کو عطیہ کرنے کے حوالے سے عمر کی کوئی حد مقرر نہیں کی گئی ہے۔
اسی لیے پولیس فی الحال ان تمام کیسز کی تحقیقات 2018 میں پاس ہونے والے چلڈرن ایکٹ کے تحت کر رہی ہے۔ اس ایکٹ کے مطابق جو بھی بچوں کو کسی طبی عمل کے لیے جسمانی طور پر کوئی نقصان پہنچائے گا اسے 550 ڈالر تک جرمانہ اور تین سال تک قید ہو سکتی ہے۔
مقامی میڈیا کی رپورٹس کے مطابق نیپال میں 50 کے قریب فرٹیلٹی کلینکس ایسے ہیں جن کے بارے میں خیال کیا جاتا ہے کہ زیادہ ترقانون کی نظر میں نہیں اور غیر رجسٹرڈ ہیں۔
اگرچہ سنہ 2020 میں پبلک ہیلتھ ریگولیشن نے آئی وی ایف کو ایک خصوصی میڈیکل سروس کے طور پر تسلیم کیا تھا اور اسے وزارت صحت کے ماتحت کیا تھا۔ اس ریگولیشن میں کہا گیا تھا کہ جو ادارے اس سروس کو فراہم کریں گے ان کو ایک مخصوص عرصے کے بعد اپنے لائسنس کی دوبارہ سے تجدید کروانی ہو گی تاکہ احتیاط سے متعلق مخصوص معیارات کو قائم رکھا جا سکے۔
BBCبیضے حاصل کرنے کا عمل پیسوں کے عوض کیا جا رہا تھا
کھٹمنڈو کے پاروپاکر میٹرنٹی اینڈ ویمن ہسپتال کے ڈائریکٹر شری پراساد آدھکاری کا کہنا ہے کہ ہمارے پاس کوئی قانون ہی موجود نہیں کہ جس میں بتایا جائے کہ بیضوں یا سپرم کو عطیہ کرنے اور حاصل کرنے کے لیے کیا معیارات ہیں جن پر عمل کرنا ضروری ہے۔ اُن کا خیال ہے کہ اسی کمی کی وجہ سے بہت زیادہ بدانتظامی ہوئی ہے۔
وہ مزید کہتے ہیں کہ نیپال میں ایسے قوانین بنانے کی ضرورت ہے جو اس بات کو یقینی بنائیں کہ بالغ افراد اس قسم کے عطیات مکمل طبی معائنے کے بعد ہی کر سکتے ہوں۔
ڈاکٹر ریجل، جنھوں نے نیپال میں سنہ 2004 میں پہلی آئی وی ایف ڈیلیوری کی تھی، کا کہنا ہے کہ ہم حکومت سے طویل عرصے سے کہہ رہے ہیں کہ وہ اس حوالے سے ایک ہدایت نامہ متعارف کروائے۔
ان کا کہنا ہے کہ اس وقت ایسی پالیسیاں لانے کی ضرورت ہے جو اس بات کو یقینی بنائیں کہ ہماری خدمات ضرورت مند لوگوں تک پہنچیں۔
نیپال کے وزیر صحت و آبادی پرادیپ پوڈل کا کہنا ہے کہ اس مبینہ معاملے نے شعبہ صحت میں گورننس کے حوالے سے سنگین خدشات کو جنم دیا ہے۔
انھوں نے بی بی سی کو بتایا کہ ’ہم نے اس معاملے کی تحقیقات شروع کر دی ہیں اور جلد ہی ہم نئی گائیڈ لائنز جاری کریں گے تاکہ اس وقت موجود خامیوں کو دور کیا جا سکے۔‘
دیگر ممالک میں کیا شرائط ہیں؟
بہت سے ممالک میں بیضوں اور سپرم کو عطیہ کرنے کے عمل کے حوالے سے بہت سخت قواعد و ضوابط موجود ہیں۔
انڈیا میں موجود ایکٹ کے مطابق 23 سے 35 سالہ خاتون اور 21 سے 55 سال کا مرد ہی اپنا بیضہ اور سپرم عطیہ کرنے کے اہل ہیں۔
کوئی بھی خاتون زندگی میں صرف ایک بار ہی بیضہ عطیہ کر سکتی ہیں، جبکہ بیضہ عطیہ کرنے والی خاتون کی تلاش کے لیے ایجنٹ یا ثالثوں کا استعمال ایک مجرمانہ فعل ہے، جس کی سزا آٹھ سال قید اور تقریباً 23،000 ڈالرز جرمانہ ہے۔
برطانیہ میں 36 سال سے کم عمر خواتین اپنا بیضہ عطیہ کر سکتی ہیں جبکہ 46 سال سے کم عمر مرد اپنا سپرم عطیہ کر سکتے ہیں۔
کسی شخص یا لائسنس ہولڈر کے لیے گیمیٹس، ایمبریو یا انسانی ایڈمکس ایمبریو کی فراہمی کے بدلے ادائیگی یا فوائد دینا یا لینا ایک مجرمانہ فعل ہے۔
ہیومن فرٹیلائزیشن اینڈ ایمبریالوجی اتھارٹی کے ریگولیشن کے مطابق جرم ثابت ہونے پر ملوث افراد کو قید ہو سکتی ہے، جرمانہ ہو سکتا ہے یا دونوں کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔
تاہم برطانیہ میں جو خاتون اپنے بیضے کو عطیہ کرتی ہیں انھیں ٹرویلنگ یا اس مقصد کے لیے کسی دوسری جگہ جا کر عارضی طور پر رہنے کے اخرجات دیے جاتے ہیں۔
امریکہ میں بیضہ عطیہ کرنے والوں کی عمر 21 سے 34 کے درمیان ہونی چاہیے۔
امریکی سوسائٹی برائے تولیدی ادویات کے مطابق ڈونر کے لیے اچھی صحت کا حامل ہونا ضروری ہوتا ہے اور ڈاکٹرز کو اس کی موروثی صورتحال کے بارے میں معلوم ہونا چاہیے۔
NurPhoto via Getty Images حکام سمجھتے ہیں کہ پسماندہ علاقوں میں رہنے والی لڑکیاں آئی وی ایف کیلنکس کا آسانی سے شکار بن سکتی ہیں دماغی اور جسمانی دباؤ
نوبرو نے بی بی سی کو بتایا کہ وہ اس لیے لڑ رہے ہیں تاکہ یہ بات یقینی بنائی جا سکے کہ کل کوئی اور لڑکی اس صورتحال کا شکار نہ ہو۔
وہ کہتے ہیں کہ ’ہم نے اس صورتحال کا سامنا کیا، لیکن ہم چاہتے ہیں کہ دیگر بچیاں اس سے محفوظ رہیں۔ ہم پولیس کے پاس اس خوف سے گئے کہ ایجنٹ اور بھی بچیوں کو استعمال کر سکتے ہیں۔‘
نوبرو کو خدشہ ہے کہ اگر یہ بات ان کے خاندان کو پتہ چل گئی تو انھیں ممکنہ طور پر انھیں بہت بدنامی کا سامنا کرنا پڑے گا۔
بی بی سی سے گفتگو میں نوبرو نے بتایا کہ اس واقعے کے بعد ان کے اہلخانہ شدید صدمے سے دوچار ہیں اور اُن کی اہلیہ کو اب بلڈ پریشر کی گولی کھانی پڑتی ہے۔
نوبرو کہتے ہیں کہ ’میری بیٹی بھی بہت زیادہ دماغی طور پر دباؤ کا سامنا کر رہی ہے۔ ڈاکٹروں کا کہنا ہے کہ شاید وہ بہت زیادہ سوچتی ہے اور اس کی وجہ سے وہ ڈپریشن میں مبتلا ہو سکتی ہے۔ تاہم ابھی ہمیں اس کی مکمل میڈیکل رپورٹ نہیں ملی۔‘
نوبرو کا کہنا ہے کہ وہ چاہتے ہیں کہ حکومت آئی وی ایف سے متعلق سینٹرز میں ہونے والی بے ضابطگیوں پر قابو پانے کے لیے سخت اقدامات کرے۔
ان کا کہنا ہے کہ میں نے ڈاکٹر کو کہا کہ اگر 16 سے 17 سال کی کم عمر لڑکیوں کے انڈوں کو اس طریقے سے لیا جا رہا ہے تو نیپال بچیوں کے لیے محفوظ ملک نہیں ہے۔
وہ کہتے ہیں کہ ’مجھے یقین ہے کہ 20 سے 35 سال کی خواتین بھی بڑی تعداد میں اس کاروبار میں ملوث ہیں کیونکہ یہ کلینکس بہت زیادہ پیسے بنا رہے ہیں۔‘
کونسانگ بھی بہت پریشان ہیں۔
ان کا کہنا ہے کہ ’یہ بہت غیر اخلاقی اور اندوہناک جرم ہے، جس میں کم عمر لڑکیوں کو استعمال کیا گیا ہے، مجھے ایسا لگتا ہے یہ ایسا جرم ہے جو فلموں میں دکھایا جاتا ہے۔ ذمہ داران کو جیل میں قید کرنا چاہیے۔‘
اس تحریر میں متاثرین کے ناموں کوان کے تحفظ کے پیش نظر تبدیل کر دیا گیا ہے، اضافی رپورٹنگ بی بی سی گلوبل جرنلزم
31 برس سے منجمد ایمبریو یا بیضے سے بچے کی پیدائش کا نیا ریکارڈ قائمتین افراد کے ڈی این اے سے بچہ پیدا کرنے کی تکنیک جو بچے کو مہلک وراثتی بیماری سے پاک کر دیتی ہےجنسی تعلق کے نتیجے میں حمل ٹھہرنے سے متعلق سُنی سُنائی باتیں جن کا حقیقت سے کم ہی تعلق ہےکیا عورتوں کی بچہ پیدا کرنے کی صلاحیت ساری عمر قائم رہ سکتی ہے؟