مجید بریگیڈ کیا ہے اور امریکہ کی جانب سے اسے ’غیر ملکی دہشت گرد تنظیم‘ قرار دیے جانے کا کیا مطلب ہے؟

بی بی سی اردو  |  Aug 12, 2025

Getty Images

پاکستان میں حکام نے امریکہ کی جانب سے کالعدم مجید بریگیڈ کو ’غیر ملکی دہشت گرد تنظیم‘ قرار دینے کو ’قابل تحسین اقدام‘ قرار دیا ہے۔

امریکہ کے محکمہ خارجہ کی جانب سے یہ اقدام ایک ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب پاکستان کے آرمی چیف فیلڈ مارشل سید عاصم منیر امریکہ کے سرکاری دورے پر ہیں۔

امریکی محکمہ خارجہ نے گذشتہ رات (11 اگست) اعلان کیا کہ ’آج محکمہ خارجہ بلوچستان لبریشن آرمی اور مجید بریگیڈ کو غیرملکی دہشت گرد تنظیم کے طور پر نامزد کر رہا ہے۔ جبکہ مجید بریگیڈ کو بلوچستان لبریشن آرمی کی سابقہ 'خصوصی طور پر نامزد عالمی دہشت گردوں کی فہرست' (ایس ڈی جی ٹی) میں شامل کیا جا رہا ہے۔‘

امریکی محکمہ خارجہ کی جانب سے بتایا گیا ہے کہ 'بلوچستان لبریشن آرمی کو متعدد دہشت گرد حملوں کے بعد سنہ 2019 میں خصوصی طور پر نامزد عالمی دہشت گردوں کی فہرست میں شامل کیا گیا تھا۔ تاہم 2019 کے بعد سے، بی ایل اے اور مجید بریگیڈ نے مزید حملوں کی ذمہ داری قبول کی ہے۔'

محکمہ خارجہ کے مطابق حالیہ عرصے میں 'سنہ 2024 میں بی ایل اے نے دعویٰ کیا کہ اس نے کراچی میں ایئر پورٹ اور گوادر پورٹ اتھارٹی کمپلیکس کے قریب خودکش حملے کیے تھے۔ مارچ 2025 میں بی ایل اے نے کوئٹہ سے پشاور جانے والی جعفر ایکسپریس ٹرین کے ہائی جیکنگ کی ذمہ داری قبول کی تھی۔ اس حملے میں 31 شہریوں اور سکیورٹی اہلکاروں کو ہلاک کیا گیا اور 300 سے زیادہ مسافروں کو یرغمال بنایا گیا۔'

امریکہ محکمہ خارجہ نے کہا ہے کہ ’تنظیم کو دہشت گرد قرار دینا دہشت گردی کے خلاف ہماری جنگ میں ایک اہم کردار ادا کرتا ہے اور دہشت گرد سرگرمیوں کی حمایت کو روکنے کا ایک مؤثر طریقہ ہے۔‘

یاد رہے کہ پاکستان نے سنہ 2024 میں مجید بریگیڈ، جو کہ بی ایل اے کا خودکش سکواڈ ہے، کو کالعدم دہشت گرد تنظیم قرار دیا تھا۔ جبکہ علیحدگی پسند تنظیم بی ایل کو سنہ 2006 میں کالعدم قرار دیا گیا تھا۔

اس سے قبل پاکستان نے امریکہ پر زور دیا تھا کہ وہ مجید بریگیڈ کو ’دہشت گرد تنظیم‘ قرار دے۔

بی ایل اے کی مجید بریگیڈ گذشتہ ایک دہائی سے زیادہ عرصے سے بلوچستان میں متحرک ہے اور حالیہ برسوں میں اس کالعدم تنظیم کی جانب سے کیے گئے حملوں میں وسعت اور شدت نظر آئی ہے۔ اسی صورتحال کے پیش نظر پاکستان نے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں بھی بی ایل اے کی ذیلی تنظیم مجید بریگیڈ پر پابندی کا مطالبہ کیا تھا۔

مجید بریگیڈ کیا ہے اور شدت پسندی کی کن کارروائیوں میں ملوث رہی؟BBCنومبر 2018 میں کراچی میں چین کے سفارتخانے پر اس تنظیم کی جانب سے بڑا حملہ کیا گیا تھا

مجید بریگیڈ اور اس کے نام نہاد فدائین کا نام پہلی بار 30 دسمبر 2011 کو اُس وقت سامنے آیا جب بلوچستان کے دارالحکومت کوئٹہ میں سردیوں کی ایک شام ارباب کرم خان روڈ پر واقع ایک گھر کے باہر ایک کار کو ایک خود کش حملہ آور نے نشانہ بنایا۔

یہ گھر سابق وفاقی وزیر نصیر مینگل کے بیٹے شفیق مینگل کا تھا۔ اس حملے میں شفیق مینگل تو محفوط رہے مگر اُن کے محافظوں سمیت 10 افراد ہلاک جبکہ 23 زخمی ہوئے۔

اس حملے کی ذمہ داری کالعدم بلوچستان لبریشن آرمی نے قبول کی اور بتایا کہ ’مجید بریگیڈ‘ کی جانب سے یہ ’فدائی حملہ‘ درویش نامی نوجوان نے کیا تھا۔

اس کے بعد مجید بریگیڈ منظر عام سے کچھ عرصے کے لیے غائب ہو گئی اور اس کی جانب سے کسی بڑے حملے کی ذمہ داری قبول نہیں کی گئی۔

اُستاد اسلم عرف اچھو مجید بریگیڈ کے پہلے سربراہ تھے اور وہ اس کالعدم تنظیم کی کارروائیوں میں ناصرف جدت اور شدت لائے بلکہ وہ بلوچستان میں دہائیوں سے جاری بلوچ شدت پسندی کو پہاڑوں سے شہروں بلخصوص کراچی تک لے آئے۔

دسمبر 2018 میں اسلم اچھو قندھار میں ہونے والے ایک حملے میں ہلاک ہو گئے جس کے بعد اس کالعدم جماعت کی قیادت بشیر زیب نامی شخص کے پاس آئی جو ماضی میں بی ایس او کے چیئرمین رہ چکے تھے۔

اسلم اچھو پر بلوچستان میں بم دھماکوں، سیکورٹی فورسز پر حملوں اور ٹارگٹ کلنگ کے متعدد مقدمات درج تھے، جبکہ اُن کے سر کی قیمت 50 لاکھ روپے مقرر کی گئی تھی۔

شفیق مینگل پر ہونے والے حملے کے تقریباً سات سال بعد اگست 2018 کو بلوچستان میں سونے اور تانبے کے ذخائر والے ضلع چاغی کے صدر مقام دالبندین میں ایک ٹرک اپنے سامنے آنے والی ایک ایسی بس سے ٹکرا گیا جس میں چینی انجینیئرز سوار تھے۔ اس خودکش حملے میں تین چینی انجنیئروں سمیت پانچ افراد زخمی ہوئے۔ مجید بریگیڈ نے اس حملے کی ذمہ داری قبول کی اور بتایا گیا کہ حملہ آور ’ریحان‘ نامی نوجوان تھا جو مجید بریگیڈ کے سربراہ اسلم استاد عرف اسلم اچھو کا بیٹا تھا۔

’دہشتگردوں کے ساتھ سیلفی بنانا جرم ہے‘: حکومتِ بلوچستان کو یہ اشتہار دینے کی ضرورت کیوں پڑی؟بلوچستان میں مبینہ شدت پسندوں کی لاشوں اور تدفین کا تنازع: ’لواحقین آئیں، مانیں وہ دہشت گرد تھا، ہمیں لاشوں سے کیا لینا دینا ہے‘کیا بلوچستان میں علیحدگی پسند تنظیموں کا ترکی کے سامنے ہتھیار ڈالنے والی آزاد کرد ریاست کی حامی تنظیم سے موازنہ کیا جا سکتا ہے؟بلوچستان میں پنجاب کے مسافروں کا قتل: ’ایک گھر سے بیک وقت تین جنازوں کے اٹھنے کا صدمہ بیان نہیں کیا جاسکتا‘

اسی سال یعنی نومبر 2018 میں کراچی میں چین کے سفارتخانے پر بڑا حملہ کیا گیا، جس میں چار حملہ آور پولیس مقابلے میں مارے گئے۔ اس حملے کی ذمہ داری بھی مجید بریگیڈ نے ہی قبول کی۔

سنہ 2019 میں اس گروپ نے چین، پاکستان اقتصادی راہداری کے مرکز گوادر شہر میں واقع پی سی ہوٹل پر حملہ کیا، جس میں پانچ افراد ہلاک ہوئے جبکہ تین حملہ آور مارے گئے۔ مجید بریگیڈ نے اس کارروائی کو 'فدائی مشن' قرار دیا تھا۔

اس کے اگلے سال جون 2020 میں کراچی سٹاک ایکسچینج پر حملہ کیا گیا جہاں چار حملہ آور مارے گئے، اس حملے کی ذمہ داری بھی مجید بریگیڈ نے ہی قبول کی تھی۔

حالیہ عرصے میں سنہ 2022 میں کراچی یونیورسٹی میں شاری بلوچ نامی خاتون نے چینی کنفیوشس سینٹر کے اساتذہ پر خودکش حملہ کیا جبکہ سنہ 2023 میں تربت کے علاقے میں سمیعہ قلندرانی نامی خاتون نے ایف سی کی ایک گاڑی کو نشانہ بنایا۔ سمیعہ اسلم اچھو کے بیٹے ریحان کی منگیتر تھیں۔

اس سے اگلے ہی برس یعنی سنہ 2024 میں ماہل بلوچ نامی خاتون نے بیلہ میں ایف سی کے کیمپ پر خودکش حملہ کیا۔ اس تمام حملوں کی ذمہ داری مجید بریگیڈ نے قبول کی اور اس کے نتیجے میں یہ بھی سامنے آیا کہ یہ کالعدم تنظیم اب اپنی خودکش کارروائیوں کے لیے خواتین کا استعمال کر رہی ہے۔

اسی طرح رواں برس مارچ میں جعفر ایکسپریس کو یرغمال بنانے اور مسافروں کو ہلاک کرنے کے واقعے کی ذمہ داری بھی اسی تنظیم نے قبول کی تھی۔

جیمز ٹاؤن فاؤنڈیشن کے لیے اپنے ریسرچ پیپر میں عبدالباسط لکھتے ہیں کہ کالعدم مجید بریگیڈ کے پاس اعلیٰ درجے کے ہتھیار موجود ہیں جن میں دیسی ساختہ دھماکہ خیز آلات (IED)، اینٹی پرسنل اور اینٹی ٹینک بارودی سرنگیں، دستی بم، راکٹ سے چلنے والے دستی بم (RPGs) اور مختلف خودکار ہتھیار جیسے M4 رائفلز کے ساتھ ساتھ بی ایم 12، ایم ایم 12، ایم ایم 012 اور دیگر خودکار ہتھیار شامل ہیں۔

ان کے مطابق مجید بریگیڈ کے عسکریت پسندوں کے پاس خودکش جیکٹ بنانے کے لیے سی فور جیسے جدید ترین دھماکہ خیز مواد تک رسائی ہے۔

AFPسنہ 2022 میں کراچی یونیورسٹی میں شاری بلوچ نامی خاتون نے چینی کنفیوشس سینٹر کے اساتذہ پر خودکش حملہ کیامجید بریگیڈ نام کہاں سے آیا؟

پاکستان پیپلز پارٹی کے پہلے وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کی حکومت کے دوران جب بلوچستان کی پہلی منتخب حکومت یعنی نیشنل عوامی پارٹی کی حکومت کو برطرف کیا گیا تو بلوچستان میں مزاحمت شروع ہو چکی تھی۔

اگست 1975 میں جب وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کوئٹہ میں ایک جلسہ عام سے خطاب کرنے کے لیے پہنچے تو ایک دستی بم دھماکے میں مجید لانگو نامی نوجوان ہلاک ہو گیا، بعد میں یہ اطلاعات سامنے آئیں کہ مجید نامی یہ نوجوان وزیر اعظم بھٹو پر حملہ کرنے کا ارادہ رکھتا تھا۔

مجید لانگو کا تعلق منگوچر کے علاقے سے تھا اور وہ طالب علمی سے بلوچ سٹوڈنٹس آرگنائزیشن یعنی بی ایس او سے وابستہ تھا۔

مجید لانگو کی ہلاکت کے بعد، اُن کے چھوٹے بھائی کی ولادت ہوئی جس کا نام بھی مجید رکھا گیا، جس نے کالعدم بلوچ لبرشین آرمی میں شمولیت اختیار کی اور سنہ 2011 میں کوئٹہ کے قریب قانون نافذ کرنے والے اداروں سے ایک مقابلے میں ہلاک ہو گیا۔

بی ایل اے کا کہنا ہے کہ سنہ 2011 میں مجید کی ہلاکت والے دن ہی اس ’فدائی گروپ‘ کی تشکیل کا اعلان ہوا اور استاد اسلم عرف اچھو نے اس تنظیم کا نام دونوں بھائیوں کے ناموں کے پیش نظر مجید بریگیڈ رکھا۔

امریکہ کی جانب سے مجید بریگیڈ کو ’غیرملکی دہشت گرد تنظیم‘ قرار دیے جانے کا کیا مطلب ہے؟

امریکہ کی جانب سے کسی بھی تنظیم کو ’غیرملکی دہشت گرد تنظیم‘ قرار دیے جانے کے نتیجے میں ایسی تنظیم کے تمام اثاثے منجمد کر دیے جاتے ہیں اور کسی بھی فرد یا ادارے کو اس کے ساتھ لین دین کی اجازت نہیں ہوتی۔

دہشت گرد قرار دی گئی تنظیم کو کسی بھی قسم کی مالی مدد فراہم کرنا امریکی قانون کے تحت سنگین جرم ہے جس کی سزا بیس سال یا اس سے زیادہ کی قید ہو سکتی ہے۔ اس کے علاوہ دہشت گرد قرار دی گئی تنظیم کے اراکین اور مددگاروں پر امریکہ میں داخلے پر پابندی اور امیگریشن کے دیگر سخت اقدامات بھی نافذ ہوتے ہیں۔

امریکی محکمہ خارجہ کی ویب سائٹ کے مطابق ’امریکہ میں موجود یا امریکی دائرہ اختیار میں آنے والے کسی بھی شخص کے لیے کسی بھی نامزد غیر ملکی دہشتگرد تنظیم (ایف ٹی او) کو جان بوجھ کر 'مادی مدد یا وسائل' فراہم کرنا غیر قانونی ہے۔‘

امریکی قانون کے تحت ’مادی مدد‘ سے مراد کسی بھی قسم کی مالی مدد، رہائش، ماہرانہ رائے دینا، ٹریننگ، نقلی دستاویزات اور شناخت فراہم کرنا، کمیونیکیشن کے آلات، دھماکہ خیز مواد، افرادی قوت اور ذرائع آمدورفت فراہم کرنا وغیرہ شامل ہے۔

اگر کسی نامزد غیر ملکی دہشتگرد تنظیم (ایف ٹی او) کا کوئی رکن امریکی شہری نہیں ہے تو اس کے امریکہ میں داخلے پر پابندی ہوتی ہے جبکہ اگر ایسا رُکن پہلے سے امریکہ موجود ہو تو اسے امریکہ بدر بھی کیا جا سکتا ہے۔

اس کے علاوہ، اگر کسی امریکی مالیاتی ادارے کو پتا چلتا ہے کہ اُن کے پاس ایسے فنڈز کا کنٹرول موجود ہے جس میں کسی نامزد غیرملکی دہشت گرد تنظیم یا اس کے کارکنوں کی دلچسپی ہے، تو اُس ادارے پر لازم ہے کہ وہ اس کی اطلاع امریکی محکمہ خزانہ کو دے۔

امریکی محکمہ خارجہ کے مطابق کسی بھی تنظیم کو غیر ملکی دہشت گرد تنظیم قرار دیے جانے کا مقصد دہشت گردی کی مالی معاونت کو روکنے اور دیگر ممالک کو بھی ایسا کرنے کی ترغیب دینے کی امریکی کوششوں کی حمایت کرنا ہے۔

اس کا مقصد ایسی تنظیموں کو بین الاقوامی سطح پر الگ تھلگ کرنا، نامزد تنظیموں کے ساتھ عطیات یا تعاون اور اقتصادی لین دین کو روکنا، اور دہشت گرد تنظیموں کے بارے میں عوامی بیداری کو فروغ دینا ہے۔

گوادر کے ماہی گیر، مہنگا ایرانی تیل اور سمگلنگ: ایران اور اسرائیل کی جنگ نے بلوچستان میں لوگوں کو کیسے متاثر کیا؟جعفر ایکسپریس میں سوار مسافروں نے کیا دیکھا: ’دھماکے کے بعد بوگیوں میں اندھیرا چھا گیا‘’میرا بیٹا بے گناہ تھا، اسے کیوں مارا گیا‘: ژوب میں پنجاب سے تعلق رکھنے والے نو مسافر جنھیں بسوں سے اتار کر قتل کیا گیاخضدار سکول بس حملہ: ’ایک باپ نے اپنے سارے بچے کھو دیے، بچوں کی ٹانگیں چاک جبکہ آنتیں جسم سے باہر لٹکی ہوئی تھیں‘کوئٹہ میں 13 ’نامعلوم لاشوں‘ کی تدفین: یہ لوگ کون تھے اور بی بی سی نے قبرستان میں کیا دیکھا؟کیا خان آف قلات بلوچستان کو انڈیا کا حصہ بنانا چاہتے تھے؟
مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More